پاکستان لیڈروں کی کارکردگی اور حالیہ بحران

تعجب ہے عقائد پر حملہ انسانی حقوق پر حملہ نہیں جس سے متعلقہ عقائد رکھنے والوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔


Anis Baqar January 20, 2015
[email protected]

برصغیر پاک و ہند کو ایک ساتھ ہی آزادی نصیب ہوئی، آزادی کے موقعے پر لاکھوں بے گناہوں کا قتل عام ہوا، ہندو مسلم دست وگریباں ہوئے مگر ایک بھی سفید فام زخمی نہ ہوا۔ یہ تو تھی حکمت عملی انگریز کی ۔ جنگ آزادی مذہبی جنگ بن گئی۔ ہندو مسلم سکھ سب اس جنگ میں شامل ہوگئے، تینوں مذاہب کے لیڈر صبر و تحمل رواداری کا درس دیتے رہے مگر رواداری تو رخصت ہوچکی تھی۔

ہندو سکھ ایک جانب جب کہ مسلمان دوسری جانب۔ دراصل یہ تصادم تقسیم کا منطقی نتیجہ تھا کیونکہ اس موقعے پر مذہبی انتہا پسندوں نے لیڈرشپ اپنے ہاتھ میں لے رکھی تھی اور جنگ آزادی ہند کے قائدین خود اپنے دام میں اسیر ہوچکے تھے ۔گاندھی جی جو ہندو مسلم فساد کے سخت مخالف تھے ایک ہندو انتہا پسند کے ہاتھوں قتل کردیے گئے۔ وہ تو کہیے کہ جب مہاتما گاندھی پر گولی چلی تھی تو پورے بھارت کے مسلمانوں پہ سکتہ طاری تھا کہ کہیں ان پہ گولی کسی مسلمان نے نہ چلائی ہو، وہ تو کہیے کہ آل انڈیا ریڈیو نے آدھے گھنٹے سے قبل ہی گولی چلانے والے کا نام دے دیا کہ وہ ہندو مہاسبھائی تھا ورنہ قتل و غارت گری میں مزید اضافہ ہوتا۔

آگ اور خون کی یہ ہولی اتنی خطرناک تھی کہ 68 سال بعد بھی یہ خلیج پر نہ ہوئی اور دونوں طرف کے انتہا پسند آج تک اپنی لیڈری ان ہی بنیادوں پر چمکا رہے ہیں بلکہ بھارت میں یہ لیڈری زیادہ عروج پر ہے کہ نریندر مودی بھارت کی حکومت پر براجمان ہیں اور جنگ آزادی لڑنے والے یہ جنگ محض اس لیے ہار گئے کہ وہ خاندانی جمہوریت کے ذریعے حکومت چلانا چاہتے تھے ۔

فرق صاف ظاہر ہے کہ نریندر مودی نے نہرو کی پارٹی کو شکست دے دی کیونکہ ہندو مسلم لیڈروں کی للکار دونوں طرف کی مذہبی پارٹیوں کی طاقت کا سرچشمہ ہیں۔ بڑی عجیب بات ہے کہ پاکستان بنانے والی پارٹی مسلم لیگ کوئی مذہبی پارٹی نہ تھی بلکہ قائد اعظم کی کسی تقریر میں ہندو مت کے خلاف کوئی عنصر نہ تھا اور نہ ہی محترمہ فاطمہ جناح کی 1964 میں ایوب خان کے خلاف انتخابی مہم میں کوئی تقریر بھی مذہبی ۔

وہ بھارت جس پر ہزار سال مسلمانوں کی حکومت رہی ہو اور آج وہاں ایک تنگ نظر انتہا پسند ہندو کی حکومت ہے جس میں گجرات میں مسلم کش فسادات کے بعد امریکی عدالت میں نریندر مودی پر مقدمہ قائم کیا گیا تھا مگر حال ہی میں ان کے وزیر اعظم بننے کے بعد وہ مقدمہ خارج کردیا گیا۔ اس سے امریکی اور مغربی ممالک کی انسانی حقوق کی حقیقت پسندی نمایاں ہوتی ہے کہ انسانی حقوق کی سوئی اقتدار کے ساتھ گھومتی ہے۔

گویا اگر اقتدار آپ کے ساتھ ہے یا پاس ہے تو آپ جرم سے ازخود مبرا ہوگئے۔ مغربی دنیا کی آزادی رائے اور آزادی خیال کو کیا کہیے کہ فرانس کے بعض اخبارات تسلسل سے گستاخی کر رہے ہیں اور یہی حال بعض اسیکنڈینوین ممالک کا بھی ہے۔ تعجب ہے عقائد پر حملہ انسانی حقوق پر حملہ نہیں جس سے متعلقہ عقائد رکھنے والوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ جن اخبارات کی فروخت مغربی ممالک میں کم تھی انھوں نے گستاخی رسول اور مذہبی گستاخی کو اپنا کاروباری حربہ بنالیا ہے اور آزاد خیال حکومتیں ان کو دانستہ نظرانداز کر رہی ہیں۔

غرض ہمارے نبی کی عظمت پر کیا اثر پڑنے کو ہے ان لوگوں کی حکمت عملی سے کیونکہ اسلام کی تبلیغ کے دور میں نبی نے کوڑا پھینکنے والی کو نظرانداز کیا اور فتح مکہ کے بعد معاف کیا، اس بلند پایہ نبی پر کیا حرف زنی سے مرتبہ کم ہوگا، ہرگز نہیں۔ انصاف کے ترازو میں جو باٹ بھی مغرب نے رکھے ہیں سب کے سب کھوٹے ہیں۔ اپنے یہاں کا انصاف دیکھیں پھانسی نہیں دی جاتی مگر جن لوگوں نے فرانس میں اخبار کے دفتر میں گولیاں چلائیں ان کو ہلاک کردیا گیا، بجائے وہ زندہ پکڑ کے مقدمہ چلاتے اور عمر قید رکھتے مگر ہلاک کردیا گویا مگر پھانسی نہیں دی جاتی ۔

کیا کسی فرد کو بندوق سے ہلاک کردینا ایک قسم کی پھانسی نہیں تو اور کیا ہے؟ لہٰذا مغربی ممالک نے اگر پاکستان کے مقابلے میں درجہ بھارت کو دیا تو پریشانی کی کیا بات ہے کیا یہ بات اس سے کہیں بڑھ کر نہیں کہ پاکستانی حکومت ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں مغربی ممالک کے مفادات اور امریکی مفادات کے لیے کام کر رہی تھی۔

پوری دنیا کے مسلم حکمرانوں نے مغرب کے ساتھ مل کر روس کے خلاف محاذ آرائی میں حصہ لیا جب کہ روس نے نہ کبھی اسلام کے خلاف یا ہمارے نبی اکرمؐ کے خلاف یا دین کے خلاف کوئی مہم چلائی مگر کبھی مسلم ممالک سوجھ بوجھ سے کام نہیں لیتے اور اپنے دشمن ممالک کے معاشی اہداف پر حملہ نہیں کرتے اگر مسلم ممالک معاشی اہداف پر حملہ یعنی بائیکاٹ کی شکل میں کریں تو یقینا یہ اسلام دشمن قوتیں خود پسپا ہوجائیں مگر وہ تو مسلم ممالک میں بدامنی پیدا کرتے ہیں اور معاشی طور پر ان خاکوں سے مسلم ممالک کی معیشت میں بدامنی پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی کوئی معاشی ہدایات سیاسی رہنماؤں کی طرف سے دی جاتی ہیں اور نہ حکمراں کسی قابل ہیں ماسوائے کہ وہ مال بنائیں اور ملک کا پیسہ لوٹ لیں اس لوٹ کھسوٹ میں مصروف رہتے ہیں۔

اب جب کہ پٹرول گزشتہ سات برسوں میں کم ترین سطح پر آگیا ہے اس لیے پاکستان میں کھلبلی مچ گئی ہے کہ اب کس طرح پاکستان کے عوام کو لوٹا جائے اس کے لیے مسلسل نت نئے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔

اب تک تو معاشی اصولوں میں تیزی کے موقعے پر ہی مال کمایا جاتا تھا مگر شاباش کہ مندی میں کمایا جائے یہ ایک ریکارڈ طریقہ کار ہوگا کہ پٹرول میں منافع کمایا جائے اس سے اب یہ اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں کاروباری اصولوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اور اپنے ہی ملک کے لوگوں کو لوٹنے کے زریں اصول وضع کر لیے گئے ہیں اور حکومت اب تک یہ تلاش کر رہی ہے کہ پٹرول کیوں غائب ہوگیا۔ پاکستان میں ایک روایت ہے کہ یہ بھارت کی سازش ہوگی اور یہی حال بھارت کا ہے کہ وہ بھی اپنے ملک کی بدنظمی کو پاکستان پر ڈال کر جان بچا لیتے ہیں اور پاکستانی حکمران بھارت پر ڈال کر پرسکون ہوجاتے ہیں ۔

اوباومہ سے دلی کے حکمرانوں کی دلچسپی کوئی نئی نہیں، یہ تو صدر ایزن ہاور اور اس سے پہلے سے جاری ہے کیونکہ اس کا سہرا پنڈت جواہر لعل نہرو کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کیونکہ بھارت نے خود کو نہ معاہدہ وارسا کا ہمنوا بنایا۔ بھارت کی غیر جانبدارانہ پالیسی نے اس کو دونوں بلاکوں سے مراعات لینے والا ملک بنائے رکھا گوکہ عملی طور پر پنڈت جواہر لعل نہرو مائل بہ سوویت یونین تھے۔

ابتدائی طور پر آزاد خارجہ پالیسی کے نعرے نے بھارت کو زبردست فائدہ پہنچایا یہ نہ نریندر مودی کا بنایا ہوا کلیہ ہے اور نہ بھارت کے انتہا پسندوں کا فکری محاذ بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان کی سویلین حکومت بھی کوئی ترقی پسند حکومت نہ تھی۔ نہرسوئز کے معاملے پر پاکستان کی 1950 کی دہائی کی پالیسی بالکل ناکام رہی کیونکہ معاہدہ وارسا نے ناٹو کو شکست دی تھی اور جمال عبدالناصر کی قوم پرست حکومت نے نہرسوئز پر مصر کی عمل داری بحال کرالی تھی اگر تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کی جمہوری حکومت ہمیشہ ناقص کارکردگی میں نمایاں رہی ہے۔

ایک سویلین حکومت میں ملک دولخت ہوا یا سویلین حکمرانوں نے فوجی حکمرانوں کی تائید کی البتہ ضیا الحق کی حکومت نے سیاسی طور پر ملک کو دیوالیہ کردیا اور عالمی بحران کا حصہ بنادیا مگر معاشی طور پر نام نہاد جمہوری حکومتوں نے معاشی دیوالیہ پن کے قریب لاکھڑا کیا اور لاقانونیت کی بھینٹ چڑھا دیا ۔ البتہ ملک کوناکام ریاست کے درجہ تک پہنچادیا اگر جنرل راحیل شریف نے بروقت اقدام نہ اٹھائے ہوتے تو ملک کا وجود بھی شاید برقرار نہ رہتا۔

جمہوری حکومت اس وقت کن کاموں میں مصروف ہے اس کا پتا چلانا آسان نہیں۔ الطاف حسین جس مارشل لا کی طرف توجہ دلا رہے ہیں ملک اسی راہ کی جانب گامزن ہے ۔آج ملک عالمی طور پر جس تنہائی کا شکار ہے یہ فوجی حکمرانوں کا تحفہ نہیں بلکہ نام نہاد جمہوری حکمرانوں کا عطیہ ہے لہٰذا آیندہ آنے والے دن مزید بحرانوں میں اضافے کا سبب بنے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں