پولیس کی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں

شہریوں پر پولیس تشدد کسی بھی مہذب معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا تھا۔


Muhammad Saeed Arain January 20, 2015

MULTAN: کراچی میں پولیس اہلکاروں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتیں تشویش ناک صورت حال اختیار کرتی جا رہی ہیں اور عوام کی جان و مال کی حفاظت کے ذمے دار ایک بار پھر غیر محفوظ ہو چکے ہیں سیکیورٹی کے نام پر تھانوں اور اعلیٰ پولیس افسران کے دفاتر تک جانا ضرورت مندوں کے لیے انتہائی مشکل بلکہ ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

پیپلزپارٹی کے 1995ء کے دور حکومت میں آپریشن کے دوران پولیس کے کردار کو 20 سال ہو جانے کے بعد بھی عوام اب تک نہیں بھولے جب اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ نصیر اﷲ بابر نے کراچی پولیس کا سربراہ ڈی آئی جی شعیب سڈل کو بنا کر کراچی پولیس کو جرائم پیشہ عناصر کے نام پر مارنے اور مال بنانے کا مکمل فری ہینڈ دیا تھا جس کے نتیجے میں بعض پولیس افسران کو اپنی حمایت حاصل تھی اور شہریوں کے لیے پولیس دہشت کی علامت بن گئی تھی اور ماورائے عدالت قتل کا ریکارڈ قائم ہوا تھا۔

1995ء میں پولیس اسٹیٹ بنے ہوئے شہر کراچی میں 199 پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں وفاقی وزیر داخلہ کے لیے لمحہ فکریہ بن گئی تھیں جو رکنے میں نہیں آ رہی تھیں۔ پولیس اہلکار وردی پہن کر تنہا نہیں نکلتے تھے۔ تھانوں کے دروازے بند رکھے جاتے تھے، نوجوانوں کا جینا حرام کر دیا گیا تھا جو شہریوں کے سامنے بے گناہ پکڑے جاتے تھے اور رشوت نہ ملنے پر جعلی مقابلوں میں مار دیے جاتے تھے اور جعلی مقابلوں پر پولیس افسروں کو ترقیاں دے کر پولیس گردی کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھیں۔

بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کی برطرفی کی وجوہات میں صدر فاروق لغاری نے ایک اہم وجہ ماورائے عدالت قتل کو بھی شامل کیا تھا۔ جرائم پیشہ عناصر کے خاتمے کے نام پر پولیس آپریشن خود پولیس کے لیے نہ صرف خطرناک ثابت ہوا تھا بلکہ 1996ء میں خود وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے حقیقی بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کلفٹن جیسے علاقے میں شاہراہ پر سرعام پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے اور اس وقت کے وزیراعلیٰ عبداﷲ شاہ کے بھائی بھی گلبرگ میں قتل ہوئے تھے اور خود الطاف حسین کے بھائی اور بھتیجے بھی اس کے بعد قتل کر دیے گئے تھے جس کا الزام حکومت وقت اور پولیس پر عائد کیا گیا تھا۔

ڈی آئی جی شعیب سڈل نے اپنے پسندیدہ پولیس افسران کو کراچی کا مالک بنا تو رکھا تھا جو خود سخت سیکیورٹی میں گھر سے نکلتے تھے جب کہ ڈیوٹی دیکر گھر واپس جانے اور ڈیوٹی پر تنہا آنے والے اہلکار خوف زدہ اور غیر محفوظ تھے اور آپریشن کی سفاکیت کا نشانہ بن رہے تھے اور پولیس خود اپنے پیٹی بھائیوں کے تحفظ میں ناکام ہو چکی تھی اور مرنے سے ڈرتی تھی۔

اس وقت پولیس کو لاقانونیت کی مکمل آزادی تھی شہریوں کی ہر جگہ شنوائی ناممکن بنا دی گئی تھی اور پولیس افسران کا کام صرف جعلی مقابلے دکھا کر مال بنانا اور ترقی حاصل کرنا رہ گیا تھا جس کا بعد میں وہ خود بھی نشانہ بنے اور حکومت ختم ہونے کے بعد وہ مساجد تک میں بھی محفوظ نہیں رہے اور کراچی آپریشن کے تمام اہم کردار بعد کے دنوں میں چن چن کر قتل کیے جاتے رہے۔

شہریوں پر پولیس تشدد کسی بھی مہذب معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ پولیس بھی اسی معاشرے کا حصہ ہے اور اس کے اہلکار پولیس کالونیوں ہی میں نہیں بلکہ شہر میں ہر جگہ رہتے ہیں پولیس کا تربیتی نظام ہی ایسا ہے جہاں وہ رشوت نہ دینے پر انتقام اور تشدد کا نشانہ بنائے جاتے ہیں اور نام نہاد تربیت کی تکمیل کے بعد جب انھیں پوسٹنگ ملتی ہے اور انھیں سیاست میں ملوث کر دیا جا تا ہے حکمران انھیں ذاتی مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں تو وہ عوام سے دور ہو جاتے ہیں اور خود کو منفرد سمجھ کر عوام سے غلاموں جیسا سلوک کر کے عوام کے خادم کی بجائے خود کو عوام کا حاکم سمجھ لیتے ہیں۔

پولیس کو بگاڑنے کے ذمے دار ہمارے تمام حکمران ہیں وہ سیاسی ہوں یا مذہبی سب نے پولیس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جس کے نتیجے میں پولیس اور عوام کے درمیان خلیج حائل ہوئی جو نام نہاد پولیس آپریشنوں میں بڑھی اور عوام کی پولیس سے نفرت اور پولیس کی عوام سے لا تعلقی بڑھتے بڑھتے اس مقام پر آ چکی ہے کہ پولیس وردی لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ اور رشوت کا حصول اہلکاروں کا ایمان بن چکی ہے جس کے حصول کے خاطر وہ سب کچھ کر گزرتے ہیں جس کا کوئی جنگلی معاشرہ بھی اجازت نہیں دیتا۔

1997ء کے انتخابات کے بعد میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں کراچی کی صورت حال کو سنجیدگی سے لیا گیا تھا اور شہریوں پر پولیس کے ہاتھوں لگنے والے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے پولیس گردی ختم کرنے کی ایک کوشش کی گئی تھیں اور رانا مقبول احمد کو سندھ کا آئی جی پولیس بنا دیا گیا اور بعض پولیس افسروں کو اہم عہدوں سے ہٹا کر عوام کا غصہ کم اور اعتماد حاصل کرنے کی کوشش ہوئی، ماورائے عدالت قتل ختم کر کے ہر سیاسی کارکن کو جرائم پیشہ سمجھنے کی بجائے مجرم کو مجرم سمجھنے کی پالیسی اختیار کی گئی اور خوف زدہ کراچی پولیس کا مورال بلند کرنے کے اقدامات کیے گئے جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار تھانوں کے باہر سڑکوں پر نظر آنے لگے تھے۔

آج سندھ میں پیپلزپارٹی کی پھر حکومت ہے اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سوا سال سے ٹارگٹڈ آپریشن بھی جاری ہے جس میں پولیس کو پہلے کی طرح مکمل فری ہینڈ حاصل نہیں بلکہ خصوصی اختیارات دے کر رینجرز کو بھی آپریشن میں اہم کردار دیا گیا ہے۔ پولیس کے خلاف پہلی جیسی شکایات پھر عروج پر ہیں اور 1995ء جیسی صورت حال پھر کراچی پولیس کو درپیش ہے پولیس کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج جاری اور ہڑتال ہونے لگی ہے کراچی میں جاری آپریشن کے دوران پولیس اہلکاروں کی ہلاکتیں پھر بڑھ رہی ہیں۔

سیاسی طور پر متحدہ آپریشن سے مطمئن نہیں اور اس کی پی پی سے دوریاں بڑھ رہی ہیں مگر وفاقی حکومت سندھ حکومت کے آگے بے بس ہے کیوں کہ امن و امان کی بحالی اب صوبائی معاملہ ہے جب کہ سندھ بھر میں پولیس سے متعلق شکایات بڑھ رہی ہیں۔ خود محکمہ پولیس اور پولیس کے لیے بکتر بند گاڑیوں و دیگر سامان کی خریداری میں گھپلوں، تھانوں کی فروخت، میرٹ کی بجائے رشوت اور سیاسی سفارشوں پر تقرر و تبادلوں پر خود پولیس افسروں میں تشویش پھیلی ہوئی ہے مگر کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق زیر تربیت پولیس اہلکار بھی جرائم میں ملوث ہیں اور نصف درجن سے زائد اہلکار گرفتار کیے گئے ہیں۔

ایک وفاقی ادارے کی جانب سے 498 واقعات کی بمع ثبوت نشان دہی کی جا چکی ہے جس کے مطابق پولیس کے مختلف شعبوں میں تعینات پولیس افسران اور اہلکار بھتوں، اغوا برائے تاوان، منشیات فروشی، اسٹوں، پٹرول پمپس اور سرکاری زمینوں پر قبضوں، غیر قانونی پٹرول کی فروخت کے علاوہ قتل و ڈکیتیوں اور سنگین جرائم تک میں ملوث ہیں۔

عوام کی حفاظت پر مامور پولیس اپنے فرائض منصبی کو چھوڑ کر سیاسی سرپرستی میں وردی کا خود غلط استعمال کر رہی ہو تو اس کا احترام کون کرے گا اور ایسے پولیس افسران و اہلکاروں اور مجرموں میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا اور یہی وجہ ہے کہ کراچی میں پولیس اہلکاروں کی ٹارگٹ کلنگ مسلسل بڑھ رہی ہے جو حکومتی توجہ سے بھی محروم ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں