باچا خان کی 27 ویں برسی
باچا خان نے خیبر پختونخوا کے خوبصورت شہر چارسدہ میں آنکھ کھولی۔
من حیث القوم ہمارے سماج میں ایک روایت ہے کہ ہم اگر کسی شخصیت سے مسلکی، سیاسی یا نظریاتی اختلاف رکھتے ہیں تو پھر اس شخصیت سے گویا خدا واسطے کا بیر رکھ لیتے ہیں۔ پھر اس شخصیت کی ساری عمر کی سیاسی جدوجہد ہو یا مذہبی خدمات یا سماجی خدمات صرف چند باتوں سے اختلاف کے باعث ہم اس شخصیت کی تمام تر خوبیوں کو فراموش کردیتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے ہاں ایک اور چیز روایت بن چکی ہے وہ یہ کہ اگر کوئی قلم کار یا سیاست دان یا کوئی اور درد مند محب وطن جب معاشروں میں پھیلی بدعنوانیوں و کرپٹ نظام کے خلاف قلم اٹھاتا ہے یا بات کرتا ہے تو اس نظام سے فیض یاب ہونے والے یہ پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں دیکھو! یہ بندہ یا یہ لوگ ملک دشمن ہیں اور یہ گھناؤنا پروپیگنڈا کرنے کے لیے ہر قسم کا میڈیا بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ایسے لوگوں کو یا کسی خاص شخصیت کو متنازعہ بنایا جائے۔ بہرکیف ایسی ہی شخصیات میں ایک نام ہے باچا خان کا یعنی خان عبدالغفار خان جن کی شخصیت سے یا نظریات سے کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی انسان دوستی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
باچا خان نے خیبر پختونخوا کے خوبصورت شہر چارسدہ میں آنکھ کھولی۔ یہ ذکر ہے 6 فروری 1890 کا۔ باچا خان کے والد بہرام خان کا شمار علاقے کے بااثر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ باچا خان کے ایک اور بھائی تھے ڈاکٹر خان جن کا پاکستانی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔ باچا خان نے ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مزید حصول تعلیم کے لیے انگلستان جانے کا ارادہ کیا۔ مگر والدہ نے انگلستان جانے سے منع کردیا جس کے باعث سعادت مند باچا خان نے انگلستان جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
عہد جوانی میں باچا خان نے خدائی خدمتگار تحریک شروع کی تو اس وقت کی سامراج برٹش سرکار نے باچا خان اور ان کی تحریک سے وابستہ ساتھیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے، اسیری و تشدد گویا باچا خان اور ان کے ساتھیوں کا مقدر بن گیا اور یہ لوگ بار بار جیل یاترا کرتے رہے۔ سامراج برٹش سرکار جس قدر ان کی تحریک کو دبانے کی کوشش کرتی یہ تحریک مزید مقبول عام ہوتی گئی۔
1919 کا آخر تھا یا 1920 کا آغاز جب باچا خان کانگریسی لیڈر مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے سے متاثر ہوکر انڈین نیشنل کانگریس میں شریک ہوگئے یا اس سے الحاق کرلیا، اصول پرست باچا خان قیام پاکستان یعنی 1947 تک کانگریس سے منسلک رہے جب کہ باچا خان کے لیے سنہری موقع تھا کہ وہ 1940 میں قرارداد مقاصد لاہور جوکہ بعد ازاں قرارداد پاکستان قرار پائی کی منظوری کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوجاتے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے حصول اقتدار کے در وا کرلیتے کیونکہ اس وقت کے جاگیردار طبقے نے ایسا ہی کیا تھا اور اپنے و اپنی اولاد کے لیے حصول اقتدار یقینی بنالیا تھا اور تمام تر خرابیوں کے باوجود یہ طبقہ آج تک حکومتی ایوانوں پر قابض ہے اور ملکی وسائل بھی مکمل طرح سے اس مفاد پرست طبقے کی مٹھی میں ہیں۔ بہرکیف اصول پرست سرخ پوش رہنما قیام پاکستان کے بعد بھی برٹش سرکار کے ورثے میں ملے ہوئے نظام کا حصہ نہ بنے اور اپنے اصولوں پر قائم رہے اور پاکستان میں قائم ہونے والی ہر حکومت کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے رہے، یہی عمل باچا خان کا سب سے بڑا جرم بن گیا تھا۔
1957 میں قائم ہونے والی نیشنل عوامی پارٹی میں بھی باچا خان نے شمولیت اختیار کرلی جب کہ 1960 میں ایوب خان کے آمرانہ دور میں باچا خان زیادہ عرصہ جیل میں اسیر رہے یا جلاوطن رہے اور یہ اسیری و جلاوطنی کا سلسلہ 1970 تک جاری رہا، مگر 1970 کے بعد باچا خان سیاست میں زیادہ متحرک نہ رہے تھے۔جب کہ ان کے صاحب زادے خان عبدالولی خان ، ان کی شریک حیات بیگم نسیم ولی خان یعنی باچا خان کی بہو میدان سیاست میں خوب اپنے اپنے جوہر دکھا رہے تھے۔
جب کہ ایک صاحب زادے عبدالغنی خان انقلابی شاعری سے عوام الناس کے لہو گرمانے میں مصروف عمل تھے اور باچا خان کے تیسرے صاحب زادے کا نام عبدالعلی تھا۔ باچا خان نے اپنے عہد شباب میں برٹش سرکار کی فوج میں بھی ملازمت اختیار کی، کیونکہ ان کے خاندان کے بزرگوں کا فوج کی ملازمت کے لیے شدید دباؤ تھا مگر جب انگریز افسران کا نسل پرستانہ رویہ دیکھا تو باچا خان نے فوج کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ 1987 میں باچا خان کو بھارتی حکومت نے ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز رتنا ایوارڈ دیا۔ یہ ایوارڈ باچا خان کو بھارتی سرکار کی جانب سے ملنا ان کی عظمت کا بہت بڑا اعتراف تھا۔ 1987 کے آخر یا 1988 کے آغاز میں باچا خان علاج کی غرض سے بھارت تشریف لے گئے۔ جہاں بھارتی حکومت نے باچا خان کو پورا پورا سرکاری پروٹوکول دیا اور سرکاری سطح پر باچا خان کا علاج ہوتا رہا۔ علاج کے بعد باچا خان واپس پاکستان تشریف لے آئے۔ باچا خان جب تک بھارت میں مقیم رہے آل انڈیا ریڈیو سے ان کی صحت سے متعلق خصوصی نیوز بلیٹن نشر ہوتا رہا جب کہ 20 جنوری 1988 کو باچا خان اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
باچا خان کا انتقال پشاور میں ہوا تھا۔ انتقال کے وقت باچا خان کی عمر 98 برس تھی۔ یوں پاکستانی سیاستدانوں میں سب سے طویل عمر پائی۔ باچا خان کی تدفین کے وقت بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی نے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر راجیو گاندھی کو پاکستان آنے سے روک دیا گیا جب کہ باچا خان کی نماز جنازہ میں 2 لاکھ افراد شریک ہوئے۔ ان کی نمازجنازہ میں شرکت کرنے والوں میں افغانستان کے صدر کامریڈ نجیب اللہ بھی شامل تھے۔ یہ وہی کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ تھے جنھوں نے بہ حیثیت افغان صدر کے اس وقت کے نام نہاد مجاہدین اور موجودہ طالبان سے چھ برس تک جنگ لڑی اور 17 ستمبر 1996 کو اپنی جان قربان کردی۔
مگر صد افسوس کہ ہمارے سیاستداں و حکمراں آج بھی اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اچھے طالبان کون سے ہیں و برے طالبان کون سے ہیں؟ بہرکیف باچا خان کو ان کی وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں سپردخاک کردیا گیا۔ باچا خان کی وفات کے وقت افغانستان میں متحارب گروہوں کے درمیان بدترین جنگ جاری تھی مگر باچا خان کی تدفین کے وقت تمام گروہوں نے جنگ بندی کا اعلان کردیا جوکہ باچا خان کے احترام کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔ آج 20 جنوری 2015 کو ہم باچا خان کی 27 ویں برسی کے موقع پر ان کو پورے احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج میں فقط اتنا عرض کروں گا کہ کسی بھی شخصیت سے مسلکی و سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر ہم اس شخصیت کا بحیثیت انسان احترام کرنا فراموش نہ کریں۔
