مہارت

ضمانت قبل از گرفتاری کی ضرورت بعض اوقات ان کو پیش آ جاتی ہے جو دفتری کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔


[email protected]

ISLAMABAD: لطیفہ ہے کہ چند عشروں کے بعد جب کوئی مریض ڈاکٹر کو اپنا کان دکھانے جائے گا تو کیا ہو گا؟ ماہر یا اسپیشلسٹ پوچھے گا کہ آپ کے کون سے والے کان میں تکلیف ہے تو مریض جواب دے گا کہ دائیں کان میں۔ ڈاکٹر صاحب کہیں گے کہ معاف کیجیے گا میں بائیں کان کا ماہر ہوں۔ آج یہ ایک مزاحیہ بات ہے لیکن سمجھ آتی ہے کہ آہستہ آہستہ مہارت کا دور آتا جا رہا ہے۔

وکالت کے ابتدائی دنوں میں ہر قسم کے مقدمات آئے۔ آہستہ آہستہ سول مقدمات بڑھتے گئے اور کریمنل مقدمہ ایک ہی رہ گیا۔ وہ ڈکیتی کا معاملہ تھا جس میں دو لڑکوں نے گھر میں جا کر اہل خانہ کو ڈرا کر کچھ رقم نکلوائی اور پکڑے گئے۔

ایک دوست کے دوست کے جاننے والے کی دکان تھی جہاں یہ ملزم آیا کرتا تھا۔ یوں یہ مقدمہ ہم تک پہنچا۔ یہ پچھلی صدی کا آخری زمانہ تھا اور ہمیں ایک گھر سے شفٹ ہو کر دوسرے میں آئے بمشکل ایک ڈیڑھ مہینہ ہوا تھا، قریبی رشتے داروں کو بھی ہمارے گھر کا پتہ معلوم نہیں تھا۔ نہ جانے کیسے وہ ملزم ہمارے گھر پہنچ گیا۔ یہ خطرے والی بات تھی۔ دوست کے دوست کا جاننے والا موکل اس قدر تیز، اسے عدالت بلا کر گزارش کی کہ آپ اپنی فائل اور ادا کی ہوئی فیس لے لیں اور کسی اور کو وکیل کریں۔ اس نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ آپ کا واحد مقدمہ ہے جو فوجداری نوعیت کا ہے۔ موکل نے بھی کچھ نہ کہا یوں آپ کا یہ بھائی سول مقدمے کا وکیل قرار پایا لیکن اس میں چند ایک مشکل مقامات بھی آئے ہیں۔ آج کا کالم ہماری وکالت کی رام کہانی نہیں بلکہ ہم 21 ویں آئینی ترمیم پر گفتگو کریں گے۔

''پسند کی شادی'' والے مقدمات ان صفحات پر لکھے گئے تھے اور ہماری کتاب میں بھی یہ تین معاملات شامل ہیں۔ لڑکا، لڑکی شادی کر کے ہمارے پاس آئے اور کہا کہ گھر والے رخصتی نہیں کر رہے۔ اس طرح ایک مقدمے میں ساس نے بہو کو گھر سے نکال کر پوتے کو اپنے پاس رکھ لیا۔ تیسرے مقدمے میں باپ اپنی بیٹی کے ساتھ آیا جس نے اپنی مرضی سے شادی کی اور لڑکے نے حبس بے جا یعنی کسی کو ناجائز حراست میں رکھنے کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ یوں یہ مقدمات ہائی کورٹ میں دائر ہوئے۔ ''عدلیہ تاریخ کے کٹہرے میں'' 2004ء میں شایع ہوئی۔ اب تو سیشن عدالتوں کو بھی کریمنل پروسیجر کوڈ کے تحت ایسے مقدمات کو سننے کا اختیار مل گیا ہے۔

