پٹرول کا بحران یا کوئی سازش

آج کے زمانے میں جس ملک میں بجلی گیس اور پٹرول وغیرہ نہ ہوں وہ ملک کیسے چل سکتا ہے۔

Abdulqhasan@hotmail.com

چلیے آخری کیل بھی ٹھونک دی گئی اور یہ ٹھونکی بھی اپنوں نے غیروں نے نہیں۔ اس وقت ہر محکمہ دوسرے سے لڑ رہا ہے اور اندازہ ہوتا ہے کہ ہمہ خانہ آفتاب والا منظر ہے اور پٹرول سے متعلق جتنے بھی محکمے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی حد تک پٹرول کے اس ہولناک بحران کا سبب ہیں۔

ان سب محکموں کے وزراء میں ایک آدھ شرمندہ بھی ہو رہا ہے لیکن دوسرے سب بے گناہ ہیں کیونکہ اس بحران عظیم کا باعث کوئی دوسرا ہے وہ نہیں ہیں ان سب وزیروں کے سردار جناب محترم وزیراعظم ان سب پر بے حد برہم ہیں اور سب کو دھمکی دے رہے ہیں کہ وہ سزا کے لیے تیار ہو جائیں۔ اب یہ فیصلہ کوئی سپریم کورٹ ہی کر سکتا ہے کہ سزا کے لیے کون تیار ہو اور سب سے بڑی ذمے داری کس کی ہے۔ یوں تو ہر کوئی بڑے سے بڑا عہدہ ملنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے لیکن جب کوئی گڑ بڑ ہوتی ہے تو وہ بے گناہ بن کر ایک طرف ہو جاتا ہے یا کسی غیر ملکی دورے پر نکل کھڑا ہوتا ہے۔

ہمارے دفتر خارجہ میں ایک افسر اور اس کا عملہ ہر وقت اس ٹوہ میں رہتا ہے کہ کس ملک سے دورے کی دعوت حاصل کی جا سکتی ہے یا کون سا ملک اس وقت دورے کو قبول کرنے پر تیار ہے تا کہ اس کی تیاری کی جائے اور عوام کے پیسے پر کروڑوں خرچ کر کے یہ دورہ کیا جائے جس کے کرنے نہ کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ بعض دورے کسی خاص موقع پر کسی خاص نوعیت کے ہوتے ہیں۔ مثلاً بھارت کے ساتھ ایک جنگ سے پہلے چینیوں نے کہا کہ ہم مدد کے لیے تیار مگر ایک بار ایوب خان کا چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس پر کیا لکھا ہے۔

ائیرمارشل اصغر خان اس مہم کے انچارج تھے جو ایک بہت بڑے ہوائی جہاز میں اکیلے بیٹھ کر چین گئے تھے اور راستے پر اپنی اس تنہائی پر الجھن میں مبتلا رہے تھے۔ ایوب خان راتوں رات چپکے سے چین چلے گئے اس حال میں کہ ان کے لیے بستر بچھا دیا گیا رات کی ضروریات بھی رکھ دی گئیں تا کہ کسی ملازم کو بھی ان کی غیر حاضری کا شبہ نہ ہو سکے۔ چینیوں نے ایوب خان کو بغور دیکھا چینیوں کی ہزاروں برس کی دانش ان کی مدد کو موجود تھی چنانچہ انھوں نے اطمینان کر کے بھارت سے کہا کہ ہماری بھیڑیں کہاں ہیں جو نہیں مل رہیں۔ بھارت اس بات کو سمجھ گیا اور اپنی اوقات میں آ گیا مگر آج نہ ایوب خان ہے نہ چو این لائی ہے بس یونہی سیر سپاٹے ہیں۔ میزبان ملک بھی جانتے ہیں کہ یہ دورہ کیا ہے۔

بجلی گیس اور اب پٹرول کی قلت بلکہ نایابی نے ذہن اس قدر پریشان اور برہم کر دیا ہے کہ بات شروع کچھ ہوتی ہے اور راستے میں ہی بھٹک جاتی ہے۔ ذکر پٹرول کا تھا جو ہماری حکومت کی تازہ دین ہے اور ایسی ہے کہ قوم کی چیخیں نکلوا دی ہیں زندگی کی گاڑی پٹرول پر چلتی ہے اور یہ پٹرول ہی قوم کی نقل و حرکت کا ذریعہ ہے۔


