تھر میں کوئلہ نکالنے کیلیے کان کی تیاری کا عملی کام شروع
منصوبے پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 200 ارب، 20 ارب تھر کے عوام پر خرچ ہونگے، قبل از ٹیکس منافع کا 2 فیصد علاقے میں۔۔۔
تھر میں کوئلے کی کان کی تیاری کے لیے عملی طور پر کام کا آغاز ہوچکا ہے۔ ''سندھ اینگروکول مائننگ کمپنی'' کے تحت سندھ حکومت اور اینگرو کے مشترکہ پروجیکٹ میں شامل اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے ایکویٹی کی شکل میں اب تک 3.8 ارب روپے کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے۔
کوئلے کی کان کی تیاری کیلیے 113 ملین بینک کیوبک میٹر(بی سی ایم) مٹی ہٹانے کا ہدف پورا کرنے کے لیے اب تک 2 بی سی ایم مٹی ہٹائی جاچکی ہے۔ سندھ حکومت کے تحت تیزی سے سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ کان اور پاور پروجیکٹ کی سائٹ پر مقامی افراد کی بڑی تعداد کو روزگار میسر ہوا ہے، منصوبے کا فنانشل کلوز اپریل 2015 تک متوقع ہے جس کے بعد منصوبے کی رفتار میں مزیدی تیزی آئیگی۔ پروجیکٹ کیلیے زمین کے ایکوزیشن بھی تیزی سے جاری ہے اور تھر کے باسیوں میں اب تک 17 کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی جاچکی ہیں۔
پروجیکٹ میں آنے والی زمین کے ایکوزیشن کیلیے تھر کی 35 سے 50 ہزار روپے فی ایکڑ اوسط قیمت کے مقابلے میں فی ایکڑ ایک لاکھ 83 ہزار روپے کی قیمت ادا کی جارہی ہے۔ زمین کی ایکوزیشن انتہائی شفاف انداز میں کی جارہی ہے اور تھر کے باسیوں کے شناختی دستاویزات اور قانونی مراحل پورے کرنے کیلیے بھی مشاورت اور رہنمائی فراہم کی جارہی ہے۔ ایس ای سی ایم سی کے پراجیکٹ پر80 ڈمپرز اور 20 شاول مٹی ہٹانے میں مصروف ہیں اور ابھی تک 16 فٹ تک مٹی ہٹائی جاچکی ہے۔
مٹی کو ہٹانے کیلیے چین سے درآمد شدہ دوTonly ٹرک اور دو Hovo ٹرک بھی استعمال کیے جارہے ہیں جن میں بالترتیب 50 سے 70 ٹن تک مٹی ایک پھیرے میں اٹھانے کی گنجائش ہے۔ یہ ٹرک چینی انجینئرز کی نگرانی میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب پاور پلانٹ کی جگہ پر بھی کھدائی کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ پروجیکٹ کا دورہ کرنے والی ٹیم کو بریفنگ دیتے ہوئے ایس ای سی ایم سی کے سی ای او شمس الدین شیخ نے کہا کہ تھر کول اور پاور پروجیکٹ منصوبہ تھر اور پاکستان اور تھر کے عوام کو بامراد کرے گا۔
تھر کے عوام کیلیے بہتر تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے، بڑے پیمانے پر مقامی افراد کو روزگار کے مواقع مہیا ہوں گے۔ منصوبے کے ساتھ ساتھ تھر کے عوام کی سماجی بہتری، بنیادی سہولتوں، تعلیم اور صحت لائیو اسٹاک اور گزربسر کے ذرائع کی بہتری کیلیے بھی بھرپور اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منصوبے کا آغاز ہونے سے قبل ہی سماجی ذمے داریوں کی ادائیگی شروع کی جاچکی ہے۔ منصوبے پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 200 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں سے 20 ارب روپے تھر کے عوام (بشمول زمین کی خریداری اور آبادی کی منتقلی) پر خرچ کیے جائیں گے۔