اسی طرح ہمارے ہاں ایک اور چیز روایت بن چکی ہے وہ یہ کہ اگر کوئی قلم کار یا سیاست دان یا کوئی اور درد مند محب وطن جب معاشروں میں پھیلی بدعنوانیوں و کرپٹ نظام کے خلاف قلم اٹھاتا ہے یا بات کرتا ہے تو اس نظام سے فیض یاب ہونے والے یہ پروپیگنڈا شروع کردیتے ہیں دیکھو! یہ بندہ یا یہ لوگ ملک دشمن ہیں اور یہ گھناؤنا پروپیگنڈا کرنے کے لیے ہر قسم کا میڈیا بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ایسے لوگوں کو یا کسی خاص شخصیت کو متنازعہ بنایا جائے۔ بہرکیف ایسی ہی شخصیات میں ایک نام ہے باچا خان کا یعنی خان عبدالغفار خان جن کی شخصیت سے یا نظریات سے کوئی لاکھ اختلاف کرے مگر خان عبدالغفار خان المعروف باچا خان کی انسان دوستی سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
باچا خان نے خیبر پختونخوا کے خوبصورت شہر چارسدہ میں آنکھ کھولی۔ یہ ذکر ہے 6 فروری 1890 کا۔ باچا خان کے والد بہرام خان کا شمار علاقے کے بااثر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ باچا خان کے ایک اور بھائی تھے ڈاکٹر خان جن کا پاکستانی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔ باچا خان نے ابتدائی تعلیم کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ مزید حصول تعلیم کے لیے انگلستان جانے کا ارادہ کیا۔ مگر والدہ نے انگلستان جانے سے منع کردیا جس کے باعث سعادت مند باچا خان نے انگلستان جانے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
عہد جوانی میں باچا خان نے خدائی خدمتگار تحریک شروع کی تو اس وقت کی سامراج برٹش سرکار نے باچا خان اور ان کی تحریک سے وابستہ ساتھیوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ ڈالے، اسیری و تشدد گویا باچا خان اور ان کے ساتھیوں کا مقدر بن گیا اور یہ لوگ بار بار جیل یاترا کرتے رہے۔ سامراج برٹش سرکار جس قدر ان کی تحریک کو دبانے کی کوشش کرتی یہ تحریک مزید مقبول عام ہوتی گئی۔
1919 کا آخر تھا یا 1920 کا آغاز جب باچا خان کانگریسی لیڈر مہاتما گاندھی کے عدم تشدد کے فلسفے سے متاثر ہوکر انڈین نیشنل کانگریس میں شریک ہوگئے یا اس سے الحاق کرلیا، اصول پرست باچا خان قیام پاکستان یعنی 1947 تک کانگریس سے منسلک رہے جب کہ باچا خان کے لیے سنہری موقع تھا کہ وہ 1940 میں قرارداد مقاصد لاہور جوکہ بعد ازاں قرارداد پاکستان قرار پائی کی منظوری کے بعد مسلم لیگ میں شامل ہوجاتے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لیے حصول اقتدار کے در وا کرلیتے کیونکہ اس وقت کے جاگیردار طبقے نے ایسا ہی کیا تھا اور اپنے و اپنی اولاد کے لیے حصول اقتدار یقینی بنالیا تھا اور تمام تر خرابیوں کے باوجود یہ طبقہ آج تک حکومتی ایوانوں پر قابض ہے اور ملکی وسائل بھی مکمل طرح سے اس مفاد پرست طبقے کی مٹھی میں ہیں۔ بہرکیف اصول پرست سرخ پوش رہنما قیام پاکستان کے بعد بھی برٹش سرکار کے ورثے میں ملے ہوئے نظام کا حصہ نہ بنے اور اپنے اصولوں پر قائم رہے اور پاکستان میں قائم ہونے والی ہر حکومت کی غلطیوں کی نشان دہی کرتے رہے، یہی عمل باچا خان کا سب سے بڑا جرم بن گیا تھا۔
