ایک نئے یونیٹی مارچ کی ضرورت
آخر مغرب میں مذہبی اکابرین کے خلاف اس قسم کے گستاخانہ اور توہین آمیز خاکے اور تحریریں کیوں چھپتی رہتی ہیں؟
پچھلے ہفتے پیرس میں فرانس اور جرمنی کے دو میگزین پر حملوں کے خلاف ملین مارچ کا اہتمام کیا گیا۔ اس قسم کے مارچوں میں عموماً عوام بڑی تعداد میں شریک ہوتے ہیں لیکن اس مارچ کی معصومیت اور انفرادیت یہ تھی کہ اس مارچ میں 40 سے زیادہ ملکوں کے سربراہان اور رہنماؤں نے شرکت کی۔
فرانس اور جرمنی کے ان میگزینوں نے ایسے گستاخانہ خاکے چھاپے تھے جو مسلمانوں کی سخت دل آزادی کا سبب بنے۔ دنیا میں اس قسم کے واقعات کے خلاف دو طرح کے ردعمل ہوتے ہیں ایک پرامن احتجاج کا دوسرے پرتشدد احتجاج کا جواب دہشت گردی کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ گستاخانہ خاکوں کے خلاف فرانس اور جرمنی کے ان دو میگزین کے دفاتر پر جو حملے کیے گئے ان میں جانی نقصان بھی ہوا۔ یہ ردعمل ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دہشت گردی کے خلاف ساری دنیا میں ایک عالمگیر نفرت پائی جاتی ہے اور کئی ملکوں میں مسجدوں پر حملوں کے افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں، اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ دہشت گردی کے حوالے سے مسلمانوں کا نام ہی لیا جا رہا ہے، اس میں شک نہیں کہ جاریہ دہشت گردی میں اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے لوگ ہی ملوث ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور بدنام سارے مسلمان ہو رہے ہیں۔
اس حوالے سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر مغرب میں مذہبی اکابرین کے خلاف اس قسم کے گستاخانہ اور توہین آمیز خاکے اور تحریریں کیوں چھپتی رہتی ہیں؟ کیا یہ فرد یا افراد کی حماقتیں ہیں یا کسی منظم سازش کا حصہ؟ ترقی یافتہ دنیا میں پریس کی آزادی کو ایمان کا حصہ تو بنا دیا گیا ہے، لیکن اس آزادی کے حامیوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں دوسروں کے حقوق آجاتے ہیں۔ مذہب جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اگرچہ ایک متنازعہ مسئلہ بن رہا ہے لیکن فکر و اظہار کی آزادی کے علمبرداروں نے مذہبی آزادی کو بھی تسلیم کیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور مذاہب کے درمیان موجود اختلافات کو قابو میں رکھنے کے لیے تمام مذاہب کی آزادی کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ کسی خاص مذہب کے خلاف توہین آمیز خاکے مذہبی آزادی کی نفی ہے۔
ہم نے اس حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اس قسم کی حرکتیں فرد یا افراد کی حماقتیں ہیں یا کسی منظم سازش کا حصہ؟ اس سوال کے دو جواب ہیں۔ اس قسم کی حماقتیں ایسے فرد یا افراد کی بھی ہوسکتی ہیں جو یا تو آزادی کی حدود کا احترام نہیں کرتے یا یہ کارروائیاں کسی بڑی سازش کا حصہ بھی ہوسکتی ہیں۔
یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ آج ساری دنیا سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی دہشت گردیوں سے سخت مضطرب اور بے چین ہے اگر اس اضطراب اور بے چینی کا رخ نہ موڑا جائے تو یہ اضطراب اور بے چینی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک عالمی بغاوت میں بدل سکتی ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کے سرپرست اس ممکنہ بغاوت کا رخ موڑنے کے لیے ایسے مسئلے کھڑے کردیتے ہیں کہ عام آدمی ان کے مضمرات اور ان کے پس منظر میں موجود سازشوں کو نہیں سمجھ پاتا۔ اور اپنے غصے کا رخ ان شاطروں کی طے کردہ سمت کی طرف موڑ دیتا ہے۔
اس حوالے سے دوسرا امکان یہ ہے کہ مسلم دنیا کو جدید علوم اور ترقی سے محروم کرنے کے لیے اس قسم کے فتنے جان بوجھ کر پیدا کیے جاتے ہیں کہ مسلم ملکوں میں مذہبی انتہا پسندی عمومی شکل اختیار کرلے، اسی پس منظر میں اگر ہم مسلم ملکوں میں فروغ پانے والی مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی پر نظر ڈالیں تو اس حقیقت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ آج سارے مسلم ملکوں کی توجہ اسی ایک مسئلے دہشت گردی پر مبذول ہے، کوئی جدید علوم سائنس، ٹیکنالوجی، آئی ٹی وغیرہ کے شعبوں پر توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
