پاک افغان تعلقات میں بہتری کے اشارے
افغانستان اور پاکستان کے فوجی افسروں کے درمیان بات چیت اور رابطے موجودہ صورت حال میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
پاکستان اور افغانستان نے سرحدی تعاون مزید بہتر بنانے اور فوج سے فوج کے تعلقات کو گہرا کرنے کے لیے رواں ہفتے کمانڈروں کی ملاقاتوں کا ایک سلسلہ شروع کیا ہے۔ پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ہدایت الرحمن اتوار کو پہلی ملاقات کے لیے افغانستان روانہ ہوئے جب کہ جنوبی کمان کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ ایک اور ملاقات کے لیے آج (بدھ کے دن) افغانستان جائیں گے۔افغانستان اور پاکستان کے فوجی افسروں کے درمیان بات چیت اور رابطے موجودہ صورت حال میں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔اطلاعات کے مطابق ایساف کمانڈربھی ان ملاقاتوں میں شریک ہوئے ہیں ۔
اخباری اطلاعات کے مطابق کمانڈروں کی ملاقاتوں کا فیصلہ 23 دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے سہ فریقی ملاقات میں کیا گیا تھا۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان سرحدی معاملات پر تعاون کا ایک نیا طریق کار واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاک افغان سرحدی تعاون کے دو مقامات طورخم اور اسپن بولدک کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے۔ کرزئی دور حکومت میں پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک تلخ مسئلہ رہا ہے۔ اور دونوں ملک ایک دوسرے پر الزامات عاید کرتے رہے ہیں۔ نئے طریقہ کار میں دونوں ملکوں کی افواج کے مابین بہتر تعاون اور سرحد کے کنٹرول کو زیادہ مضبوط بنایا جائے۔
افغان صدر اشرف غنی نومبر میں اسلام آباد کے دورے کے موقعے پر جی ایچ کیوگئے تھے جہاں انھوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی۔ جس سے دفاعی تعلقات میں گرم جوشی کا اشارہ ملتا تھا ۔سولہ دسمبر کے پشاور سانحے کے بعد بھی دونوں ملکوں میں فعال تعاون دیکھا گیا۔ افغانستان میں پشاور حملہ کے پانچ مشتبہ دہشتگردوں کو گرفتار کرنے کی اطلاع بھی ہے۔ پاکستان اور افغان فوجی کمانڈروں کے مابین مزید ملاقاتیں بھی ہونے والی ہیں۔یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔
دونوں ملکوں میں جس قدر اعتماد بڑھے گا، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا اتنا ہی آسان ہو جائے گا۔افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ گرفتار پانچ مشتبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کر دے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پناہ گزین مولوی فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔افغانستان کے اس اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد زیادہ بڑھے گا۔
اخباری اطلاعات کے مطابق کمانڈروں کی ملاقاتوں کا فیصلہ 23 دسمبر کو اسلام آباد میں ہونے والے سہ فریقی ملاقات میں کیا گیا تھا۔یہ اطلاعات بھی ہیں کہ پاکستان اور افغانستان سرحدی معاملات پر تعاون کا ایک نیا طریق کار واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پاک افغان سرحدی تعاون کے دو مقامات طورخم اور اسپن بولدک کو دوبارہ فعال کیا جا رہا ہے۔ کرزئی دور حکومت میں پاک افغان سرحد پر غیر قانونی نقل و حرکت دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک تلخ مسئلہ رہا ہے۔ اور دونوں ملک ایک دوسرے پر الزامات عاید کرتے رہے ہیں۔ نئے طریقہ کار میں دونوں ملکوں کی افواج کے مابین بہتر تعاون اور سرحد کے کنٹرول کو زیادہ مضبوط بنایا جائے۔
افغان صدر اشرف غنی نومبر میں اسلام آباد کے دورے کے موقعے پر جی ایچ کیوگئے تھے جہاں انھوں نے پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کی تھی۔ جس سے دفاعی تعلقات میں گرم جوشی کا اشارہ ملتا تھا ۔سولہ دسمبر کے پشاور سانحے کے بعد بھی دونوں ملکوں میں فعال تعاون دیکھا گیا۔ افغانستان میں پشاور حملہ کے پانچ مشتبہ دہشتگردوں کو گرفتار کرنے کی اطلاع بھی ہے۔ پاکستان اور افغان فوجی کمانڈروں کے مابین مزید ملاقاتیں بھی ہونے والی ہیں۔یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔
دونوں ملکوں میں جس قدر اعتماد بڑھے گا، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنا اتنا ہی آسان ہو جائے گا۔افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ گرفتار پانچ مشتبہ دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کر دے اور اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پناہ گزین مولوی فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔افغانستان کے اس اقدام سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد زیادہ بڑھے گا۔