جمہوریت پر یقین
جمہوریت کے خلاف پاکستان میں کوئی بھی کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتا۔ کیوں کہ سب ہی جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں۔
ISLAMABAD:
جمہوریت کے خلاف پاکستان میں کوئی بھی کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتا۔ کیوں کہ سب ہی جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن مغرب میں جو جمہوریت کا مولد ہے جمہوریت کے خلاف شدید تنقید کی جاتی ہے۔ اس کی خامیاں بتائی جاتی ہیں۔ فرانس کے فلسفی ''جیکوئیز رینسیر'' جو ''فوکالٹ'' اور ''گلز ڈلیوز'' جیسے عظیم فلاسفہ کی سطح کے فلسفی ہیں۔ وہ اپنی کتاب ''ہیٹرڈ اوف ڈیموکریسی'' کے دیباچہ میں صاف صاف لکھتے ہیں کہ ''مغرب کے تمام امراض، مسائل اور مشکلات کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے جمہوریت۔ یہ آج کے فرد کی سلطنت ہے لا محدود خواہشات کی آج کی جدید معاشرت میں۔''
جمہوریت کے بارے میں یہ بھی بڑی غلط فہمی ہے کہ اس میں انتقال اقتدار نہایت پرامن طریقے سے ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ جمہوریت بڑا نرم، پر امن، شریف، انسانیت نواز نظام ہے۔ پروفیسر مائیکل مین کی کتاب ''دا ڈارک سائیڈ اوف ڈیموکریسی'' جو کیمبرج یونیورسٹی پریس نے شایع کی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ جمہوریت جہاں جاتی ہے خون، آگ، دہشت، تشدد، غنڈہ گردی کا ماحول پیدا کر دیتی ہے۔ اس نے کتاب میں جمہوریت کے قتل عام کی تفصیل بیان کی ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستانی دانشوروں اور سیاستدانوں میں سے کسی ایک نے بھی جمہوریت کے خلاف مغرب میں شایع ہونے والی تنقید کا مطالعہ تک نہیں کیا۔
جمہوریت یونان میں بھی تھی یہ ''ایتھینین ڈیموکریسی'' کہلاتی ہے۔ افلاطون اور ارسطو کو اندازہ تھا کہ جمہوریت اخلاقی زوال کی خبر لاتی ہے۔ افلاطون نے اپنی کتاب ''ری پبلک'' میں جمہوریت کو رَد کیا ہے۔ اس کے خیال میں جمہوریت ''شہوات اور حرص'' میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ غیر مساویانہ تقسیم دولت اور طاقت کا سبب بنتی ہے۔ جس کے باعث عوام اور اشرافیہ دونوں بد عنوان و بد کردار ہو جاتے ہیں۔
ارسطو، ''سیاسیات اور اخلاقیات'' کے زیر عنوان جمہوریت کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس نظام کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ جمہوریت اوندھی ہوتی ہے۔ اشرافیہ کے لیے جمہوریت کا مقصد صرف لا یعنیت ہے۔ جس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ آزادی جسے ایک مقید نفس حاصل کر سکتا ہے مگر اس کا حاصل بھی لا یعنیت ہی ہے۔ اس ذریعے سے فرد جو مقصد بھی حاصل کرے وہ سب یکساں طور پر ناقابل وقعت ہوتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست میں کسی شخص کو ذاتی مفاد کی خاطر بد عنوانی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کیوں کہ کرپشن اصل میں صرف اپنا مفاد اور دوسرے کا نقصان ہے۔ یہ مفاد ''سیلف انٹرسٹ'' کے دائرے میں نہیں آتا۔ بد عنوانی کرنے والے کے افادہ میں بد عنوانی کے مال سے تو اضافہ ہو جائے گا، لیکن یہ اُس کا ایسا حق ہے جس سے بحیثیت مجموعی سب کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا اس حق کی آزادی اجتماعی مفاد میں نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ہر آدمی بد عنوانی شروع کر دے اور اس عمل پر پابندی بھی نہ ہو تو سرمایہ دارانہ ملکیتی نظام ختم ہو جائے گا۔ ''مجموعی افادہ پرستی'' ختم ہو جائے گی۔ لہٰذا سرمایہ داری میں فرد کے حقوق اور ذاتی جائیداد کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
اس سے معاشرے کے وسیع تر مفاد میں اور طویل عرصے تک، افادہ پرستی کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں میڈیا بدعنوانیوں کے خلاف جہاد کرتا ہے۔ وہ جہاد اصلاً اِس لیے نہیں ہوتا کہ وہ عوام کا خیرخواہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میڈیا تو سرمایہ دارانہ نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ وہ سرمایہ داری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں، کارپوریشنز اور سرمایہ دار ریاست کے پیسے سے چلتا ہے۔ اگر بدعنوانیاں عام ہوں گی تو بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کمزور ہو جائے گا۔ اِس سے سرمایہ داری کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا بد عنوانی کے خلاف میڈیا کا ''جہاد'' در اصل اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے ساتھ وسیع ترین سرمایہ دارانہ مفاد کے لیے ہوتا ہے۔
اگر سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہو گا تو میڈیا کو اچھا کاروبار اور منافع ملے گا۔ اِسے عوامی ہمدردی اور خیر خواہی سے خلط ملط کرنا نِری سادگی ہے۔ ذرایع ابلاغ کی آزادی کا مطلب سرمائے کی آزادی ہے۔ آزادی میں اضافے کا مطلب سرمائے میں اضافہ ہے۔ فرد کی آزادی میں اضافے کا مطلب بھی اس کی ارتکاز سرمایہ کی صلاحیت میں اضافہ ہے۔
جمہوریت لوگوں میں اقتدار اور اختیار کی ایسی ہوس پیدا کر دیتی ہے کہ ایک د وسرے کے دشمن بھی حکومت میں شامل ہو کر شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ مثلاً پرویز مشرف کی سو فی صد امریکا نواز حکومت میں متحدہ مجلس عمل شامل تھی۔ جو طالبان کی حامی اور امریکا کی مخالف تھی۔ لیکن وہ ایک ایسی حکومت کے ساتھ رہی جو اس سے بنیادی نظریاتی اختلاف رکھتی تھی۔ یہ جمہوریت کا ظرف ہے جو سب کو ''اعلیٰ ظرف'' بنا دیتی ہے۔ زرداری اور شریف برادران کی باریاں اور جمہوریت نوازیاں بھی سب ہی کے سامنے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن امریکا کے خلاف اور طالبان کے حامی ہیں۔ لیکن طالبان دشمن، امریکا نواز حکومت کے دست و بازو ہیں۔ خلاف بھی ہیں اور ساتھ بھی ہیں۔ یہ جمہوریت کا حسن اور کمال ہے کہ وہ متنوع، مخالف یہاں تک کہ متضاد نظریات کے حاملین کو بھی فراخ دلی کے ساتھ اپنے ''دامن رحمت'' میں پناہ دیتی ہے۔
