وطن عزیز کے باسی دہشت گردی کا نشانہ بننے والے اپنے پیاروں کو تابوت میں دفنانے لگے
دہشت گردی کا شکار افراد میں سے بعض کی باڈی اتنی بری طرح مسخ ہوچکی ہوتی ہے انہیں کفن میں لپیٹ کر دفنایا نہیں جاسکتا
پاکستان میں عموماً تابوتوں میں میتوں کی تدفین کا رواج نہیں لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ہزاروں افراد دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں جس کے باعث تابوت بنانے کے کاروبارسے منسلک افراد بھی اب زیادہ مصروف دکھائی دینے لگے ہیں اور سال بہ سال اس کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان میں آئے روز درجنوں افراد دہشت گردی کا شکار ہوکر شہادت نوش کرتے ہیں اور دہشت گرد کارروائیوں کا شکار افراد میں سے بعض کی باڈی اتنی بری طرح مسخ ہوچکی ہوتی ہے انہیں کفن میں لپیٹ کر دفنایا نہیں جاسکتا لہٰذا ایسی صورت میں ورثا کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ میت کو تابوت میں ڈال کر دفنائیں ۔
اسی حوالے سے پشاور میں 1980 کی دہائی میں تابوت کا کاروبار شروع کرنے والے 60 سالہ جہانزیب خان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں ان کی دکان سے دن بھر میں 2 سے 3 تابوت خریدے جاتے تھے جو عموماً افغان پناہ گزین میتوں کو افغانستان بھیجنے یا انتہائی مذہبی گھرانے خواتین کی میتوں کو بے پردگی سے بچانے کے لئے خریدتے تھے لیکن 2004 میں پاکستان میں شدت پسندی بڑھنے اور دہشت گرد کارروائیوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد ان کے کاروبار میں کئی گنا اضافہ ہوگیا کیونکہ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں جاں بحق ہونے والے کئی افراد کی لاشیں انتہائی بری حالت میں ہوتی ہیں جس کے بعد انہیں مجبوراً تابوت میں ہی دفنانا پڑتا ہے۔
جہانزیب خان کا کہنا تھا کہ اب شہر میں تابوت بنانے والی تقریباً 40 دکانیں اور 45 لاکھ کی آبادی والے شہر میں روزانہ تقریباً 15 تابوت بکتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تابوت طبعی موت مرنے والوں کے لئے بھی خریدے جارہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق پاکستان میں آئے روز درجنوں افراد دہشت گردی کا شکار ہوکر شہادت نوش کرتے ہیں اور دہشت گرد کارروائیوں کا شکار افراد میں سے بعض کی باڈی اتنی بری طرح مسخ ہوچکی ہوتی ہے انہیں کفن میں لپیٹ کر دفنایا نہیں جاسکتا لہٰذا ایسی صورت میں ورثا کے پاس ایک ہی راستہ ہوتا ہے کہ وہ میت کو تابوت میں ڈال کر دفنائیں ۔
اسی حوالے سے پشاور میں 1980 کی دہائی میں تابوت کا کاروبار شروع کرنے والے 60 سالہ جہانزیب خان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں ان کی دکان سے دن بھر میں 2 سے 3 تابوت خریدے جاتے تھے جو عموماً افغان پناہ گزین میتوں کو افغانستان بھیجنے یا انتہائی مذہبی گھرانے خواتین کی میتوں کو بے پردگی سے بچانے کے لئے خریدتے تھے لیکن 2004 میں پاکستان میں شدت پسندی بڑھنے اور دہشت گرد کارروائیوں میں درجنوں افراد کی ہلاکت کے بعد ان کے کاروبار میں کئی گنا اضافہ ہوگیا کیونکہ بم دھماکوں اور خودکش حملوں میں جاں بحق ہونے والے کئی افراد کی لاشیں انتہائی بری حالت میں ہوتی ہیں جس کے بعد انہیں مجبوراً تابوت میں ہی دفنانا پڑتا ہے۔
جہانزیب خان کا کہنا تھا کہ اب شہر میں تابوت بنانے والی تقریباً 40 دکانیں اور 45 لاکھ کی آبادی والے شہر میں روزانہ تقریباً 15 تابوت بکتے ہیں اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تابوت طبعی موت مرنے والوں کے لئے بھی خریدے جارہے ہیں۔