پٹرول ندارد ذمے دار کون
عوام پٹرول کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، لیکن پٹرول ہے کہ ستم ظریف ملنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔
حقیقت یہ ہے کہ عوام کی روزی روٹی کی گاڑی کسی نہ کسی طور تیل مصنوعات کے ایندھن سے چلا کرتی ہے، غریب ہو یا امیر، اپنی روزی روٹی کمانے کے لیے اسے پٹرول کا سہارا لینا پڑتا ہے، مزدور پیشہ ہوں یا نوکر پیشہ، طلبا ہوں یا استاد، سبھی کو اپنے اپنے جائے مقام پر پٹرول سے چلنے والی سواری کے ذریعے پہنچنا ہوتا ہے، لیکن کچھ دنوں سے عوام کو پٹرول کی قلت کے شدید بحران نے موت کے کنویں میں پھنسا رکھا ہے۔
عوام پٹرول کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں، لیکن پٹرول ہے کہ ستم ظریف ملنے کا نام ہی نہیں لے رہا، پٹرول کی قلت کی بنا پر عوامی ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر خال خال ہے، عوامی ٹرانسپورٹ کے سڑکوں سے غائب ہونے سے سفر کرنے والے کس اذیت سے گزر رہے ہیں، اس کا اندازہ صرف انھیں ہی ہو سکتا ہے جو اس پریشانی کو جھیل رہے ہیں۔ سرکاری گاڑیوں اور ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والے سیاستدان و بیوروکریٹ کہاں اس اذیت کا ادراک کرسکتے ہیں۔
پٹرول کی نایابی کے ذمے دار کون ہیں؟ حکومتی اکابرین سے پوچھیے تو سابق حکمرانوں کی طرح آئیں، بائیں، شائیں قسم کے الفاظ سے مزین جواب ملتا ہے، جس سے عوام کی تشفی نہیں ہورہی، کچھ ایسا ہی جواب تیل کی فراہمی کی روانی کے ذمے دار بھاری بھرکم مراعات اور تنخواہ دار ادارے دے رہے ہیں، یعنی حکومتی ادارے بھی حسب سابق اپنی غفلت اور کوتاہی کو ایک دوسرے کے کندھوں پر ڈال رہے ہیں ۔گویا سنگین تر غفلت کا بار اٹھانے کے لیے نہ حکومتی وزیر اور مشیر آمادہ ہیں نہ ان کی ''رائٹ ہینڈ'' افسر شاہی اس بار کو اپنے ذمے لے رہی ہے۔ سی این جی بندش، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، گیس کی قلت اور اب پٹرول کی نایابی کی بیماری میں بھی اہل اقتدار اور اہل اختیار عیش و عشرت کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
گویا وطن عزیز میں فٹ بال بننا صرف عوام کے مقدر میں لکھا گیا ہے۔ اگرچہ غیر ملکی دورے سے واپسی کے بعد وزیراعظم نے پٹرول کی نایابی کا باعث بننے والے افسر شاہی کے چند کارندوں کو ''ہٹو بچو'' کی فہرست میں شامل کردیا ہے لیکن وزیراعظم کے اس اقدام سے عوام کی اشک شوئی ممکن نہیں، دوسری جانب قومی غفلت اور عوام کی زحمت بننے والے اعلیٰ ترین حکومتی عہدے داروں کو ابھی تک ''چھیڑا'' نہیں گیا۔
ایک سادہ سا سوال یہ ہے کہ کیا اعلیٰ حکومتی مہربانوں کی منشا کے بغیر افسر شاہی اس حد تک غفلت کی مرتکب ہوسکتی ہے؟ اگر کمان دار کی نیت راست ہو پھر اس کی سپاہ سے ایسی جرات رندانہ کی امید نہیں کی جاسکتی۔ وزیراعظم صاحب کو نہ صرف پٹرول بحران کے ذمے دار افسران کا احتساب کرنا چاہیے بلکہ اپنے ان وزرا کی کارکردگی کو بھی ایک نظر دیکھنا چاہیے جن کی ناک تلے یہ بحران جنم لیتا رہا اور وہ بے فکر ہو کر وزارت کے مزے لوٹتے رہے۔
سی این جی کے انتظام و انصرام میں ناکامی، بجلی کی لوڈ شیڈنگ میں کمی کے دعوؤں کو پورا کرنے میں ناکامی کا تمغہ سینے پر سجانے والے وزرا سے وزیراعظم کو ضرور بازپرس کرنی چاہیے کہ پٹرول کی نایابی میں کس کس نے غفلت کا کھیل کھیلا؟ حکومت کے ہمدروں کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ یکے بعد دیگرے جنم لینے والے بحرانوں نے حکومت وقت کی کارکردگی پر بہت سے سوالوں کو جنم دیا ہے۔
اگر آنے والے دنوں میں حکومت عوام سے تعلق رکھنے والے مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہی پھر حکومت کے لیے سخت وقت پھر سے لوٹ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی سیاسی مخاصمت کے خاتمے کے بعد حکومت کو تیزی سے عوامی فلاح و بہبود کے لیے قدم اٹھانے چاہیے تھے، مگر بوجوہ حکومت اور حکومتی دماغ عوام کے فلاح اور بنیادی ضروریات کے بارے میں عوام کو کوئی خاص ''تحفہ'' دینے میں ناکام رہے۔ اب عوام کے لبوں پر یہ سوال مچل رہا ہے کہ پہلے حکومت عوام کی ترقی اور خوشحالی کی راہ میں تحریک انصاف کے دھرنے کو رکاوٹ قرار دیتی رہی لیکن دھرنے کو قصہ پارینہ بننے کے بعد بھی عوام کے مسائل جوں کے توں ہیں۔
اب جب کہ حکومت کے لیے سیاسی سفر میں راوی فی الحال چین ہی چین لکھتا ہے، اس ''سکھ چین'' کے دنوں میں اگر حکومت عوام کے بنیادی مسائل کے حل میں کوئی ٹھوس پیش رفت کرنے میں ناکام رہی اس صورت میں حکومت پر عوامی انگلیاں اٹھیں گی اور بڑے شد و مد سے اٹھیں گی۔
حکومت وقت کے ہمدردوں کے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ حکومت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرے اور کی گئی غلطیوں کو جلد از جلد نہ صرف دور کرے بلکہ اپنی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے مستقبل میں ایسی غلطیوں سے خود کو پاک کرنے کی سعی کرے، جس سے عوام کی نظروں میں حکومت کا اعتبار اور اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ لیکن! یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب حکومت قانون کی عملداری پر عمل کرتے ہوئے ان قومی مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے کا تہیہ کرلے جو حکومت اور عوام دونوں کے لیے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