قانون قدرت
انسانوں میں سے صرف وہ لوگ خدا کی نظر انتخاب میں مستحق ٹھہرتے ہیں جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے۔
KARACHI:
ایک طرف حضرت انسان ہے جس نے اپنے ہی جیسے انسانوں کو خدا سے دور کرکے اپنے خودساختہ احکامات کو قانون قرار دیا ہوا ہے تو دوسری طرف قوموں کے عروج و زوال کا الہٰیاتی قانون بہرحال اپنی جگہ موجود ہے اور کوئی تسلیم کرے یا کسی پس وپیش سے کام لے، یہ خدائی قانون ہمیشہ سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔
جو قومیں اس قانون کو اپنے اوپر لاگو کرتی ہیں وہ بہترین فلاحی معاشرے کی مثالیں بن جاتی ہیں۔ خدا کا یہ خدائی قانون کیا ہے، یہ اکثر لوگوں کی فہم سے بالاتر ہی رہا ہے حالانکہ اس سے زیادہ آسان ترین دنیا میں آج تک کوئی ضابطہ یا جز ا و سزا کا پیمانہ آیا ہے اور نہ ہی آئے گا۔ جس طرح خدا نے انسان کو مٹی سے تخلیق کیا ہے اور اسے اپنے درمیان مساوات سے کام لینے کا حکم دیا گیا ہے بالکل اسی طرح انسانی معاشرے کو پائیدار بنیادوں پر استوار کرنے اور اسے چلانے کے لیے ایک ایسے خدائی قانون کو اسلام اور سنت نبوی ﷺ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے جو تاقیامت ایک اٹل حقیقت کے ساتھ ہمیشہ موجود رہے گا۔
اس قانون سے جس طرح سورج، چاند، زمین اور تارے بندے ہوئے ہیں، جس طرح ہوا، پانی، درخت اور جانور بندھے ہوئے ہیں، اسی طرح ہم آپ سب انسان بھی بندھے ہوئے ہیں۔ اس کا قانون جس طرح ہماری پیدائش اور موت پر ہمارے بچپن اور جوانی اور بڑھاپے پر، ہماری سانس کی آمدورفت پر ہمارے ہاضمے اور خون کی گردش پر اور ہماری بیماری اور تندرستی پر بے لاگ اور اٹل طریقے سے چل رہا ہے، ٹھیک اسی طرح اس کا ایک اور قانون بھی جو ہماری تاریخ کے اتار چڑھاؤ پر ہمارے گرنے اور اٹھنے پر ہماری ترقی اور تنزلی پر اور ہماری ذاتی، قومی اور ملکی تقدیروں پر حکومت کر رہا ہے اور یہ قانون بھی اتنا ہی بے لاگ اور اٹل ہے۔ اگر یہ ممکن نہیں ہے کہ آدمی ناک سے سانس لینے کے بجائے آنکھوں سے سانس لینے لگے اور معدے میں کھانا ہضم کرنے کے بجائے دل میں ہضم کرنے لگے، تو یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ خدا کے قانون کی رو سے جس راہ پر چل کر کسی قوم کو نیچے جانا چاہیے وہ اسے بلندی پر لے جائے۔
اگر آگ ایک کے لیے گرم اور دوسرے کے لیے ٹھنڈی نہیں ہے تو برے کرتوت بھی، جو خدا کے قانون کی رو سے برے ہیں، ایک کو گرانے والے تو دوسرے کو اٹھانے والے نہیں ہوسکتے۔ جو اصول بھی خدا نے انسان کی بھلی اور بری تقدیر بنانے کے لیے مقرر کیے ہیں وہ نہ کسی کے بدلے بدل سکتے ہیں اور نہ کسی کے ٹالے ٹل سکتے ہیں، اور نہ ان میں کسی کے ساتھ دشمنی اور کسی کے ساتھ رعایت پائی جاتی ہے۔ مالک ہونے کی حیثیت سے اس کی خواہش یہ ہے کہ اس کی دنیا کا انتظام ٹھیک کیا جائے۔ اس کو زیادہ سے زیادہ سنوارا جائے۔ (وہ) اس بات کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ اس کی دنیا بگاڑی جائے، اجاڑی جائے اور اسے ناانصافی، اقرباء پروری، سیاسی مصلحت کے نام پر ظلم و زیادتی جیسی گندگیوں سے خراب کر ڈالا جائے۔
انسانوں میں سے صرف وہ لوگ خدا کی نظر انتخاب میں مستحق ٹھہرتے ہیں جن کے اندر بنانے کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت ہوتی ہے، انھی کو وہ یہاں انتظام کے اختیارات سپرد کرتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں بگاڑ ڈالنے والوں کو نکال پھینکا جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ یہ لوگ بناتے کتنا ہیں اور بگاڑتے کتنا ہیں۔ جب تک ان کا بناؤ ان کے بگاڑ سے زیادہ ہوتا ہے اور کوئی دوسرا امیدوار ان سے اچھا بنانے والا اور ان سے کم بگاڑنے والا میدان میں موجود نہیں ہوتا، اس وقت تک ان کی ساری برائیوں اور ان کے تمام قصوروں کے باوجود دنیا کا انتظام انھی کے سپرد رہتا ہے، مگر جب وہ کم بنانے اور زیادہ بگاڑنے لگتے ہیں تو خدا انھیں ہٹا کر پھینک دیتا ہے اور دوسرے امیدواروں کو اسی لازمی شرط پر انتظام سونپ دیتا ہے۔
