جگنو بھی چمکتے ہیں برسات کے آنسو میں
تم میں سے بڑا وہ ہے جو تقویٰ رکھتا ہے۔ اعلیٰ نسب وہ ہے جو پرہیز گار ہے۔
ہوش سنبھالنے کے بعد سے میں کبھی نہیں سمجھ سکا کہ ہم نے اپنی سول سوسائٹی آخر کن بنیادوں پر استوار کی ہے۔ کتنی پرتوں میں اسے تقسیم کیا ہے؟ اگرچہ حادثہ، حادثہ ہی ہوتا ہے لیکن اس میں بھی فرق کیوں؟
سانحہ پشاور اپنے وجود میں انسانی طرز عمل کی بدترین مثال ہے جس میں 150 معصوم بچے بربریت کا شکار ہوئے۔ لیکن صحرائے تھر کے ان سیکڑوں بچوں کو کہاں لے جائیں جو حکومتی غفلت کے باعث بے بسی اور غربت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ کیا وہ بچے نہیں تھے؟ معصوم اور کم سن نہیں تھے؟ تھر میں ہونے والی ہلاکتوں کا ذمے دار کون ہے؟ یہاں کس داعش یا طالبان کو ذمے دار قرار دیا جائے؟ اس سانحے پر خصوصی عدالتیں کیوں نہیں بنائی گئیں؟
حکومت نے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیوں نہیں کیا؟ اگر وہاں طالبان ذمے دار ہیں تو یہاں کے ذمے داران کو کوئی نام کیوں نہیں دیا جاتا؟ بلکہ دکھ ہی اس بات کا ہے کہ ہر سانحے، حادثے کی ذمے داری کوئی نہ کوئی قبول کرلیتا ہے۔ تھر کے حادثے کا ذمے دار کوئی نہیں! کوئی فخریہ نہیں کہتا کہ یہ بچے ہم نے مارے ہیں۔ کہیے نا، قبول کیجیے۔ ارے بھائی! طالبان میں زیادہ اخلاقی جرأت ہے، کم ازکم تسلیم تو کرتے ہیں۔ آپ میں تو اس کا بھی فقدان ہے۔
تھر کے بچے بھی تو قوم کا مستقبل تھے۔ ملک کے معمار بننے والے تھے۔ یا چلیے میں وہ کہتا ہوں جو سننے کی آپ خواہش رکھتے ہیں۔ کہ یہ آپ کے ہاری، مزدور اور غلام بننے والے تھے۔ تو ضرورت تو ان کی بھی پڑتی ہے۔ سندھ حکومت کو ذمے دار قرار دیں تو وہ کہتے ہیں '' کوئی ہلاکت ہوئی ہی نہیں، سب میڈیا کا پروپیگنڈہ ہے۔'' وزیراعلیٰ نے بیان دیا کہ ''یہ دراصل دوران زچگی فوت ہوجانے والے بچے ہیں اور کیونکہ تھر میں کوئی لیڈی ڈاکٹر کام کرنے کے لیے تیار نہیں لہٰذا بچوں کی اموات کا سلسلہ بار بار رونما ہو رہا ہے۔ ورنہ تھر میں کوئی بھوک افلاس نہیں۔ اسپتال ادویات سے بھرے ہوئے ہیں۔''
وفاق سے گلہ کریں کہ آپ ہی اس طرف دیکھیے۔ تو جو ان کا موقف ہے اسے آپ نے سنا، پڑھا ہوگا لیکن جو وہ نہیں کہتے وہ یہ ہے کہ جسے تم نے ووٹ دیے اب سہولتیں بھی ان ہی سے مانگو۔ وہی تمہیں حقوق دیں گے۔ چنانچہ صحرا کے رہنے والے یہ غریب اور مفلوک الحال لوگ اب شٹل کاک ہیں۔ دو حکومتوں کے درمیان، ایک ایسے طبقاتی فرق کے درمیان جو شاید ازل سے ہے اور ابد تک جس کا خاتمہ نظر نہیں آتا۔ اور وہ جینے بلکہ مرنے کے لیے بھی سامان ضرورت سے محروم ہیں۔ ان وسائل سے محروم ہیں جن پر زندگی کا دارومدار ہوتا ہے۔ شاید وہ اور ان کے بچے ہماری قوم کا حصہ نہیں؟ کالے، پیلے سوکھے بچے۔ جیتے بھی تو کیا کر لیتے۔ ورنہ مرنا تو تھا ہی۔
لیکن صرف نظر کون کرسکتا ہے؟ ہم۔ کیونکہ ہم مخلوق ہیں اور جو خالق ہے کیا وہ بھی نظرانداز کردے گا؟ جس نے قرآن کریم میں فرمایا کہ ''تم میں سے بڑا وہ ہے جو تقویٰ رکھتا ہے۔ اعلیٰ نسب وہ ہے جو پرہیز گار ہے۔ لوگو! انصاف سے کام لو، خواہ سامنے تمہارا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو۔ اور ایسا اس لیے کرو کہ یوم حشر تم پر رحم کیا جائے۔'' وہ اسے فراموش نہیں کرے گا۔ اور اسے بدلہ لینے کی بھی جلدی نہیں۔ اس کی قدرت ہر انسان کو حتیٰ کہ کافر و مشرک تک کو وہ تمام مواقع فراہم کرتی ہے جو کیے جاسکتے ہیں۔ وہ آخر تک منتظر رہتا ہے کہ پلٹ آؤ ایک سیدھے راستے کی طرف۔ قبل اس کے کہ میرے عذاب کی کوئی صورت تمہیں آ لے۔''
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل سلیم اور صراط مستقیم عطا فرمائے۔ اور دلوں کی تنگی سے محفوظ فرماتے ہوئے فی الفور تھر کے غریب اور نادار لوگوں کی جانب متوجہ فرمائے، آمین۔
ادھر فرانس میں ایک میڈیا ہاؤس پر حملے میں 14 افراد کو ہلاک کردیا گیا۔ الزام ظاہر ہے کہ موجودہ داعش یا سابقہ القاعدہ پر ہے۔ میں اس حملے کی مذمت یہ کہہ کر کرتا ہوں کہ آپ کا ترقی یافتہ معاشرہ، آپ کی تہذیب و تمدن ایک ایسی اجازت کیوں دے دیتا ہے جس میں ایک شخص دنیا کی نصف النہار آبادی کی دل آزاری کرے۔ گستاخانہ خاکے بنائے پھر انھیں ویب سائٹس پر لوڈ کرے۔ آپ کے قوانین، آئین میں ایسی شرپسندی کو روکنے کے لیے معقول مواد کیوں نہیں ہے؟ اور ایسا متعدد مرتبہ ہوچکا اور کیوں ہوا؟ اس کا کوئی ایک جواب ہے آپ کے پاس؟ کیا وہ ساری تہذیب، قاعدے قوانین، عدل و انصاف آپ کی قوم اور ملکی چار دیواری تک محدود ہیں؟
بین الاقوامی فضا میں تو ہم نے آپ کے دھماکے سنے ہیں آپ کے بلاجواز حملوں کی بازگشت سنی ہے۔ اور ماحول آپ کی مذہبی منافرت سے آلودہ دکھائی دیتا ہے۔ ترقی تسلیم ہے بسر و چشم قبول ہے لیکن اسے انسانی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ امریکی، فرانسیسی یا برٹش بنیاد پر نہیں۔ میں ایمانداری سے کہہ رہا ہوں کہ میں نے پوری اسلامی تاریخ میں کبھی کسی مسلمان کو کسی نبیؐ کی شان میں ایسی گستاخی کرتے نہیں سنا نہ پڑھا۔ کیونکہ اسلام تو بین المذاہب اور بین الاقوامی تعلقات کی بہتری کا حکم دیتا ہے۔
میری دانست میں مسلمانان عالم کے لیے یہ وقت اپنی تبلیغ میں اضافے کا وقت ہے۔ انھیں چاہیے کہ اپنے پیغام کو جس قدر پھیلا سکتے ہیں پھیلائیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو اپنے بچوں کو تعلیم و تحقیق کی تربیت دیں انھیں جدید تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ انھیں غوروفکر کرنے کی ترغیب دیں۔ انھیں باخبر کریں کہ ایک شاندار ماضی اور موجودہ دور ابتلا کی وجوہات کیا ہیں؟
عزیزان گرامی! آپ داعش سے دانش مندی کی طرف سفر کریں۔ اور طالبان سے حصول علم کے جہاد کا آغاز کریں۔ مار دھاڑ سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اب دور جنگ و جدل کا نہیں بلکہ Research و Technology کا ہے۔ جنگ کا میدان سمٹ کر ایک کاغذ، دولت اور قلم پر آگیا ہے۔ اب ضرورت ہے ''غور کی اور فکر'' کی۔ یعنی وہ لوگ جن کی اللہ پاک نے قرآن کریم میں قسم کھائی ہے۔