کویت میں ٹائروں کا ’قبرستان‘ جو خلا سے بھی نظر آتا ہے

ہر سال اس ’ قبرستان‘ میں بڑے بڑے گڑھے کھودے جاتے ہیں جن میں ٹائروں کی ’اجتماعی تدفین‘ کی جاتی ہے


غ۔ع January 20, 2015
فوٹو: فائل

دنیا بھر کی سڑکوں پر رواں گاڑیوں کی تعداد بلاشبہ کروڑوں میں ہوگی۔ گاڑی کی زندگی تو خاصی طویل ہوتی ہے مگر اس کے ٹائر اوسطاً تیس ہزار کلومیٹر چلنے کے بعد ناکارہ ہوجاتے ہیں۔

ذرا تصور کیجیے دنیا بھر میں سالانہ کتنے ٹائر ناقابل استعمال ہوجاتے ہوں گے؟ آپ کے ذہن میں یہ سوال بھی پیدا ہونا چاہیے کہ ناکارہ ٹائر کہاں چلے جاتے ہیں۔ اپنی طبعی عمر' پوری کرچُکنے والے ٹائر عام طور پر ری سائیکل کردیے جاتے ہیں یعنی انھیں تحلیل کرنے کے بعد ان سے مختلف اشیاء بنالی جاتی ہیں۔ مگر کویت میں ربڑ کے ناکارہ ٹائروں کو ری سائیکل نہیں کیا جاتا بلکہ دفن کردیا جاتا ہے!

دارالحکومت کویت سٹی کے علاقے سُلیبیا میں ٹائروں کا وسیع و عریض 'قبرستان' موجود ہے۔ ہر سال اس ' قبرستان' میں بڑے بڑے گڑھے کھودے جاتے ہیں جن میں ٹائروں کی 'اجتماعی تدفین' کی جاتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ' قبرستان ' کے 'مکینوں ' کی تعداد 70 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ بڑے بڑے گڑھے کھودنے کے بعد ان میں ٹائر ڈالے جاتے ہیں۔ گڑھے کے بھرجانے کے بعد بچ رہنے والے ٹائر اسی کے اوپر پھیلادیے جاتے ہیں۔' قبرستان ' میں ٹائروں کا پھیلائو اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب یہ خلا سے بھی نظر آنے لگے ہیں!

ٹھکانے لگانے کے لیے ٹائر کویت کے علاوہ دوسرے ممالک سے بھی لائے جاتے ہیں۔ ناکارہ ٹائر اکٹھے کرکے یہاں پہنچانے کا کام چار کمپنیاں انجام دے رہی ہیں۔



ناکارہ ٹائروں کو ٹھکانے لگانا ایک مشکل کام ہے، اس کی وجہ ان کی بڑی جسامت، پائیداری اور یہ حقیقت ہے کہ ان میں ماحول کے لیے ضرررساں اجزا شامل ہوتے ہیں۔ 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں کے دوران سالانہ 25 کروڑ نو لاکھ ٹائر ناکارہ ہوتے تھے۔ 2000ء اور 2001ء کے درمیانی عرصے میں متحدہ عرب امارات اور یورپی یونین نے 50 لاکھ ٹن ٹائر ٹھکانے لگائے۔

ان میں سے ایک چوتھائی ٹائر زمین میں دبائے گئے تھے جب کہ بقیہ کو ری سائیکلنگ کے عمل سے گزارا گیا تھا۔ امریکی ریاست فلوریڈا میں ناکارہ ٹائروں سے آبی حیات کے لیے زیر آب چٹان بنانے کی کوشش کی گئی تھی جو بری طرح ناکام رہی۔ بلکہ اس کوشش نے آبی حیات کے لیے سنگین خطرات پیدا کردیے تھے۔ فلوریڈا کی حکومت آج بھی اس کوشش کے اثرات زائل کرنے کی سعی کررہی ہے۔

ری سائیکل شدہ ٹائروں سے حاصل کردہ ربڑ اور دیگر میٹیریل بچوں کے لیے کھیل کا میدان، رننگ ٹریک، مصنوعی اسپورٹس پِچ، سیمنٹ بنانے والی بھٹیوں کے لیے ایندھن کے علاوہ فرش بچانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اگر ناکارہ ٹائر اچھی حالت میں ہوں تو انھیں ازسرنو قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ ناکارہ ٹائروں کو جلا کر ان سے ایندھن بھی کشید کیا جاتا ہے۔ یہ کوئلے کا بہترین نعم البدل ثابت ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں