سب ڈوبیں گے
بجلی کے فوری حل کے لیے سابقہ حکومت کا فوری طور پر رینٹل پاور لینے کا منصوبہ ٹھیک تھا۔
KARACHI:
یہاں لوگوں کو کام سے زیادہ چہرے پسند ہوتے ہیں۔ سوچ سے زیادہ شکل کے زاویے دیکھے جاتے ہیں۔ خیال سے زیادہ مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے۔ اپنی ٹانگ اونچی رکھنے کے لیے دوسروں کے سروں کو کاٹ کر مینار بنایا جاتا ہے ۔ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لیے کسی کی عقل پر پردہ ڈالا جاتا ہے ۔
دوسروں کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں۔ کسی کے اچھے کام کو آگے بڑھانے کی بجائے اُسے پیروں تلے روند دیا جاتا ہے ۔ اچھی پالیسی کو بس اس لیے مذاق بنا دیا جاتا ہے کہ اُس کے ساتھ ہمارا نام نہیں لگا۔ کسی زمانے میں کراچی کی سڑکوں پر یہ جملہ جگہ جگہ لکھا ہوتا تھا کہ ــ ''تم کرو تو سرکاری ہے ہم کریں تو غداری ہے۔'' یعنی اگر دہشت گردی کے خلاف آپریشن کوئی اور کر رہا ہو تو بہت بڑا ظالم ہے اگر آپ نے ایک پتھر اٹھا لیا تو آپ ہیرو ہیں۔ بجلی کے بحران کے لیے رینٹل پاور پلانٹ کوئی اور لائے تو آپ سر عام کہتے پھرے کہ راجہ رینٹل اور جب آپ اس کوئلے کی کان میں ہاتھ ڈالیں تو سب سے امید کریں کہ وہ آپ کے ہاتھوں کو گورا گورا کہیں۔
لیکن یہ نہ جانے روایت ہے، رسم ہے، حسد ہے یا اپنی نااہلی، کہ بس دوسروں کے کام اور سوچ کو تباہ و برباد کر دینا۔ دوسروں کی کامیاب حکمت عملی کو اپنانے کی بجائے نئے تجربات کرنا اور پھر اُسی راستے پر قوم کا پیسہ اور وقت ضایع کرنے کے بعد دوبارہ آنا۔ ہو سکتا ہے موجودہ حکومت کو جنرل (ر) پرویز مشرف سے شدید نفرت ہو لیکن کم از کم جن فیصلوں سے عوام خوش تھے وہ تو جاری رکھے جا سکتے تھے۔ میں لال مسجد آپریشن کی بات ہرگز نہیں کر رہا کہ اُس کے متعلق نواز شریف اور اُن کی جماعت کیا نقطہ نظر پہلے رکھتی تھی اور اب کیا رکھتی ہے۔
نہ ہی میں اس بحث میں دلیلیں اور شکوے دینا اور سُننا چاہتا ہوں کہ کارگل کس نے کیا تھا اور جہاز کہاں گُم ہونے والا تھا۔ دنیا بھر کی مثالیں آپ لوگ ہر وقت دیتے رہتے ہیں کہ جمہوریت میں یہ ہوتا ہے جمہوریت میں وہ ہوتا ہے لیکن جمہوریت کی بنیاد ''بلدیاتی نظام'' کو آمر کا نظام کہہ کر ردی کے ٹوکرے میں ڈال دیا ہے۔ کیوں؟ کیوں کہ آپ اشرافیہ ہیں آپ کو تو معلوم ہی نہیں کہ اگر گھر کے باہر گٹر اُبل رہا ہو تو کیا ہوتا ہے۔ آپ کو تو معلوم ہی نہیں کہ اگر گلی کے نکڑ پر کچرا جمع ہو جائے تو کس کس کو فریاد کرنی ہوتی ہے۔ آپ کے ایک فون پر بڑے سے بڑا سرکاری آدمی حاضر ہو جائیگا۔
لیکن ایک کاغذ پر غریب کو صرف تصدیق کرانی ہو تو کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ آپ کا کیا لینا کہ اگر شہر کی سڑکیں ٹوٹی ہوں۔ جناح موڑ کی بدبودار اور متعفن سڑک کسی ایگزیکٹو انجینئیرکو نظر آتی ہے؟ سب اندھے ہیں، آپ تو اپنے پروٹوکول کے ساتھ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ غریب کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ گیند تیر لگنے سے پھٹ جائے یا پھر بلا اُس کی پٹائی کر دے۔ غریب کو اُس کی دال روٹی سے مسئلہ ہوتا ہے۔ آپ بڑی بڑی باتیں کریں لیکن پٹرول کی قیمت کم ہونے سے غریب کا کرایہ کم نہ ہو، دال کی قیمت پر کوئی فرق نہ پڑ رہا ہو۔ اُس کے روز کی بنیاد پر مسئلہ حل کرنے والا کوئی نہ ہو تو کیا فرق پڑتا ہے کہ شیر کے پنجے ہیں یا نہیں۔ تیر تلوار سے لڑ رہی ہو۔ اور بس آپ ہر ناکامی کو سازش کہہ کر آگے بڑھ جائیں۔
پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں یقینا آئینی حوالے سے بہت کام ہوا لیکن سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی کے عوام کے لیے کیا کیا۔ آئین کی موٹی موٹی باتوں سے یقیناً صوبوں کو اختیارات ملے لیکن مہنگائی کہاں پہنچی، بجلی کس کس پر گری۔ کیا ہم ماضی سے سبق نہیں سیکھنا چاہتے ہیں۔ بہت اچھی بات ہے کہ عمران خان نے کہا کہ اب وہ خیبر پختوانخوا پر توجہ دینگے۔ لیکن یہ تو بتاتے جائیں کہ آپ نے نوے دن میں بلدیاتی الیکشن کا کہا تھا اور اب دو سال ہونے والے ہیں۔ آپ کے بھی نوے دن ضیاء الحق کے نوے دن معلوم ہوتے ہیں جو نا جانے کون سے روز اختتام کو پہنچیں گے۔
