جینا اگرکچھ یوں ہو۔۔۔

مثبت سوچ کے ذریعے اطمینان قلب حاصل کیجیے


Munira Adil January 19, 2015
مثبت سوچ کے ذریعے اطمینان قلب حاصل کیجیے۔ فوٹو: فائل

سال کے اختتام پر ایک معروف مصنف اپنے کمرے میں بیٹھا تھا۔۔۔ اس نے قلم اٹھایا اور لکھنا شروع کیا۔

''پچھلے برس میرا ایک آپریشن ہوا، میرا پِتّا نکال دیا گیا۔ مجھے کئی دنوں تک بستر پر رہنا پڑا۔ اسی سال میں ساٹھ برس کی عمر کو پہنچ گیا اور مجھے اپنی پسندیدہ ملازمت سے سبک دوش ہونا پڑا۔ اس ناشر ادارے میں نے اپنی زندگی کے 30 برس گزارے تھے۔ اسی سال مجھے اپنے والد کی وفات کا صدمہ بھی سہنا پڑا اور اسی سال میرا بیٹا میڈیکل کے امتحان میں ناکام ہو گیا، کیوں کہ اس کی گاڑی کو حادثہ پیش آگیا تھا، لہٰذا اس کو کئی دن تک اسپتال کے بستر پر گزارنا پڑے۔ گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی، یہ ایک الگ نقصان تھا۔''

آخر میں اس نے لکھا ''آہ۔۔۔ یہ ایک برا سال تھا۔''

جب مصنف کی اہلیہ کمرے میں داخل ہوئی، اس نے دیکھا کہ اس کا شوہر سوچوں میں گم اور اداس دکھائی دے رہا ہے۔ سامنے رکھے کاغذ پر شوہر کی لکھی ہوئی تحریر اس نے پڑھ لی تھی۔ وہ خاموشی سے کمرے سے چلی گئی اور جب واپس آئی تو ایک کاغذ اس نے اپنے شوہر کے تحریر کردہ کاغذ کے ساتھ رکھ دیا۔ جب مصنف نے اس کاغذ کو دیکھا تو اس پر درج تحریر یہ تھی۔

''پچھلے برس آخر کار میں نے اپنے پِتّے سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ پِتّے میں پتھری کے سبب کئی برس مجھے درد سہتے گزارنے پڑے تھے۔ میں ساٹھ برس کا ہو گیا۔ صحت اور تن درستی کے ساتھ ملازمت سے ریٹائر ہو گیا اب میں اپنے وقت کو زیادہ بہتر لکھنے میں صرف کر سکتا ہوں اور مکمل توجہ اور سکون سے لکھ سکتا ہوں۔ اسی برس میرے والد کا 95 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ وہ کبھی کسی پر بوجھ نہ بنے اور کسی بڑی بیماری کے بغیر خالق حقیقی سے جا ملے۔ اسی سال خدا نے میرے بیٹے کو نئی زندگی عطا کی۔گاڑی تباہ ہو گئی، لیکن میرے بیٹے کی زندگی بچ گئی اور وہ کسی معذوری کا شکار نہیں ہوا۔

آخر میں اس نے لکھا۔

''یہ سال بفضل خدا رحمتوں بھرا سال تھا، جو خیریت سے گزر گیا۔''

واقعات یک ساں۔۔۔ تجربات ایک، لیکن محض انداز فکر کی تبدیلی سے کتنی بڑی تبدیلی محسوس ہوئی۔ اگر ہم مثبت انداز میں زندگی کے معاملات کو سوچیں، تو ہر لمحہ خدا کا شکر ادا کرتے گزرے۔

منفی طرز فکر کے حامل افراد اپنی زندگی کا بیش تر حصہ اداسی، یاسیت، پریشانی اور فکروں میں گزار دیتے ہیں۔ وہ ہمیشہ شکوہ، شکایت اور ناشکری کرتے نظر آتے ہیں۔ درحقیقت فرق صرف سوچ کا ہے۔ مثبت طرز فکر کے حامل افراد ہر معاملے میں روشن پہلو پر نظر رکھتے ہیں، جب کہ اس کے برعکس منفی طرز فکر رکھنے والے ہر معاملے کے تاریک پہلو کو دیکھتے ہیں اور اسی لحاظ سے سوچتے ہیں اور اسی لیے منفی سوچیں پریشان رکھتی ہیں۔

ایک شخص نے اپنا مسئلہ بیان کیا ''میں بہت پریشان ہوں بیٹے کی نوکری چھوٹ گئی ہے۔'' انہوں نے جواب دیا ''بیٹے کو کوئی بیماری ہے؟'' جواب دیا ''نہیں'' انہوں نے پھر پوچھا ''کوئی معذوری ہے؟'' جواب ملا ''نہیں'' انہوں نے کہا ''آنکھیں، ہاتھ، پیر سب سلامت ہیں؟ صحیح کام کرتے ہیں۔'' جواب ملا ''جی ہاں'' تب انہوں نے کہا ''پھر کس بات کی پریشانی؟ شکر ادا کر خدا کا، کہ کوئی بیماری، کوئی معذوری نہیں۔ ملازمت ختم ہوگئی، کوئی بات نہیں اس سے بہتر مل جائے گی۔ اللہ کا شکر ادا کرو، اس کی ذات پر بھروسا رکھو اور دعا کرو، سب بہتر ہو گا۔'' وہ شخص مطمئن ہو کر دعا مانگنے لگا اور کچھ ہی دنوں میں اس کے بیٹے کو پہلے سے بہتر ملازمت مل گئی۔

غرض خدا کا شکرا دا کرتے رہیں، تو زندگی بے حد پرسکون اور خوش گوار گزرے گی۔ زندگی کے ہر معاملے میں روشن پہلو کو مدنظر رکھیں، تو زندگی روشن ہو جائے گی اگر اب تک کی زندگی منفی طرز فکر، ناشکری کے ساتھ گزاری ہے، تو بھی آج سے نئی زندگی کا آغاز کریں، اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں۔ آپ ضرور خوش رہیں گے۔ لالچ نہیں کریں گے، تو مثبت سوچیں پیدا ہوں گی۔ مثبت سوچ دریا کے صاف ستھرے بہتے پانی کی طرح ہوتی ہے، جب کہ منفی سوچ ٹھہرے ہوئے گندے پانی کی طرح۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