کالم کی ابتدا میں کہا گیا کہ ہم نے ڈکیتی کا مقدمہ واپس کر دیا کہ وہ اکلوتا تھا۔ یوں بات میں تضاد نظر آ رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے مقدمات جو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 491 کے تحت دائر ہوں ان کی نوعیت سول مقدمات کی سی لگتی ہے۔ جب ہائی کورٹ میں رٹ کی شکل میں دائر کی جائیں تو نوعیت مزید سویلین ہو جاتی ہے یوں طویل عرصے تک دیوانی مقدمات نے دیوانہ بنائے رکھا۔ یقین جانیے آج ہم فوجی عدالتیں تشکیل پانے کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں۔ مہارت کو یوں سمجھ لیں کہ امریکی فوج کے صحراؤں، میدانوں، پہاڑوں اور جنگلات میں لڑنے والے شعبے الگ الگ ہیں۔

ضمانت قبل از گرفتاری کی ضرورت بعض اوقات ان کو پیش آ جاتی ہے جو دفتری کاروباری لوگ ہوتے ہیں۔ وہ عادی مجرم نہیں ہوتے۔ دو دلچسپ مقدمات سے پہلے جان لیجیے کہ ایسے لوگوں کا مقدمہ لینے سے انکار کیا جائے تو بات ان موکلین کی سمجھ میں نہیں آتی۔ یوں سمجھیں کہ کوئی جاننے والا پوچھے کہ آپ انکم ٹیکس کے معاملات دیکھتے ہیں۔ ہم انکار دائیں اور بائیں کان والے لطیفے کی شکل میں کرتے ہیں جو کالم کی ابتدا میں درج ہے۔

پھر کچھ عرصے کے بعد وہ کہتے ہیں کہ فیکٹری میں کوئی مسئلہ ہے۔ وہ پوچھتے ہیں کہ آپ لیبر کے مقدمات لیتے ہیں تو انھیں انکار کر دیا جاتا ہے۔ وہی صاحب سال چھ مہینے بعد کہتے ہیں کہ ضمانت قبل از گرفتاری کا معاملہ ہے۔ تفصیل پوچھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ بھائی اور بھابھی فرنیچر کی دکان پر گئے تو سیلز مین نے پیسے لے لیے لیکن جب ٹیبل کرسی اور الماری کی ڈلیوری مانگی تو انکار کر دیا۔ پیسے ادا کر دینے کی بات کی تو دکاندار نے کہا کہ جسے آپ نے رقم ادا کی ہے وہ ہمارا آدمی نہیں۔ وہ آپ کے ساتھ دکان میں داخل ہوا تو ہم سمجھے کہ وہ آپ کے ساتھ ہے۔ یوں بھائی نے جھگڑا شروع کر دیا تو پولیس آ گئی۔

انھوں نے دکاندار اور ہمارے بھائی کے خلاف ایف آئی آر درج کر دی ہے۔ وکیل صاحب ضمانت قبل از گرفتاری کروانی ہے۔ یہ وہ حضرت ہیں جنھیں انکم ٹیکس اور لیبر کے مقدمات میں معذرت کی جا چکی ہیں۔ اب انکار کیا گیا تو وہ کہیں گے کہ واقعی آپ وکالت کرتے ہیں یا کچھ اور؟ ایک ساتھی وکیل کو ہمراہ رکھا جو فوجداری مقدمات کرتا تھا یوں ضمانت قبل از گرفتاری ہوئی۔ بعد میں پتہ چلا کہ غلط فہمی کی بنیاد پر جھگڑا ہوا۔ کچھ ٹھگ قسم کے لوگ فیملی کو دیکھ کر ان کے ساتھ دکان میں داخل ہوتے ہیں۔ گاہک سمجھتا ہے کہ یہ دکاندار کا آدمی ہے اور دکاندار کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ یہ گاہک کے ساتھ آیا ہے۔

دوسری دلچسپ بات یعنی چند دنوں قبل ضمانت قبل از گرفتاری کی کر کے ہم فوجی عدالتوں اور آئینی ترمیم پر آتے ہیں۔ کراچی کی ہول سیل اناج منڈی کے بارے میں انتظامیہ کو محسوس ہوا کہ زیادہ قیمت لی جا رہی ہے۔ انھوں نے دکانداروں پر جرمانہ کیا تو احتجاج شروع ہو گیا۔ تاجروں نے روڈ بلاک کر دی اور نعرے لگائے، انتظامیہ نے ایف آئی آر تین تاجروں کے خلاف درج کی جو تنظیم کے عہدیدار تھے۔ انھوں نے رابطہ کیا کہ ان کے چند سول مقدمات ہماری فرم نے دیکھے تھے۔ انھیں انکار بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور فرنیچر والے جھگڑے میں ضمانت کروا کر اعتماد بھی آ گیا تھا۔ اصل بات اب آ رہی ہے کہ مہارت کیا ہوتی ہے؟

علم ایک سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ نصف صدی تک بھی ایک شعبے میں سر کھپانے والے اپنے آپ کو طفل مکتب سمجھتے ہیں۔ درجنوں مرتبہ ایک قانون پڑھنے اور سیکڑوں مقدمات سے سابقہ پیش آنے کے بعد ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جن پر کبھی ذہن نہیں گیا تھا۔ جب سول مقدمات کے شعبے میں غوطہ زنی کے باوجود یہ صورت ہو تو کرمنل کے شعبے میں کنارے سے نظارا کرنے اور صرف پاؤں گیلے کرنے سے کیا ہوتا ہے۔

تاجروں کی ضمانت ہو گئی اور اگلی تاریخ سے قبل انتظامیہ نے مقدمہ ختم کرنے کا اشارہ دیا۔ ہم ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں پیش ہوئے تو انھوں نے کہا! عزمی صاحب! آپ سول سے کریمنل میں کیسے آ گئے؟ گویا کرسی عدالت پر بیٹھے شخص نے ہلکے پھلکے انداز میں وہی بات کہہ لی کہ آپ دائیں کان کے ماہر ہیں تو بائیں کان کا علاج کیسے کر رہے ہیں؟

فوجی عدالتیں بنیں گی اور وہ دہشت گردوں کے خلاف مقدمات چلائیں گی۔ ملٹری کورٹس پاکستان میں چھٹی دفعہ بن رہی ہیں۔ ایوب، یحییٰ، ضیا اور مشرف کے مارشل لا کے علاوہ نواز شریف کے زمانے میں آئینی ترمیم کی چھتری تلے یہ کوشش کی گئی۔ جسٹس اجمل میاں جب چیف جسٹس تھے تو سپریم کورٹ نے اس ترمیم کو مسترد کر دیا تھا۔ اب پہلی مرتبہ کثیر عوامی حمایت اور بھرپور پارلیمانی تائید کے ساتھ فوجی عدالتیں قائم ہو رہی ہیں۔

اس میں مشکلات ہوں گی۔ پہلی یہ کہ آئینی ترمیم عدالت عظمیٰ میں چیلنج ہو گی کہ کیا یہ عدالتی اختیارات میں مداخلت ہے؟ یہ سوال سپریم کورٹ طے کرے گی کہ کیا پارلیمنٹ کو ترمیم کے لا محدود اختیارات حاصل ہیں۔ کیا منتخب ادارے پر چار پابندیاں عائد نہیں؟ پارلیمانی نظام اور وفاقیت سے چھیڑ چھاڑ کے علاوہ اسلامی دفعات میں کمی اور عدالتی اختیارات کو پارلیمنٹ گھٹا نہیں سکتی۔ دوسری بات یہ کہ فوجی عدالتوں کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا فورم کون سا ہو گا؟ تیسری بات وہی ہے جو ہمارے کالم کا عنوان ہے۔ لطیفے سے جج صاحب کے ریمارکس تک کیا ہر چیز ایک جانب نہیں بڑھ رہی جسے کہتے ہیں ''مہارت۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں