انتہاپسندی کا پس منظر اور سدباب پہلا حصہ
جب سے معاشرے میں بنیاد پرستی نے نفوذ کیا ہے باقی عوامل بھی سماجی و ثقافتی قدروں میں اپنا رنگ جمانے لگے ہیں۔
ISLAMABAD:
جب سے معاشرے میں بنیاد پرستی نے نفوذ کیا ہے باقی عوامل بھی سماجی و ثقافتی قدروں میں اپنا رنگ جمانے لگے ہیں مثلاً انتہا پسندانہ لٹریچر، اخبارات، جرائد اور سیاسی و سماجی تقاریب بھی خبروں کا باقاعدہ حصہ بن چکے ہیں۔ 'کال باؤن' نے انتہا پسندی کی ایک موزوں تعریف کی ہے۔
اس کے بقول بنیادی اور انتہائی سیاسی چیلنجز ہی نظم وضبط کے باعث ہیں اور اس کے لیے انتہا پسندی کا لفظ غیر موزوں ہے۔ تاہم دانشوروں نے انتہا پسندی اور دہشت گردی کا مختلف تناظر میں بھی تجزیہ کیا ہے اور کچھ لوگوں نے انھیں باہمی طور پر ایک ہی موضوع سمجھا ہے۔ کچھ عناصر بنیاد پرستی کو سیاسی دہشت گردی کا نام دیتے ہیں جو کہ بالکل ہی مناسب نہیں ہے کیونکہ انتہاپسندی اپنا مخصوص پس منظر رکھتی ہے 'انتھونی' کے بقول ''انتہا پسندی کو محض منفی طور پر چسپاں کرنے کے لیے بعض گروپ اسے اپنے نام کے ساتھ لگا لیتے ہیں، تاہم دونوں نظریوں کے درمیان بحث و تمحیص چلتی رہی ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بنیاد پرست کبھی انتہا پسند یا دہشت گرد نہیں ہوسکتے۔''
انتہا پسند اپنے آپ کو کبھی انتہا پسند نہیں کہتے لیکن بنیاد پرست بسا اوقات اپنے آپ کو بنیاد پرست کہلوانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ اس تناظر میں 'فلا بیرٹی' نے بنیاد پرست گروہوں اور ان کی تحاریک کے حوالے سے مندرجہ ذیل مخصوص نکات وضع کیے ہیں۔
٭ یہ محض خام خیالی ہے کہ انتہا پسندی ناقابل عمل نظریہ ہے۔
٭ دنیا کا وجود تباہی کے دہانے پہنچ چکا ہے۔
٭ افہام و تفہیم اور طاقت کے توازن کا نظریہ مسترد ہوچکا ہے۔
٭ دنیا کے لیے ایک نئے سماجی لائحہ عمل کی ضرورت ہے۔
٭ ختم ہونے سے ہی وسائل کا آغاز ہوتا ہے۔
٭ بے صبری اور عجلت کا احساس بھی ایک حقیقت ہے۔
٭ نقص امن کے لیے نئی تبدیلیاں متعارف کرانے سے لوگوں میں جوش و خروش پیدا ہوتا ہے۔
جب معاشرہ ایک طرف ہو اور انتہا پسند دوسری جانب ہو اس کا یہ مطلب ہوا کہ سماجی ثقافتی رویوں کی لہر، اقدار اور عادات انتہا پسندی کے براہ راست وجوہات میں شامل نہیں اور ملک میں نظر آنے والے انتہاپسندی کے عوامل کہیں اور پوشیدہ ہیں تاہم معاشرتی ڈھانچے اور ثقافت کو کلی طور پر بری الذمہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے، سماجی اور ثقافتی عوامل کو ہی محض اس بحث میں سرفہرست نہیں سمجھنا چاہیے تاہم ان کا جتنا کردار رہا ہے وہ لمحہ فکریہ ہے۔ کچھ لوگوں کی رائے میں جہاں ساختی حدود و قیود، محرومیاں، سماجی ڈھانچہ اور اسم میں توڑ پھوڑ اور ناکافی تعلیمی سہولیات ہوں وہ انتہا پسندی کے لیے زرخیز خطے تصور ہوتے ہیں۔ اور اس معاملے میں 'رچرڈ سن' کے اس نظریے سے اتفاق پایا جاتا ہے کہ سماجی، اقتصادی اور ثقافتی عوامل ہی ایسی پوشیدہ اکائیاں ہیں جو کہ کسی بھی معاشرے میں بنیادی محرک کا باعث بنتی ہیں لیکن اس کا یہ کہنا کہ کسی معاشرے میں دہشت گردوں کا وجود اس کی اپنی سطح کے مطابق ہوتا ہے اس سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے۔
ان سے پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا معاشرے اور ان کی ثقافتی سرگرمیاں دہشت گردی کی خاطر انتہاپسند عوامل کے لیے پرکشش ماحول فراہم کرتی ہیں؟ یہ ایک پختہ حقیقت ہے کہ ترقی یافتہ اور جدید معاشرے، جن میں امریکا اور برطانیہ بھی شامل ہیں، افراد کی سطح پر یا مختلف گروپوں میں انتہا پسندی کے نظریات اور طریقہ کار نے فروغ پایا ہے۔ 'کوبر' کے نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے کئی منصفین خیال کرتے ہیں کہ دراصل ثقافت ہی انتہا پسندی کے لیے بنیادی تبدیلی کا باعث بنتی تو لوگوں کی اکثریت انتہا پسند بن چکی ہوتی۔
پاکستان میں سماجی تبدیلیوں کی باز گشت سے چار اقسام کے تنازعات سامنے آئے ہیں۔
(1) ثقافت اور تخیلاتی تبدیلی، (2) علاقائی اور قومی کلچر میں تفاوت، (3) اقتصادی ترقی اور کلچر کا فروغ، (4) اسلامی خیالات اور جدت پسندی میں ٹکراؤ۔
1992کی دہائی کے بعد یہ تبدیلی طالبان کے نام لائی گئی اور برصغیر میں خانقاہوں کی جگہ مدارس نے لے لی اور خاص کر پاکستانی ثقافت نے اس کی حوصلہ افزائی کی اور اس کا منطقی کلچر کے خاتمے پر منتج ہوا۔ پاکستان کے قبائل علاقوں اور افغانستان میں انتہا پسندی میں اضافے کی اہم وجوہات میں قبائل کے درمیان نا اتفاقی اور حکومتی ڈھانچے کی کمزوریاں ہیں، جس کی وجہ سے بیرونی قدامت پرست عوامل کو اپنے قدم مضبوط کرنے کا موقع ملا، حالانکہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو پاکستان کے مذکورہ بالا علاقوں کے قبائلی ڈھانچے میں کسی قسم کی دراڑیں نظر نہیں آتیں بلکہ حقائق اس کے الٹ ہیں، انتہا پسندوں نے قبائلی علاقوں کے نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ انتہاپسند، سماجی طور پر غربت زدہ یا پھر بالکل الٹ لوگ ہوتے ہیں، حالانکہ یہ بات درست نہیں۔ اس میں سے زیادہ تر انتہا پسند مہذب خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور انھوں نے سماجی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں نااہلی کا ثبوت دیا۔ سماجی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے چار اجزا کی ضرورت ہوتی ہے۔
(1) اختیارات کی تشریح، (2) مقاصد کی تکمیل، (3) سالمیت کا تقاضا، (4) کھنچاؤ کا سدباب۔
شکستہ ڈھانچے کی کامیابی کا راز ایسے ارتقائی عمل میں پوشیدہ ہے جہاں خط حرکت کا رخ اوپر کی سمت ہو اور آبادی کو تعمیری عامل سمجھا جائے اور لوگ بھی اپنے آپ کو جواب دہ سمجھیں اور سرگرمیوں کے پھیلاؤ کو قانونی تحفظ حاصل ہو۔
(جاری ہے)