1957 میں قائم ہونے والی نیشنل عوامی پارٹی میں بھی باچا خان نے شمولیت اختیار کرلی جب کہ 1960 میں ایوب خان کے آمرانہ دور میں باچا خان زیادہ عرصہ جیل میں اسیر رہے یا جلاوطن رہے اور یہ اسیری و جلاوطنی کا سلسلہ 1970 تک جاری رہا، مگر 1970 کے بعد باچا خان سیاست میں زیادہ متحرک نہ رہے تھے۔جب کہ ان کے صاحب زادے خان عبدالولی خان ، ان کی شریک حیات بیگم نسیم ولی خان یعنی باچا خان کی بہو میدان سیاست میں خوب اپنے اپنے جوہر دکھا رہے تھے۔
جب کہ ایک صاحب زادے عبدالغنی خان انقلابی شاعری سے عوام الناس کے لہو گرمانے میں مصروف عمل تھے اور باچا خان کے تیسرے صاحب زادے کا نام عبدالعلی تھا۔ باچا خان نے اپنے عہد شباب میں برٹش سرکار کی فوج میں بھی ملازمت اختیار کی، کیونکہ ان کے خاندان کے بزرگوں کا فوج کی ملازمت کے لیے شدید دباؤ تھا مگر جب انگریز افسران کا نسل پرستانہ رویہ دیکھا تو باچا خان نے فوج کی ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔ 1987 میں باچا خان کو بھارتی حکومت نے ملک کا اعلیٰ ترین اعزاز رتنا ایوارڈ دیا۔ یہ ایوارڈ باچا خان کو بھارتی سرکار کی جانب سے ملنا ان کی عظمت کا بہت بڑا اعتراف تھا۔ 1987 کے آخر یا 1988 کے آغاز میں باچا خان علاج کی غرض سے بھارت تشریف لے گئے۔ جہاں بھارتی حکومت نے باچا خان کو پورا پورا سرکاری پروٹوکول دیا اور سرکاری سطح پر باچا خان کا علاج ہوتا رہا۔ علاج کے بعد باچا خان واپس پاکستان تشریف لے آئے۔ باچا خان جب تک بھارت میں مقیم رہے آل انڈیا ریڈیو سے ان کی صحت سے متعلق خصوصی نیوز بلیٹن نشر ہوتا رہا جب کہ 20 جنوری 1988 کو باچا خان اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
باچا خان کا انتقال پشاور میں ہوا تھا۔ انتقال کے وقت باچا خان کی عمر 98 برس تھی۔ یوں پاکستانی سیاستدانوں میں سب سے طویل عمر پائی۔ باچا خان کی تدفین کے وقت بھارتی وزیراعظم راجیوگاندھی نے پاکستان آنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر راجیو گاندھی کو پاکستان آنے سے روک دیا گیا جب کہ باچا خان کی نماز جنازہ میں 2 لاکھ افراد شریک ہوئے۔ ان کی نمازجنازہ میں شرکت کرنے والوں میں افغانستان کے صدر کامریڈ نجیب اللہ بھی شامل تھے۔ یہ وہی کامریڈ ڈاکٹر نجیب اللہ تھے جنھوں نے بہ حیثیت افغان صدر کے اس وقت کے نام نہاد مجاہدین اور موجودہ طالبان سے چھ برس تک جنگ لڑی اور 17 ستمبر 1996 کو اپنی جان قربان کردی۔
مگر صد افسوس کہ ہمارے سیاستداں و حکمراں آج بھی اس بحث میں الجھے ہوئے ہیں کہ اچھے طالبان کون سے ہیں و برے طالبان کون سے ہیں؟ بہرکیف باچا خان کو ان کی وصیت کے مطابق جلال آباد افغانستان میں سپردخاک کردیا گیا۔ باچا خان کی وفات کے وقت افغانستان میں متحارب گروہوں کے درمیان بدترین جنگ جاری تھی مگر باچا خان کی تدفین کے وقت تمام گروہوں نے جنگ بندی کا اعلان کردیا جوکہ باچا خان کے احترام کی اعلیٰ ترین مثال تھی۔ آج 20 جنوری 2015 کو ہم باچا خان کی 27 ویں برسی کے موقع پر ان کو پورے احترام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ آج میں فقط اتنا عرض کروں گا کہ کسی بھی شخصیت سے مسلکی و سیاسی اختلاف اپنی جگہ مگر ہم اس شخصیت کا بحیثیت انسان احترام کرنا فراموش نہ کریں۔