کیوں، ایسا کیوں ہے؟ وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں خیر و شر کچھ نہیںہوتا۔ جو گروہ جمہوریت کو بالا تر مذہب مان کر جمہوری عمل میں شریک ہو جائے، خواہ اس کے نظریات ا جماعتی یا انفرادی طور پر کیسے ہی کیوں نہ ہوں، جمہوریت میں آتے ہی تمام نظریات خود بخود تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اس کے نظریے، دین، اصول، ایمان، عقیدے کا ڈنک جمہوریت نکال دیتی ہے۔ اقتدار کی غلام گردش میں گردش اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ بنیادی اختلافات پس پشت چلے جاتے ہیں۔ نظریے پر قومیت، سیاست، حکمت عملی، زمینی حقائق، کم تر برائی، وجود کا تحفظ، ان حالات میں یہ ہی ہو سکتا ہے، جیسے سابقے لاحقے استعمال ہونے لگتے ہیں۔ اسی لیے جمہوریت مذہبی تحریکوں کو بھی سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بہ خوشی بناتی ہے کہ اس کا حصہ بننے کے بعد ان کی مذہبیت یا تو ختم ہو جاتی ہے یا ''لبرل'' ہو جاتی ہے۔
جمہوریت اصل مذہب، اصل طاقت، اصل علم بن جاتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ مغرب ہر جگہ کوشش کرتا ہے کہ ہر نظریاتی یا انقلابی گروہ کو سیاسی عمل میں شریک کر لے۔ اسی اصول کے تحت حماس کو سیاسی عمل میں شریک کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ عسکری تنظیم تھی۔ اسی اصول کے تحت حزب اللہ کو لبنان کے سیاسی عمل اور اسمبلی میں شریک کیا گیا۔ اسی اصول کے تحت اب وہ طالبان سے مذاکرات چاہتے ہیں۔
وغیرہ ۔ صدر بش نے افغانستان پر حملے سے پہلے جو تاریخی تقریر کی تھی اس میں کہا تھا کہ ''ہم ایک تاریک غار میں بھی جمہوریت کی شمع جلائیں گے۔'' کیوں کہ جمہوریت ایک ایسی شمع ہے جس پرہر پروانہ گر گر کر آتا ہے۔ خواہ اس کا نظریاتی پس منظر کچھ بھی ہو۔ یہاں تک کہ اس شمع کی خاطر وہ اپنے وجود کو ختم کر دیتے ہیں۔ جمہوریت وہ طوطا ہے جس میں ہر تحریک و تنظیم کی جان پوشیدہ ہے اسی لیے شاعر نے کہا تھا ؎
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا
جمہوریت کے خلاف پاکستان میں کوئی بھی کچھ بھی سننا پسند نہیں کرتا۔ کیوں کہ سب ہی جمہوریت میں یقین رکھتے ہیں۔ لیکن مغرب میں جو جمہوریت کا مولد ہے جمہوریت کے خلاف شدید تنقید کی جاتی ہے۔ اس کی خامیاں بتائی جاتی ہیں۔ فرانس کے فلسفی ''جیکوئیز رینسیر'' جو ''فوکالٹ'' اور ''گلز ڈلیوز'' جیسے عظیم فلاسفہ کی سطح کے فلسفی ہیں۔ وہ اپنی کتاب ''ہیٹرڈ اوف ڈیموکریسی'' کے دیباچہ میں صاف صاف لکھتے ہیں کہ ''مغرب کے تمام امراض، مسائل اور مشکلات کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے جمہوریت۔ یہ آج کے فرد کی سلطنت ہے لا محدود خواہشات کی آج کی جدید معاشرت میں۔''
جمہوریت کے بارے میں یہ بھی بڑی غلط فہمی ہے کہ اس میں انتقال اقتدار نہایت پرامن طریقے سے ہوتا ہے۔ نیز یہ کہ جمہوریت بڑا نرم، پر امن، شریف، انسانیت نواز نظام ہے۔ پروفیسر مائیکل مین کی کتاب ''دا ڈارک سائیڈ اوف ڈیموکریسی'' جو کیمبرج یونیورسٹی پریس نے شایع کی ہے وہ یہ بتاتی ہے کہ جمہوریت جہاں جاتی ہے خون، آگ، دہشت، تشدد، غنڈہ گردی کا ماحول پیدا کر دیتی ہے۔ اس نے کتاب میں جمہوریت کے قتل عام کی تفصیل بیان کی ہے۔ لگتا ہے کہ پاکستانی دانشوروں اور سیاستدانوں میں سے کسی ایک نے بھی جمہوریت کے خلاف مغرب میں شایع ہونے والی تنقید کا مطالعہ تک نہیں کیا۔
جمہوریت یونان میں بھی تھی یہ ''ایتھینین ڈیموکریسی'' کہلاتی ہے۔ افلاطون اور ارسطو کو اندازہ تھا کہ جمہوریت اخلاقی زوال کی خبر لاتی ہے۔ افلاطون نے اپنی کتاب ''ری پبلک'' میں جمہوریت کو رَد کیا ہے۔ اس کے خیال میں جمہوریت ''شہوات اور حرص'' میں اضافہ کرتی ہے۔ یہ غیر مساویانہ تقسیم دولت اور طاقت کا سبب بنتی ہے۔ جس کے باعث عوام اور اشرافیہ دونوں بد عنوان و بد کردار ہو جاتے ہیں۔
ارسطو، ''سیاسیات اور اخلاقیات'' کے زیر عنوان جمہوریت کے بارے میں لکھتا ہے کہ اس نظام کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ جمہوریت اوندھی ہوتی ہے۔ اشرافیہ کے لیے جمہوریت کا مقصد صرف لا یعنیت ہے۔ جس میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ آزادی جسے ایک مقید نفس حاصل کر سکتا ہے مگر اس کا حاصل بھی لا یعنیت ہی ہے۔ اس ذریعے سے فرد جو مقصد بھی حاصل کرے وہ سب یکساں طور پر ناقابل وقعت ہوتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ جمہوری ریاست میں کسی شخص کو ذاتی مفاد کی خاطر بد عنوانی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ کیوں کہ کرپشن اصل میں صرف اپنا مفاد اور دوسرے کا نقصان ہے۔ یہ مفاد ''سیلف انٹرسٹ'' کے دائرے میں نہیں آتا۔ بد عنوانی کرنے والے کے افادہ میں بد عنوانی کے مال سے تو اضافہ ہو جائے گا، لیکن یہ اُس کا ایسا حق ہے جس سے بحیثیت مجموعی سب کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا اس حق کی آزادی اجتماعی مفاد میں نہیں ہو گی۔ لیکن اگر ہر آدمی بد عنوانی شروع کر دے اور اس عمل پر پابندی بھی نہ ہو تو سرمایہ دارانہ ملکیتی نظام ختم ہو جائے گا۔ ''مجموعی افادہ پرستی'' ختم ہو جائے گی۔ لہٰذا سرمایہ داری میں فرد کے حقوق اور ذاتی جائیداد کو تحفظ دیا جاتا ہے۔
اس سے معاشرے کے وسیع تر مفاد میں اور طویل عرصے تک، افادہ پرستی کا عمل جاری و ساری رہتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں میڈیا بدعنوانیوں کے خلاف جہاد کرتا ہے۔ وہ جہاد اصلاً اِس لیے نہیں ہوتا کہ وہ عوام کا خیرخواہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میڈیا تو سرمایہ دارانہ نظام کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ وہ سرمایہ داری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں، کارپوریشنز اور سرمایہ دار ریاست کے پیسے سے چلتا ہے۔ اگر بدعنوانیاں عام ہوں گی تو بحیثیت مجموعی سرمایہ دارانہ معاشی نظام کمزور ہو جائے گا۔ اِس سے سرمایہ داری کو نقصان پہنچے گا۔ لہٰذا بد عنوانی کے خلاف میڈیا کا ''جہاد'' در اصل اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے ساتھ وسیع ترین سرمایہ دارانہ مفاد کے لیے ہوتا ہے۔
اگر سرمایہ دارانہ نظام مضبوط ہو گا تو میڈیا کو اچھا کاروبار اور منافع ملے گا۔ اِسے عوامی ہمدردی اور خیر خواہی سے خلط ملط کرنا نِری سادگی ہے۔ ذرایع ابلاغ کی آزادی کا مطلب سرمائے کی آزادی ہے۔ آزادی میں اضافے کا مطلب سرمائے میں اضافہ ہے۔ فرد کی آزادی میں اضافے کا مطلب بھی اس کی ارتکاز سرمایہ کی صلاحیت میں اضافہ ہے۔
جمہوریت لوگوں میں اقتدار اور اختیار کی ایسی ہوس پیدا کر دیتی ہے کہ ایک د وسرے کے دشمن بھی حکومت میں شامل ہو کر شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ مثلاً پرویز مشرف کی سو فی صد امریکا نواز حکومت میں متحدہ مجلس عمل شامل تھی۔ جو طالبان کی حامی اور امریکا کی مخالف تھی۔ لیکن وہ ایک ایسی حکومت کے ساتھ رہی جو اس سے بنیادی نظریاتی اختلاف رکھتی تھی۔ یہ جمہوریت کا ظرف ہے جو سب کو ''اعلیٰ ظرف'' بنا دیتی ہے۔ زرداری اور شریف برادران کی باریاں اور جمہوریت نوازیاں بھی سب ہی کے سامنے ہیں۔ مولانا فضل الرحمٰن امریکا کے خلاف اور طالبان کے حامی ہیں۔ لیکن طالبان دشمن، امریکا نواز حکومت کے دست و بازو ہیں۔ خلاف بھی ہیں اور ساتھ بھی ہیں۔ یہ جمہوریت کا حسن اور کمال ہے کہ وہ متنوع، مخالف یہاں تک کہ متضاد نظریات کے حاملین کو بھی فراخ دلی کے ساتھ اپنے ''دامن رحمت'' میں پناہ دیتی ہے۔
کیوں، ایسا کیوں ہے؟ وجہ یہ ہے کہ جمہوریت میں خیر و شر کچھ نہیںہوتا۔ جو گروہ جمہوریت کو بالا تر مذہب مان کر جمہوری عمل میں شریک ہو جائے، خواہ اس کے نظریات ا جماعتی یا انفرادی طور پر کیسے ہی کیوں نہ ہوں، جمہوریت میں آتے ہی تمام نظریات خود بخود تحلیل ہو جاتے ہیں۔ اس کے نظریے، دین، اصول، ایمان، عقیدے کا ڈنک جمہوریت نکال دیتی ہے۔ اقتدار کی غلام گردش میں گردش اتنی خوبصورت ہوتی ہے کہ بنیادی اختلافات پس پشت چلے جاتے ہیں۔ نظریے پر قومیت، سیاست، حکمت عملی، زمینی حقائق، کم تر برائی، وجود کا تحفظ، ان حالات میں یہ ہی ہو سکتا ہے، جیسے سابقے لاحقے استعمال ہونے لگتے ہیں۔ اسی لیے جمہوریت مذہبی تحریکوں کو بھی سیکولر سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بہ خوشی بناتی ہے کہ اس کا حصہ بننے کے بعد ان کی مذہبیت یا تو ختم ہو جاتی ہے یا ''لبرل'' ہو جاتی ہے۔
جمہوریت اصل مذہب، اصل طاقت، اصل علم بن جاتا ہے۔ آپ دیکھیں کہ مغرب ہر جگہ کوشش کرتا ہے کہ ہر نظریاتی یا انقلابی گروہ کو سیاسی عمل میں شریک کر لے۔ اسی اصول کے تحت حماس کو سیاسی عمل میں شریک کیا گیا تھا۔ حالانکہ وہ عسکری تنظیم تھی۔ اسی اصول کے تحت حزب اللہ کو لبنان کے سیاسی عمل اور اسمبلی میں شریک کیا گیا۔ اسی اصول کے تحت اب وہ طالبان سے مذاکرات چاہتے ہیں۔
وغیرہ ۔ صدر بش نے افغانستان پر حملے سے پہلے جو تاریخی تقریر کی تھی اس میں کہا تھا کہ ''ہم ایک تاریک غار میں بھی جمہوریت کی شمع جلائیں گے۔'' کیوں کہ جمہوریت ایک ایسی شمع ہے جس پرہر پروانہ گر گر کر آتا ہے۔ خواہ اس کا نظریاتی پس منظر کچھ بھی ہو۔ یہاں تک کہ اس شمع کی خاطر وہ اپنے وجود کو ختم کر دیتے ہیں۔ جمہوریت وہ طوطا ہے جس میں ہر تحریک و تنظیم کی جان پوشیدہ ہے اسی لیے شاعر نے کہا تھا ؎
مگس کو باغ میں جانے نہ دیجو
کہ ناحق خون پروانے کا ہو گا