سندھ پولیس نے اپنے شہید اہلکاروں کی قربانیاں بھلا دیں

2014 میں درج کیے گئے 112 مقدمات میں سے 57 کیسز کو اے کلاس قرار دے کر بند کردیا گیا۔

گواہ یا ثبوت نہ ملنے کے باعث 57 مقدمات کو بند کیا گیا،اگر یہی صورتحال رہی تو محکمہ پولیس میں پائی جانے والی بددلی میں مزید اضافہ ہوجائے گا، ذرائع۔ فوٹو: فائل

محکمہ پولیس اپنے شہدا کی قربانیوں کو بھول گیا ، اپنے ہی پیٹی بند افسران و اہلکاروں کے قاتلوں کو پکڑنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کیا جانے لگا، 2014 میں درج کیے گئے 112 مقدمات میں سے 57 کیسز کو اے کلاس قرار دے کر بند کردیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق محکمہ پولیس میں ستم ظریفی کی ایک اور اعلیٰ مثال سامنے آگئی ہے، محکمہ اپنے شہدا کی قربانیوں کو ہی بھول گیا، پولیس نے اپنے ہی شہدا کے قاتلوں کو پکڑنے میں عدم دلچسپی کا اظہار کردیا ہے، 2014 کے دوران 144 پولیس افسران و اہلکار شہید ہوئے اور 112 مقدمات درج کیے گئے۔


تمام شہدا نے فرائض کی ادائیگی کے دوران جام شہادت نوش کیا تھا لیکن محکمہ پولیس کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے 57 کیسز کو اے کلاس قرار دے کر تفتیش بند کردی گئی ہے، ذرائع نے بتایا کہ تفتیشی افسران کا کہنا ہے کہ مذکورہ کیسز میں کوئی گواہ یا ثبوت نہیں مل سکاجس کے باعث مقدمات کو بند کیا جارہا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ نااہل افسران کی ناقص تفتیش کے باعث کیسز بند ہوئے، اگر یہی صورتحال رہی تو محکمہ پولیس میں پائی جانے والی بددلی میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ 37 کیسز تاحال زیر التوا ہیں، 2014 میں درج کیے گئے مقدمات میں سے صرف 9 کیسز حل ہوسکے اور 17 کے چالان پیش کیے گئے، پولیس اہلکاروں کے قتل میں ملوث 18 ملزمان مارے گئے جبکہ 40 کو گرفتار کیا گیا، شاہ لطیف ٹاؤن میں کمانڈوز کی بس پر ہونے والے حملے کے مقدمے میں نامزد ملزمان کو 512 کے تحت مفرور قرار دے دیا گیا ہے۔

گزشتہ برس ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں 120 جبکہ بم دھماکوں میں 24 افسران و اہلکار شہید ہوئے تھے، ضلع غربی میں 68 ، ضلع شرقی میں 61 اور ضلع جنوبی میں 15 افسران و اہلکار شہید ہوئے تھے، پولیس کی جانب سے شہدا کی قربانیوں کو بھلادینا انتہائی تعجب خیز ہے جس کے باعث محکمہ پولیس میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کا اپنے ہی پیٹی بند شہید بھائیوں کے ساتھ یہ سلوک ہے تو پھر عام شہری کے قتل کی تحقیقات میں انھیں کس قدر دلچسپی ہوگی اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
Load Next Story