بچے اسکول جاتے ہیں تو پٹرول کی مدد سے صحیح و سلامت واپس گھر آتے ہیں تو پٹرول کی مدد سے بالآخر دفتر دکان کہیں بھی آنا جانا ہو تو پٹرول ہی وہاں لے جاتا ہے چنانچہ ایسی ضروری ناگزیر اور ہر قیمت پر حاصل کی جانے والی چیز کا جب ہمارے کاروباری حکمرانوں کو خیال آیا کہ یہ کیوں آزادانہ ہماری مرضی اور نفع نقصان کے بغیر گھومتی پھرتی ہے تو انھوں نے اس کو بھی اپنے شکنجے میں کس لیا لیکن کچھ زیادہ ہی کس لیا کہ یہ ایک حکومتی بحران بن گئی۔

متعلقہ اہلکار جن کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا سخت بے احتیاط ثابت ہوئے اور اب کوئی معافی مانگتا ہے تو کوئی سزا کے لیے تیار ہونے کا اعلان کرتا ہے اور کوئی ان سب کو سخت شکنجہ چڑھانے کی بات کرتا ہے۔ بے چارے عوام بیوی بچوں سمیت پٹرول پمپوں پر بوتلیں اور ڈبے ہاتھ میں لیے بھیک منگوں اور فقیروں کی طرح کھڑے ہیں۔ گزشتہ رات کو میرا پیارا نواسہ اپنے ڈرائیور کے ساتھ ایک پٹرول پمپ پر قطار میں لگ گیا کوئی سوا دو گھنٹے بعد باری آئی اور پٹرول ملا۔ مجبوری یہ تھی کہ صبح کو اس کے ڈاکٹر باپ نے اسپتال پہنچ کر آپریشن کرنے تھے۔ آپ ٹانگوں اور گدھا گاڑیوں پر براتیں تو دیکھ چکے ہیں ان پیدل چلنے والوں کو کس نے دیکھا جو روٹی روزی کے لیے اپنی مزدوری کے مقام پر کسی بس وغیرہ سے نہیں پیدل چلے جا رہے تھے نہ جاتے تو دہاڑی کاٹ لی جاتی۔

آج کے زمانے میں جس ملک میں بجلی گیس اور پٹرول وغیرہ نہ ہوں وہ ملک کیسے چل سکتا ہے اس صورت حال کو کسی کی سازش کہہ دینے سے تو کام نہیں چل سکتا۔ آپ کے دفتروں میں سازش ہوتی رہی اور آپ کو اس کا پتہ نہ چلا اس سے بڑی نا اہلی اور کیا ہو سکتی ہے اسی صورتحال سے پریشان ہو کر سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ اب یہ ملک رہنے کے قابل نہیں رہا جو اس ملک میں رہتے ہیں وہ سب جانتے ہیں کہ وہ یہاں کس مشکل کے ساتھ زندگی بسر کر رہے ہیں۔

اس لیے تو نوجوان اندھا دھند ملک سے بھاگنے میں پکڑے جاتے ہیں اور کسی غیر ملک کی قید میں ڈال دیے جاتے ہیں مگر اس ساری صورت حال سے اگر کوئی بے خبر یا لاتعلق ہے تو وہ حکمران لوگ ہیں جب کہ یہی ان کا پہلا فرض ہے کہ عوام کی زندگی کو ختم نہ ہونے دیں۔ ان کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ درست کہ حکمرانوں کی بھاری اکثریت ملک سے باہر بھی عیش و آرام میں زندگی بسر کر سکتی ہے لیکن جن لوگوں نے ان کو ان کی زبردست خواہش پر حکمران بنایا ہے ان کا بھی ملک پر کچھ حق ہے یا نہیں ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو یہیں رہنے پر مجبور ہیں اور کہیں جا نہیں سکتے بلکہ وہ تو اس ملک کو اپنا آخری وطن سمجھتے ہیں اور اس دور میں بھی بجلی گیس اور اب پٹرول کے بغیر اسی ملک میں ہیں لیکن ہماری اس حکومت نے اپنی ناقص پالیسیوں اور کم عقلی کی وجہ سے ملک کو ناقابل رہائش بنا دیا ہے اور سپریم کورٹ جیسے معزز اور معقول ادارے کو بھی کہنا پڑتا ہے کہ یہ ملک اب رہنے کے قابل نہیں رہا۔ ہمارے حکمران اس قدر خوفزدہ اور ہراساں ہیں کہ ذرا ذرا سی بات کو بھی اپنے خلاف کوئی سازش سمجھ لیتے ہیں اور پٹرول کے بحران کا ایک ہی جواب دیتے ہیں کہ یہ ان کے خلاف کوئی سازش ہے۔
Load Next Story