دہشت گردی کے بنیادی محرکات
خودکش حملے دہشت گردوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں اور قبائلی معاشرے خودکش حملوں کا گڑھ بنے ہوئے ہیں۔
دنیا میں انسانی جان سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔ انسان 100 سال کی عمر کو پہنچنے کے بعد بھی زندہ رہنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ بھوک، پیاس، غربت، بیماری، بیکاری جیسی مشکلات اور اذیتوں کے باوجود بھی انسان زندگی سے جھٹا رہتا ہے، پھر وہ کیا وجوہات ہیں کہ زندگی سے اس قدر پیار کرنے والا انسان یہ جانتے ہوئے کہ پیٹ سے بندھا ہوا بارود دوسروں کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کے چیتھڑے بھی اڑا دے گا، خوشی خوشی ایک انتہائی وحشیانہ موت کو گلے لگانے کی طرف آگے بڑھتا ہے۔
آج پاکستان اور افغانستان خودکش حملوں کے سب سے بڑے مرکز بنے ہوئے ہیں اور عراق و شام میں بھی یہی بلکہ اس سے بدتر صورت حال موجود ہے، اس کے علاوہ کئی مسلم ممالک خودکش حملوں کی زد میں ہیں۔ خودکش حملے پیٹ سے بارود باندھ کر بھی کیے جا رہے ہیں، جس سے ہزاروں ایٹم بم رکھنے والے ترقی یافتہ ملک بھی خوفزدہ ہیں۔ خودکش حملوں سے خوف کی وجہ یہ ہے کہ یہ حملہ کہیں بھی، کسی وقت بھی کیا جاسکتا ہے اور اگر اسے روکنے کی کوشش کی گئی تو بھی خودکش حملہ آور اپنے سمیت کئی لوگوں کی جانیں لے لیتا ہے۔
پاکستان، افغانستان، عراق، شام اگرچہ خودکش حملوں کے سب سے بڑے مراکز بنے ہوئے ہیں لیکن افریقی مسلم ملکوں کے ساتھ ساتھ یہ وبا تیزی کے ساتھ مغربی ملکوں میں بھی پھیلتی جا رہی ہے۔ خودکش حملے دہشت گردوں کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں اور قبائلی معاشرے خودکش حملوں کا گڑھ بنے ہوئے ہیں۔ ہماری حکومتیں جو دس سال سے دہشت گردی کو بوجوہ برداشت کرتی آ رہی تھیں اب اس کے خلاف موثر اقدامات کر رہی ہیں، جن میں فوجی آپریشن ضرب عضب کے بعد اب قومی ایکشن پلان بھی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے لانچ کیا جا رہا ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میں زمینی اور فضائی کارروائیوں کے ذریعے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جا رہا ہے اور شہری علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کے ذریعے دہشت گردوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ان کوششوں میں دہشت گردوں کے ساتھ سیکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بھی جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دہشت گردی اب کسی ایک یا چند ملکوں کا مسئلہ نہیں رہی بلکہ یہ عفریت اب عالمی مسئلہ بن گیا ہے، حال ہی میں دہشت گردی کے خلاف پیرس میں 40 ملکوں کے سربراہوں نے ایک ریلی میں شرکت کی، اس ریلی میں غیر مسلم ملکوں کے سربراہوں کے ساتھ ساتھ کئی مسلم ملکوں کے سربراہوں نے بھی شرکت کی، جس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے یا اس حقیقت کی تصدیق ہو رہی ہے کہ دہشت گردی قومی نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ بن گئی ہے۔
اسی مسئلے کے حل کے لیے مختلف ملکوں کے سربراہ ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کر رہے ہیں، حال ہی میں پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے امریکا کا طویل اور برطانیہ کا بھی ایک مختصر دورہ کیا اور موصوف افغانستان بھی آ جا رہے ہیں۔ امریکا کے وزیر خارجہ اور فوجی جنرل نے بھی پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا، اس دورے کا بھی بنیادی مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے مختلف اقدامات کا جائزہ لینا ہی تھا۔
دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مختلف فوجی اقدامات کے علاوہ بھی کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں متاثرہ ممالک کی سرحدوں کی نگرانی اور دہشت گردوں کی فنڈنگ روکنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ افغانستان جو ابھی تک اس حوالے سے پاکستان سے بوجوہ تعاون سے گریزاں رہا تھا اب کھل کر پاکستان کے ساتھ تعاون کر رہا ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان اقدامات اور دس گیارہ سال تک امریکا نیٹو اور اس کے اتحادیوں کی دہشت گردی کے خلاف سخت فوجی مہم کے باوجود دہشت گردی میں کمی کے بجائے اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ہی ملکوں کے اکابرین غور کرنے کی زحمت گوارا کرتے نظر نہیں آتے، ہم نے اس حقیقت کی نشان دہی ابتدا ہی میں کر دی ہے کہ دہشت گردوں کا سب سے بڑا ہتھیار خودکش حملے ہیں۔ ہمارے حکمران خودکش حملہ آوروں کو تو پکڑنے پر سارا زور صرف کر رہے ہیں اور اگر کہیں چند خودکش حملہ آور خودکش حملوں سے قبل پکڑ لیے جاتے ہیں تو اسے بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے اور میڈیا میں بھی اسے بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن دہشت گردی کے محرکات کی تلاش اور اس کے سدباب کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔
اس بات میں اب کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہی کہ دہشت گردی مسلم ملکوں ہی میں فروغ پا رہی ہے اور اس کے فروغ کے مراکز عموماً قبائلی علاقے ہیں جہاں کے عوام مذہب کے حوالے سے حد درجہ حساس ہوتے ہیں اور ملا پر ان کا اعتقاد مستحکم ہوتا ہے۔ قبائلی معاشروں میں علم کی کمی ہوتی ہے جسے منفی ذہن کے لوگ اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔دنیا میں بد امنی پھیلانے والوں میں قبائلی معاشروں کے سادہ لوح عوام خصوصاً نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت کے جذبات ابھارے اور اپنے مقاصد کے لیے دہشت گردی کا طریقہ استعمال کیا گیا۔
دہشت گردی میں کامیابی کی سب سے بڑی وجہ خودکش حملے ہیں۔ خودکش حملوں پر نوجوان اس لیے خوشی خوشی آمادہ ہو جاتے ہیں کہ انھیں یقین دلایا گیا ہوتا ہے کہ خودکش حملہ کرنے والا حملے کے بعد سیدھا جنت میں چلا جائے گا۔ خودکش حملہ آوروں کا اعتقاد اس قدر پختہ ہوتا ہے کہ وہ ان حملوں میں دوسروں کے ساتھ ساتھ اپنے جسموں کے پرخچے بھی اڑا لیتے ہیں۔
اس نفسیاتی اور اعتقادی بیماری کا بنیادی علاج تو تعلیم ہے لیکن فوری علاج یہ ہے کہ علماء کرام عوام کو بتائیں کہ اسلام میں خودکشی خواہ اس کا مقصد کوئی بھی کیوں نہ ہو، حرام ہے اور خودکشی کرنے والا جنت میں نہیں جہنم میں جائے گا، اسی طرح اسلام میں مسلمان کا خون مسلمان پر حرام ہے اور ایک انسان کا قتل پورے عالم کے قتل کے مترادف ہے۔ اس قسم کے اسلامی احکامات کی تشہیر اگرلوگوں کی مادری زبان میں بڑے پیمانے پر میڈیا میں کی جائے تو بلا شبہ بتدریج حالات میں تبدیلی آ سکتی ہے اور دہشت گردوں کے سرپرست کمزور ہو سکتے ہیں۔
دہشت گرد جانتے ہیں کہ اگر عوام تعلیم حاصل کر لیں تو وہ نہ ان کے فریب میں آئیں گے نہ خودکش حملوں کے لیے تیار ہوں گے، اسی لیے وہ نوجوانوں کو تعلیم سے دور رکھنے کے لیے بچوں کے اسکول تباہ کر رہے ہیں۔ اسلام کے اصولوں میں اور پیغمبر اسلام کی ہدایات میں تعلیم کی اہمیت کا مقام یہ ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اگر چین جانا پڑے تو مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ تعلیم کے حصول کے لیے چین جائیں، جس کا مقصد یہ تھا کہ تعلیم کے حصول کے لیے چین جیسے دور دراز ملک کے سفر کی صعوبتیں بھی برداشت کی جانی چاہئیں۔ پیغمبر اسلام کے اس فرمودہ کو قبائلی عوام کی زبان میں میڈیا کے ذریعے ان تک بڑے پیمانے پر پہنچانے کی ضرورت ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک کے حکمران اگر عوام کے ہمدرد ہوتے اور عوام میں علمی بیداری پیدا کرنا چاہتے تو اپنے بجٹ میں تعلیم کے لیے بڑا حصہ مختص کرتے لیکن عوام کو جاہل رکھنا خود حکمرانوں کے لیے بھی ضروری ہے، اس لیے وہ بجٹ میں سب سے کم رقم تعلیم پر رکھتے ہیں۔ امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک کھربوں ڈالر پھونک ڈالے ہیں، اگر یہی رقم وہ پسماندہ ملکوں خصوصاً پاکستان اور افغانستان پر لگاتا تو اس کا بہت فائدہ ہو سکتا تھا۔