اس منصوبے سے حاصل ہونے والے قبل از ٹیکس منافع کا 2 فیصد علاقے میں سماجی بہتری کے کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبے کا حصہ ہے جس کیلیے پاکستانی بینکوں پر مشتمل بینک 60 ارب روپے کی فنانسنگ کرے گا فنانسنگ کی باقی ضرورت چین کی معاونت سے پوری کی جائیگی منصوبے کا فنانشل کلوز مارچ /اپریل 2015 میں ہونے کی صورت میں تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار اور قومی گرڈ کو کوئلے کی بجلی کی ترسیل 2018 کی پہلی سہ ماہی میں شروع کردی جائیگی۔
کوئلے کی کان کی تیاری کیلیے 113 ملین بینک کیوبک میٹر(بی سی ایم) مٹی ہٹانے کا ہدف پورا کرنے کے لیے اب تک 2 بی سی ایم مٹی ہٹائی جاچکی ہے۔ سندھ حکومت کے تحت تیزی سے سڑکیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ کان اور پاور پروجیکٹ کی سائٹ پر مقامی افراد کی بڑی تعداد کو روزگار میسر ہوا ہے، منصوبے کا فنانشل کلوز اپریل 2015 تک متوقع ہے جس کے بعد منصوبے کی رفتار میں مزیدی تیزی آئیگی۔ پروجیکٹ کیلیے زمین کے ایکوزیشن بھی تیزی سے جاری ہے اور تھر کے باسیوں میں اب تک 17 کروڑ روپے کی ادائیگیاں کی جاچکی ہیں۔
پروجیکٹ میں آنے والی زمین کے ایکوزیشن کیلیے تھر کی 35 سے 50 ہزار روپے فی ایکڑ اوسط قیمت کے مقابلے میں فی ایکڑ ایک لاکھ 83 ہزار روپے کی قیمت ادا کی جارہی ہے۔ زمین کی ایکوزیشن انتہائی شفاف انداز میں کی جارہی ہے اور تھر کے باسیوں کے شناختی دستاویزات اور قانونی مراحل پورے کرنے کیلیے بھی مشاورت اور رہنمائی فراہم کی جارہی ہے۔ ایس ای سی ایم سی کے پراجیکٹ پر80 ڈمپرز اور 20 شاول مٹی ہٹانے میں مصروف ہیں اور ابھی تک 16 فٹ تک مٹی ہٹائی جاچکی ہے۔
مٹی کو ہٹانے کیلیے چین سے درآمد شدہ دوTonly ٹرک اور دو Hovo ٹرک بھی استعمال کیے جارہے ہیں جن میں بالترتیب 50 سے 70 ٹن تک مٹی ایک پھیرے میں اٹھانے کی گنجائش ہے۔ یہ ٹرک چینی انجینئرز کی نگرانی میں استعمال کیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب پاور پلانٹ کی جگہ پر بھی کھدائی کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔ پروجیکٹ کا دورہ کرنے والی ٹیم کو بریفنگ دیتے ہوئے ایس ای سی ایم سی کے سی ای او شمس الدین شیخ نے کہا کہ تھر کول اور پاور پروجیکٹ منصوبہ تھر اور پاکستان اور تھر کے عوام کو بامراد کرے گا۔
تھر کے عوام کیلیے بہتر تبدیلی کا آغاز ہوچکا ہے، بڑے پیمانے پر مقامی افراد کو روزگار کے مواقع مہیا ہوں گے۔ منصوبے کے ساتھ ساتھ تھر کے عوام کی سماجی بہتری، بنیادی سہولتوں، تعلیم اور صحت لائیو اسٹاک اور گزربسر کے ذرائع کی بہتری کیلیے بھی بھرپور اقدامات کیے جائیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ منصوبے کا آغاز ہونے سے قبل ہی سماجی ذمے داریوں کی ادائیگی شروع کی جاچکی ہے۔ منصوبے پر مجموعی لاگت کا تخمینہ 200 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں سے 20 ارب روپے تھر کے عوام (بشمول زمین کی خریداری اور آبادی کی منتقلی) پر خرچ کیے جائیں گے۔
اس منصوبے سے حاصل ہونے والے قبل از ٹیکس منافع کا 2 فیصد علاقے میں سماجی بہتری کے کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔ یہ منصوبہ پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبے کا حصہ ہے جس کیلیے پاکستانی بینکوں پر مشتمل بینک 60 ارب روپے کی فنانسنگ کرے گا فنانسنگ کی باقی ضرورت چین کی معاونت سے پوری کی جائیگی منصوبے کا فنانشل کلوز مارچ /اپریل 2015 میں ہونے کی صورت میں تھر کے کوئلے سے بجلی کی پیداوار اور قومی گرڈ کو کوئلے کی بجلی کی ترسیل 2018 کی پہلی سہ ماہی میں شروع کردی جائیگی۔