سندھ حکومت کی نااہلی کے باعث لیاری ایکسپریس وے 11سال بعد بھی نا مکمل
وزیراعلیٰ نے کرپٹ افسران تعینات کیے جنھوں نے متاثرین کو دربدر اورکروڑوں کامال اڑادیا
وفاق وسندھ حکومت کی غفلت اورنااہلی کے باعث لیاری ایکسپریس وے کا تعمیراتی کام اور متاثرین کی نوآبادکاری کا منصوبہ11سال گذرجانے کے باوجود مکمل نہ کیا جاسکا، لیاری نوآبادکاری منصوبے میں5 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں جبکہ مزید3ارب روپے درکار ہیں۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی جانب سے کرپٹ و نااہل افسران کی تعیناتی کے باعث لیاری نوآبادکاری منصوبے میں کروڑوں روپے کرپشن کی نذر اور پلاٹوں میں بڑے پیمانے پر گھپلے کیے جاچکے ہیں، سیکڑوں متاثرین، بیوائیں، یتیم اور مسکین در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جبکہ غیر متعلقہ افراد کو زمین الاٹ کردی گئی ہے، منصوبے کے آغاز میں متاثرین کی تعداد صرف 16ہزار تھی تاہم اب30 ہزارسے زائد ہوچکی ہے۔
لیاری نوآبادکاری منصوبہ میں گھپلوں کے باعث لیاری ایکسپریس وے منصوبہ بھی التوا کا شکار ہے، تاخیر کے باعث دونوں منصوبوں پر آنے والی لاگت میںکئی گنا اضافہ ہوچکا ہے اور یہ منصوبے سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ لیاری ایکسپریس وے کا جنوبی حصہ 2008 میں مکمل کیا گیا تاہم شمالی حصہ درکار اراضی اور فنڈ کی عدم فراہمی کی وجہ سے نامکمل ہے، رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے صرف ایک کروڑ مختص کیے جبکہ منصوبہ مکمل کرنے کے لیے 4 ارب روپے مزید درکار ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مطابق رائٹ آف وے نہ ملنے کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، صرف 2.2 کلومیٹر رائٹ آف وے درکار ہے منصوبہ ایک سال میں مکمل کردیں گے، تاخیر کے باعث لیاری ایکسپریس وے کی لاگت 12ارب روپے جبکہ نو آبادکاری منصوبے کی لاگت 8 ارب روپے ہوچکی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ لیاری ایکسپریس وے منصوبہ 2002 میں شروع ہوا اور تعمیراتی کام 2004 میں مکمل کیا جانا تھا۔
تاہم متاثرین کی نوآبادکاری میں تاخیر کی وجہ سے یہ منصوبہ طویل عرصے التوا کا شکار رہا، وفاقی حکومت نے لیاری منصوبے کے متاثرین کی نوآبادکاری کے لیے کئی بار فنڈ بھی جاری کیے گئے تاہم لیاری نوآبادکاری منصوبے کے افسران و عملے کی مالی بے قاعدگیوں کے باعث فنڈ کا منصفانہ استعمال نہ کیا جاسکا جس سے متاثرین کی نوآبادکاری کا عمل پورا نہ ہوسکا۔ علاوہ ازیں متاثرین کی نوآبادکاری کے لیے ہاکس بے اسکیم، تیسر ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن میں مختص اراضی میں بڑے پیمانے پر گھپلے کیے گئے اور رہائشی و تجارتی پلاٹس کی غیرقانونی طریقے سے فروخت کی گئی۔
واضح رہے کہ لیاری نو آبادکاری منصوبہ سندھ حکومت کی زیرنگرانی ہے جبکہ لیاری ایکسپریس وے منصوبے پر تعمیراتی کام نیشنل ہائی وے اتھارٹی انجام دے رہا ہے جو ایک وفاقی ادارہ ہے۔ صوبائی حکومت کے متعلقہ افسران نے بتایا کہ29 ہزار سے زائد متاثرین کی نوآبادکاری مکمل کی جاچکی ہے، ایک ہزار سے زائد متاٖثرین کی منتقلی کے لیے کام جاری ہے، اس ضمن میں وفاقی حکومت نے 20 کروڑ روپے جاری کردیے ہیں ، جلد ہی درکار زمین این ایچ اے کے حوالے کردی جائے گی۔
وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کی جانب سے کرپٹ و نااہل افسران کی تعیناتی کے باعث لیاری نوآبادکاری منصوبے میں کروڑوں روپے کرپشن کی نذر اور پلاٹوں میں بڑے پیمانے پر گھپلے کیے جاچکے ہیں، سیکڑوں متاثرین، بیوائیں، یتیم اور مسکین در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں جبکہ غیر متعلقہ افراد کو زمین الاٹ کردی گئی ہے، منصوبے کے آغاز میں متاثرین کی تعداد صرف 16ہزار تھی تاہم اب30 ہزارسے زائد ہوچکی ہے۔
لیاری نوآبادکاری منصوبہ میں گھپلوں کے باعث لیاری ایکسپریس وے منصوبہ بھی التوا کا شکار ہے، تاخیر کے باعث دونوں منصوبوں پر آنے والی لاگت میںکئی گنا اضافہ ہوچکا ہے اور یہ منصوبے سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ لیاری ایکسپریس وے کا جنوبی حصہ 2008 میں مکمل کیا گیا تاہم شمالی حصہ درکار اراضی اور فنڈ کی عدم فراہمی کی وجہ سے نامکمل ہے، رواں مالی سال میں وفاقی حکومت نے لیاری ایکسپریس وے کی تعمیر کے لیے صرف ایک کروڑ مختص کیے جبکہ منصوبہ مکمل کرنے کے لیے 4 ارب روپے مزید درکار ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے مطابق رائٹ آف وے نہ ملنے کے باعث منصوبہ تاخیر کا شکار ہے، صرف 2.2 کلومیٹر رائٹ آف وے درکار ہے منصوبہ ایک سال میں مکمل کردیں گے، تاخیر کے باعث لیاری ایکسپریس وے کی لاگت 12ارب روپے جبکہ نو آبادکاری منصوبے کی لاگت 8 ارب روپے ہوچکی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ لیاری ایکسپریس وے منصوبہ 2002 میں شروع ہوا اور تعمیراتی کام 2004 میں مکمل کیا جانا تھا۔
تاہم متاثرین کی نوآبادکاری میں تاخیر کی وجہ سے یہ منصوبہ طویل عرصے التوا کا شکار رہا، وفاقی حکومت نے لیاری منصوبے کے متاثرین کی نوآبادکاری کے لیے کئی بار فنڈ بھی جاری کیے گئے تاہم لیاری نوآبادکاری منصوبے کے افسران و عملے کی مالی بے قاعدگیوں کے باعث فنڈ کا منصفانہ استعمال نہ کیا جاسکا جس سے متاثرین کی نوآبادکاری کا عمل پورا نہ ہوسکا۔ علاوہ ازیں متاثرین کی نوآبادکاری کے لیے ہاکس بے اسکیم، تیسر ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن میں مختص اراضی میں بڑے پیمانے پر گھپلے کیے گئے اور رہائشی و تجارتی پلاٹس کی غیرقانونی طریقے سے فروخت کی گئی۔
واضح رہے کہ لیاری نو آبادکاری منصوبہ سندھ حکومت کی زیرنگرانی ہے جبکہ لیاری ایکسپریس وے منصوبے پر تعمیراتی کام نیشنل ہائی وے اتھارٹی انجام دے رہا ہے جو ایک وفاقی ادارہ ہے۔ صوبائی حکومت کے متعلقہ افسران نے بتایا کہ29 ہزار سے زائد متاثرین کی نوآبادکاری مکمل کی جاچکی ہے، ایک ہزار سے زائد متاٖثرین کی منتقلی کے لیے کام جاری ہے، اس ضمن میں وفاقی حکومت نے 20 کروڑ روپے جاری کردیے ہیں ، جلد ہی درکار زمین این ایچ اے کے حوالے کردی جائے گی۔