یہ روش صرف آج کی بات نہیں بلکہ مسلمانوں کی تاریخ کا حصہ رہی ہے، اسی وجہ سے قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالا مال مسلم ملک ہر جگہ پسماندگی کے دلدل میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ مذہبی اور فرقہ وارانہ انتہا پسندی کو بڑھانے اور فروغ دینے کا کام ایک انتہائی منظم انداز میں کیا جا رہا ہے جس میں سامراجی ملک ہی نہیں بلکہ مسلم ملک بھی شامل ہیں۔ جو مختلف مسلم ملکوں میں موجود بیشتر مذہبی جماعتوں کو اس ''نیک کام'' کے لیے بھاری فنڈنگ فراہم کرتے ہیں۔
فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہونے والی اس ریلی یا یونیٹی مارچ میں صرف غیر مسلم دنیا کے سربراہان ہی نہیں بلکہ کئی مسلم ملکوں کے رہنما بھی شامل تھے۔ جن میں فلسطین کے صدر محمود عباس، ترکی کے وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو، اردن کے حکمران شاہ عبداللہ، عرب لیگ کے رہنما وغیرہ شامل ہیں۔ ذرا غور فرمائیے کہ فرانس اور جرمنی کے جن جریدوں پر حملے کے خلاف یہ ریلی نکالی گئی ان جریدوں میں گستاخانہ خاکے شایع ہوئے تھے جن سے مسلمانوں کی دل آزاری ہونا ایک فطری بات ہے لیکن ان جریدوں پر جو حملے کیے گئے وہ اس دہشت گردی کا حصہ ہیں جو افغانستان، پاکستان، شام، عراق سے نکل کر اب مغربی ملکوں تک آگے جا رہی ہے چونکہ اس بے لگام دہشت گردی سے سب سے زیادہ نقصان مسلم ملکوں کو اور مسلمانوں کے مستقبل کو ہو رہا ہے اس لیے اس ریلی میں مسلم ملکوں کے سربراہان کی شرکت حیرت انگیز بھی ہے۔
اس عالمی سطح پر پھیلتی دہشت گردی کے خلاف اگرچہ امریکا نے لگ بھگ 50 ملکوں اور نیٹو کے ساتھ مل کر 10 سال سے زیادہ عرصے تک جنگ کی لیکن یہ دہشت گردی کم یا ختم ہونے کے بجائے اور بڑھ گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے ایک نظریاتی بنیاد فراہم کردی گئی ہے اور اس قسم کی نظریاتی دہشت گردی کا مقابلہ دو طرح سے کیا جاسکتا ہے۔ اول یہ کہ ایک نیا عمرانی معاہدہ تشکیل دیا جائے جس پر دنیا کے تمام ممالک اور قومیں متفق ہوں دوسرے ایک ایسا فلسفہ پیش کیا جائے جو بلاامتیاز مذہب، ملت، رنگ، نسل، زبان، قومیت ساری دنیا کے عوام میں بھائی چارہ اور یکجہتی پیدا کرسکے۔ آج کی جدید دنیا میں میڈیا عوام میں فکری انقلاب لانے کا موثر ترین ذریعہ ہے جس کی رسائی دنیا کے چپے چپے تک ہوچکی ہے۔
اس وقت میڈیا بدقسمتی سے یا تو سیاسی موضوع کو مرکزی موضوع بنا بیٹھا ہے یا پھر شوبز اس کا دوسرا بڑا موضوع ہے۔ یہ دونوں ہی موضوع عوام میں ذہنی بحران اور فرسٹریشن پیدا کر رہے ہیں ان کا کوئی مثبت کردار نظر نہیں آتا۔ اگرچہ میڈیا بھی اس نظام معیشت کا ہی ایک حصہ ہے جس میں ہر جگہ زیادہ سے زیادہ دولت کے حصول کی ایک اندھی دوڑ جاری ہے لیکن اگر دنیا کے اجتماعی مفادات اور کرہ ارض پر انسان کے بہتر مستقبل کو پیش نظر رکھا جائے تو میڈیا کی ترجیحات میں بھی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں اور میڈیا دنیا بھر کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کا کردار ادا کرسکتا ہے۔
یہ کام اس لیے مشکل نہیں کہ آئی ٹی کے انقلاب نے دنیا کو پہلے ہی ایک گاؤں میں بدل کر رکھ دیا ہے اور ساری دنیا کے عوام ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشیوں میں شریک ہو رہے ہیں ہم سال بھر میں مختلف حوالوں سے غیر ضروری دن مناتے ہیں، ایسے عالمی دن منائے جاسکتے ہیں جو انسانوں کی یکجہتی پر مبنی ہوں ایسے عالمی تہواروں کا انعقاد کیا جاسکتا ہے جس میں ہر مذہب و ملت کے لوگ شریک ہوں۔ 1933 میں ہٹلر کے فاشزم کے خلاف ساری دنیا کے ادیب شاعر اور دانشور پیرس میں جمع ہوئے تھے، یونیٹی ریلی میں 40 سے زیادہ ملکوں کے رہنما شامل ہوئے، کیا ساری دنیا کے ادیب شاعر اور دانشور مذہبی انتہا پسندی کے خلاف اور عالمی یکجہتی کے لیے جمع نہیں ہوسکتے؟ اگر ایسا کیا گیا تو یہ حالیہ یونیٹی مارچ کی ایک توسیعی شکل ہوگی ایک نیا یونیٹی مارچ ہوگا جو صرف پیرس میں نہیں دنیا کے ہر ملک میں ہوگا۔