بجلی کے فوری حل کے لیے سابقہ حکومت کا فوری طور پر رینٹل پاور لینے کا منصوبہ ٹھیک تھا۔ شفافیت ایک الگ بحث ہے۔ لیکن ایک مہم چلائی گئی اور اُس کے بعد وہ سلسلہ ختم ہو گیا۔ اطلاعات یہ موصول ہو رہی ہیں کہ اب حکومت دوبارہ اُس سلسلے کو شروع کرنے کی جانب ہے۔ عرض صرف یہ ہے کہ جناب کسی کے اچھے کاموں کو صرف اس لیے مت کچل دیا کریں کہ اُس کے ساتھ آپ کے نام کی تختی لگی ہوئی نہیں ہے۔ جہاں اعتراض ہو وہاں ضرور کیجیے لیکن اپنے مفادات سے بالا ہو کر قوم کے مفاد کا سوچا کریں۔ مجھے اس حوالے سے ایک لمبی بات کرنی تھی لیکن ایک email بار بار موصول ہو رہی تھی اور جس میں بہت زیادہ شکوہ تھا۔ لیکن یہ مکالمہ آپ کے لیے پیش کرنا بھی ضروری تھا
جناب کا نام افضال غازی ہے عمر کا زیادہ تر حصہ ملک سے باہر گزارا ہے لیکن ہر وقت پاکستان کو دل میں بسا کر رکھا ہوا ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک لمحہ کے لیے اس بحث کو پس پردہ رکھ دیجیے کہ آمریت اور جمہوریت کیا چیز ہے۔ پاکستانیوں کے بنیادی مسائل کی بات کرتے ہیں۔ سابقہ 7 سال کا انتظامی موازنہ پرویز مشرف کے دور سے کیا جائے۔ اعتدال پسندی کی جس پالیسی کو اُس زمانے میں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا آج تمام بڑی سیاسی جماعتیں اُسی نکتے پر جمع ہیں۔ عوامی سطح پر بلدیاتی نظام موجود تھا۔ ایک نہیں دو ادوار گزرے۔ کراچی، لاہور اور ہر جگہ اس کے اثرات موجود ہیں۔
جب میں کراچی واپس آیا تھا تو مجھے یقین نہیں آتا تھا کہ میں اس شہر میں اپنا بچپن گزار کر گیا ہوں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں اب اپنی زمین پر ہی رہوں گا۔ لیکن گزشتہ سات سال میں یہاں ترقی کا یہ حال ہے کہ جتنی سڑکیں پرویز مشرف دور میں بنی تھیں اُس میں بالکل بھی اضافہ نہیں ہوا۔ غربت کی شرح میں تیزی سے کمی ہو رہی تھی۔ اب مہنگائی میں بھی اضافہ ہو گیا اور ایک عام آدمی کی قوت خرید بھی بڑھ نہیں سکی۔ غازی صاحب نے بہت لمبی بات کی ہے لیکن اُن کے نکات یہ تھے کہ مشرف صاحب کا لال مسجد اور سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حوالے سے رائے ٹھیک تھی جسے اب تمام سیاسی جماعتیں بھی مانتی ہیں۔ اگر اُن کے پرانے تمام فیصلے ٹھیک تھے اور انھیں اب لوگوں کو ماننے پڑ رہے ہیں تو اُن کی دیگر باتوں پر غور کیوں نہیں کیا جا رہا۔ میرا نکتہ یہ تھا کہ کون سی باتیں۔
جس پر غازی صاحب کا یہ موقف تھا کہ انڈیا کے حوالے سے۔ انڈیا کو ہمیں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنی چاہیے۔ میری دلیل اس حوالے سے مختلف ہے۔ اور میں غازی صاحب کی اس بات کو بھی نہیں مانتا کہ مشرف صاحب بار بار کہہ رہے ہیں کہ فوج کو آئینی کردار دے دیا جائے۔ اور اس کی ابتدا آپ نے ملٹری کورٹس کے ذریعے کر دی ہے میری عرض یہ ہے کہ ملٹری کورٹس خالصتاً دہشت گردی کا معاملہ ہے جسے فوج دیکھ رہی ہے ۔ ان کا اصرار ہے کہ مشرف صاحب ایک کنٹرولڈ جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔
جو شاید ممکن نہیں۔ اُن کا ایک ہی موقف ہے کہ ہم جنرل (ر) پرویز مشرف کی پالیسی اور حکمت عملی کے ساتھ خیالات کو نظر انداز کر رہے ہیں لیکن ہمارا ملک آہستہ آہستہ اُسی طرف بڑھ رہا ہے۔ میری رائے سادہ سی ہے کہ بڑی مشکل سے جمہوریت کی ریل چلی ہے اب اُسے مزید تجربات کی بھٹی میں نہ ڈالا جائے کہیں ایسا نا ہو کا ہمیں ایک بار پھر صفر سے شروع کرنا پڑ جائے۔ بس عوام کا سوچیں جن کے سروں پر سے پانی اونچا ہوا تو سب ڈوبیں گے۔