وہ اپنا سپنا دھول میں اُڑاتا ہے

اب علم کی دکان چلانے والوں کو پاگل کتے نے کاٹا ہے جو بنا فیس کے کسی بچے کو پڑھاتے رہیں.

وہ پڑھنا چاہتا ہے، کاش اِس کا یہ خواب پورا ہو۔ بس جس دن اُس کی خواہش پوری ہو، ہمیں اُس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے بجائے اپنی پلکوں سے اس کے راستے کی دھول صاف کرنی چاہیے۔ فوٹو: ایکسپریس

ٹھیک اُس وقت جب آپ اپنے راج دلارے کو بڑے پیار سے ناشتہ کرارہی ہوتی ہیں ''جلدی کرو بیٹا دیر ہوجائے گی'' کہہ کر، اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے، جب آپ اپنی لاڈلی کو یونیفارم پہنا کر اس کے گال پر ممتا ثبت کررہی ہوتی ہیں، عین ان لمحات میں جب آپ اپنے لخت جگر کی پیشانی چوم کر اسے اسکول کے لیے روانہ کرتے ہیں، جب آپ اپنی کار یا موٹر سائیکل پر اپنی نورنظر کو بٹھاکر درس گاہ کا راستہ لیتے ہیں۔

ان ساعتوں میں آپ سے بہت دور ایک گلی میں ایک نو دس سال کا بچہ جھاڑو لگا رہا ہوتا ہے۔

اب صاحب یہ کون سی نئی بات ہے، ہوٹلوں اور ورک شاپوں کے چھوٹوں سے سڑکوں پر پھول بیچتے پھولوں تک کتنی ہی کچی عمریں خاک ہورہی ہیں اور جس ''مصر'' میں بچوں کا قتل عام ہوجائے وہاں چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو اوزار بنائے اور ننھے ننھے جسموں پر گھر کا بوجھ اٹھائے معصوم وجود مظلوم کیسے گردانے جاسکتے ہیں۔

تو محترم اور محترمہ میں آپ سے ''اس'' پر ''چچ چچ'' کرکے ترس کھانے اور ہائے کہہ کر رحم کرنے کے لیے یہ تحریر نہیں لکھ رہا۔ وہ آپ کے میرے ترس اور رحم کھانے کے نہیں تعظیم کے لائق ہے۔ ابھی آپ نے اس نو دس سال کے لڑکے کو صرف جھاڑو لگاتے دیکھا ہے، چلیے، اس سویرے کے دامن میں، میں آپ کو ایک اور منظر دکھاتا ہوں۔

دیکھیے! اس گلی میں کچھ بچے اسکول یونی فارم پہنے، کندھوں پر بستے لٹکائے گزر رہے ہیں۔ انھیں دیکھ کر وہ رک گیا ہے، انھیں دیکھ رہا ہے وہ گزرگئےاور اس نے پھر سر جھکاکر جھاڑو لگانا شروع کردی۔

''بیٹا! تم رک کیوں گئے تھے'' دوسروں کے درد سے سینہ فگار رکھنے والے میرے یار دل دار زاہد نثار نے اس سے پوچھا۔

اس کا جواب تھا:

''جھاڑو اس لیے روکتا ہوں کہ اسکول جانے والے بچوں پر گرد نہ پڑے۔ ان کے کپڑے اُجلے ہیں میلے نہ ہوجائیں، انھیں نزلہ زکام نہ ہوجائے، چہرے پر مٹی نہ پڑے، ٹیچر انھیں کلاس سے نکال نہ دے۔''


یہ ہے الطاف حسین ۔۔۔۔۔۔ جو ضلع رحیم یارخان کی تحصیل صادق آباد کے قصبے احمدپور لمہ کے علاقے ٹنکی گراؤنڈ کی ایک گلی میں روشنی پھیلارہا ہے۔
الطاف کے باپ کو دما نڈھال رکھتا ہے اور ماں گردے کی مریض ہے۔ وہ اپنے خاکروب باپ کو مشقت اور اس کی سانسیں دھول سے بچانے کے لیے ہر سویرے باپ کی جگہ خود جھاڑو دیتا ہے۔ باپ کا حق ادا کرکے گھر پہنچتا ہے تو چھوٹے بہن بھائیوں اور بیمار ماں کی دیکھ بھال میں لگ جاتا ہے۔

جو بہ اصول قوم اپنے راہ نماؤں، جرنیلوں اور دوسرے بڑوں کی بدعنوانیاں اور بدکاریاں بغیر ڈکار کے ہضم کرجاتی ہے، اسے اس بچے کی چھوٹی سی غلطی بھی گوارا نہیں۔ کسی کے گھر کے سامنے سے کوڑا نہ اُٹھا سکا، کسی کے دروازے پر کچرا پڑا رہ گیا، بس پھر کیا ہے، گالیاں دی جاتی ہیں، تھپڑ بھی مار دیا جاتا ہے۔ بھئی اصول کی بات ہے، کوئی غلطی کرے گا تو سزا بھی ملے گی، بس اس ''کوئی'' کا کم زور ہونا شرط ہے، پھر آپ اس دلیر اور منصف مزاج عوام کا انصاف دیکھیے۔

اب ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں سب لوگ ایک سے ہوں، یہاں بڑے بڑے دیالو پڑے ہیں۔ بس ثواب کا آسرا دیکھا اور لٹائی دولت۔ ایک ایسے ہی دیالو نے الطاف پر الطاف کرتے ہوئے اسے اسکول میں داخل کرادیا۔ مگر کسی ''اسلام کے سچے پیروکار'' کے سمجھانے پر عقل آگئی، سمجھانے والے نے سمجھایا، ''ارے ایک خاکروب پر کیوں پیسہ ضایع کررہے ہو۔ ثواب کمانا ہے تو کسی مسجد یا مدرسے میں پیسہ دو۔'' اب سودوزیاں کی سرمایہ پرست ذہنیت کے سامنے ایک بچے پر پیسہ لگانے کا ثواب زیادہ یا بہت سے نمازیوں اور مدرسے کے طلبہ پر؟

جواب دو اور دو چار کی طرح آسان۔ تو ان صاحب کا دامنِ لطف وکرم آن کی آن میں الطاف کے سر سے ہٹ گیا۔ اب علم کی دکان چلانے والوں کو پاگل کتے نے کاٹا ہے جو بنا فیس کے کسی بچے کو پڑھاتے رہیں ۔۔۔ الطاف کو اسکول سے نکال دیا گیا۔ اس دن کے بعد سے وہ ہر روز اپنا پڑھنے کا خواب دھول میں اڑاتا ہے اور اسکول جاتے بچوں کو اس دھول سے بچاتا ہے۔

جس سماج میں اہل دانش اپنی ''خدمات'' کی دہائی دے کر وظیفے اور علاج کے اخراجات کے لیے اپیلیں کرتے ہوں، وہاں افلاس کے صدمے جھیلتا اور حصول علم کا خواب آنکھوں میں لیے یہ بچہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا روادار نہیں۔

وہ پڑھنا چاہتا ہے، اپنے خاندان کا بوجھ اٹھانا چاہتا ہے۔ کاش یہ سپنا پورا ہو اور جس دن وہ اسکول کی طرف قدم اٹھائے، ہم اس کی راہ میں تارے نہ بچھائیں اپنی پلکوں سے اس کے راستے کی دھول صاف کرتے چلیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story