قارئین! میں یہ باتیں آپ سے اس لیے نہیں کہہ رہا ہوں کہ آپ اپنے آپ سے اور اپنے مستقبل سے مایوس ہوجائیں۔ میں نہ تو خود مایوس ہوں، نہ کسی کو مایوس کرنا چاہتا ہوں۔ امید پرست ہوں، دراصل میرا مدعا آپ کو یہ بتانا ہے کہ خدا ہم سے محبت کرتا ہے اور اس کی مکمل توجہ ہم پر ہے۔ اس لیے جو سخت اور کٹھن حالات ہم پر وارد ہو رہے ہیں اس کے ذریعے وہ ہمیں اس راہ راست پر ڈالنا چاہتا ہے جہاں بہترین معاشرہ اور لوگوں کی فلاح موجود ہے۔ مجھے نہ اس بات سے غرض ہے کہ فوجی عدالتیں ہونی چاہییں یا نہیں اور نہ ہی میں آئینی حیثیت پر بحث کرنا چاہتا ہوں، میں صرف ایک بات جانتا ہوں کہ میں جس عظیم شخص کا امتی ہوں وہ دنیا کا بہترین منصف اور قانون دان تھا۔
وہ کہتا تھا کہ ''خدا کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹا جائے گا۔'' معاشروں کو گلنے سڑنے سے بچانے کے لیے باضمیر انسانوں اور ان سے مربوط روشن مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان مثالوں سے بعد کے آنے والوں کو معاشرے میں انصاف کرنے اور قانون کو بلا امتیاز سب پر لاگو کرنے کی تحریک ملتی ہے۔ اسی طرح خدائی ہدایت کی پیروی بھی ضروری ہے، جو انسان کے شخصی، اجتماعی، قومی اور بین الاقوامی رویہ کو اخلاق کے مستقل اصولوں کا پابند کرنے کی ایک ہی صورت ہے۔
جب تک انسان اپنے اخلاقی اصولوں پر خود کو واضح اور منصف نہیں رکھتا، اس وقت تک اس کے پاس باتیں بنانے کے لیے کچھ اور اصول ہوتے ہیں اور عمل میں لانے کے لیے کچھ اور۔ کتابوں میں آب زر سے وہ ایک قسم کے اصول لکھتا ہے اور معاملات میں اپنے مطلب کے مطابق بالکل دوسری ہی قسم کے اصول برتتا ہے۔ دوسروں سے مطالبہ کرتے وقت اس کے اصول کچھ ہوتے ہیں اور خود معاملہ کرتے وقت کچھ موقع اور مصلحت اور خواہش اور ضرورت کے دباؤ سے اس کے اصول ہر آن بدلتے ہیں۔ وہ اخلاق کا اصل محور ''حق'' کو نہیں بلکہ ''اپنے مفاد'' کو بناتا ہے۔ وہ اس بات کو مانتا ہی نہیں کہ اس کے عمل کو حق کے مطابق ڈھلنا چاہیے۔ اس کے بجائے وہ چاہتا ہے کہ حق اس کے مفاد کے مطابق ڈھلے۔ یہی وہ چیز ہے جس کی بدولت افراد سے لے کر قوموں تک سب کا رویہ غلط ہو جاتا ہے اور یہی وہ چیز ہے جس سے معاشرے اور دنیا میں فساد پھیلتا ہے۔
میں ارباب اختیار سے چند سوالات کر کے اپنی تحریر کا اختتام کروں گا کہ اکیسویں آئینی ترمیم پر آپ لوگوں نے کہیںکسی دباؤکا سامنا تو نہیں کیا؟ کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ سانحہ پشاور کی طرح کراچی میں سب سے زیادہ شہری، لسانیت، مذہب اور کاروبار کے نام پر ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا شکار ہیں؟ کیا قانون بناتے وقت آپ نے کسی سیاسی مصلحت سے کام لیا یا آنکھیں بند کر کے انصاف ہر خاص و عام کے لیے برابر کردیا؟ کیا تمام جماعتوں کے ساتھ مشاورت کے بعد آپ نے (مکمل طور پر) قومی مفاد میں فیصلے کیے یا حق سے روگردانی کرتے ہوئے اور سیاسی بنیادوں پر ظالم کو چھوٹ دیدی؟ اگر ان سوالات میں سے آپ کا ایک جواب بھی خدائی قانون، خدا کی مرضی اور رسول ﷺ کے قول '' خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ بھی کاٹا جائے گا''
یقین رکھیے کہ سانحہ پشاور کی صورت میں جو وحدت ہمیں تھوڑے سے لمحوں کے لیے نصیب ہوئی تھی اور بزعم خود اس میں جو اہم فیصلے کیے گئے تھے، ان سے قوم، ملک اور سلطنت کی توقعات کے مطابق مثبت اور فلاحی نتیجے کے امید رکھنا محض عبث ہے اور کچھ نہیں۔ ایک اسلامی جمہوریہ کے انصاف پسند حکمراں ہونے کا ثبوت دیں اور قانون اور جرم کی یقینی سزا اور انصاف کو بلا امتیاز پوری قوم پر لاگو کردیں۔ یاد رکھیں آپ کو یہ رتبے خداوند کریم نے بناؤ کے لیے دیے ہیں، بگاڑ کے لیے نہیں۔