ایک ہاتھ میں تیلی ایک میں بالٹی
وں تو غلطی انسان کے خمیر میں گندھی ہے لیکن غلطی درغلطی درغلطی، غلطی نہیں نااہلی کے زمرے میں آتی ہے۔
ایک ایسی حکومت جس کے وزراء کا طرزِ عمل جنگل کی اس مخلوق سے زیادہ مختلف نہیں جن کے ایک ہاتھ میں سلگتی ہوئی تیلی اور دوسرے ہاتھ میں پانی کی بالٹی ہو۔ ایک ہاتھ سے جنگل میں آگ لگائے چلے جاتے ہوں پھر آگ پر پانی کی بالٹی انڈیل کر فخر سے سینہ پھلائے ڈرے سہمے چرند پرند کو لہک لہک کر یہ بتاتے پھریں کہ دیکھا ہم نے آگ کو کتنی مشقت اور تندہی سے بجھایا ہے وگرنہ یہ آگ تو پورے کا پورا جنگل ہی خاک کر جاتی!!!
سوال سیدھا سا ہے! کیا آگ اور پانی کا ایسا کھیل گڈ گورننس کہلاتا ہے؟ کیا ملکی نظام یونہی چلائے جاتے ہیں؟ یوں تو غلطی انسان کے خمیر میں گندھی ہے لیکن غلطی درغلطی درغلطی، غلطی نہیں نااہلی کے زمرے میں آتی ہے۔ جبکہ غلطی کی صورت میں غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے غلطی سرزد ہونے کی بے سروپا توجیہات و منطق پیش کرنا ڈھٹائی گردانا جاتا ہے اور یہی عمل مسائل کا شکارعوام کے غم و غصہ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس ضمن میں پٹرول کا حالیہ بحران بھی محض حکومتی وزراء و افسران کی نااہلی کا شاخسانہ ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں عوامی حکومتوں کا شیوہ ہے کہ حکومتی اداروں کی کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری اور نااہلی کی صورت میں خطا کار اور سرکاری فرائض سے غفلت برتنے والے افسران اور وزراء کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔
ذکر تھا مہذب معاشرے اور جمہوری حکومت کا تو اگر مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان بھی ایک عدد مہذب معاشرہ اور جمہوریت کا علم بردار ملک ہے تو انصاف کے تقاضے اور عوامی امنگوں کے پیش نظر مندرجہ ذیل دو باتوں میں سے ایک ضرور ہونی چاہیے تھی! یا تو وزیر پٹرولیم نے جس وقت اپنی وزارت کی نااہلی کو کئی دنوں کی تاخیر کے بعد بالآخر تسلیم کر ہی لیا تھا تو ذمہ داروں کے حتمی تعین تک لگے ہاتھوں اپنے عہدے سے خود ہی سبکدوش ہوجاتے یا پھر اولین طور پر وزیر اعظم صاحب پٹرول بحران کے ذمہ دار چار اعلی افسران کو معطل کرنے سے پہلے وزیر پٹرولیم کو بھی معطلی کا پروانہ تھما دینا چاہیے تھا!
لیکن افسوس کہ جمہوری عوامی حکومت عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کرنے سے قاصر رہی ۔ اب اس کی بھی دو وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں! اول موجودہ جمہوری حکومت میں اب بھی سعودی شہنشاہت کا رنگ چھلکتا ہے تو انصاف کے اتنے ہی تقاضے پورے ہو سکتے ہیں جتنے شہنشاہ اجازت دے اور دوم وزیر پٹرولیم وہ شخصیت ہیں جو پرویز مشرف کی جانب سے 1999 میں نواز حکومت گرانے کے بعد مشرف صاحب کے تمام تر دباؤ کے باوجود نواز شریف کے خلاف تحریری بیان دینے سے انکاری رہے تھے اور اسی سبب مشرف حکومت کی طرف سے 2001 تک قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔ مذکورہ وزیر 1999 میں قومی حکومت گرائے جانے کے وقت پی آئی اے کے چیرمین تھے!!!
نواز حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان تبدیل ہوتا ہوا ملک ہے۔ اس ملک میں بادشاہت کا خواب اب نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ ملک اگر فوجی ڈکیٹروں کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے، دہشت گردوں کے خلاف اپنے بچے قربان کرکے بھی ہار ماننے پر تیار نہیں، غیر جمہوری قوتوں کو بھی رد کرسکتا ہے تو کسی ایسی جمہوری حکومت کو زیادہ اونچی پرواز کرنے کا تو سوچنا بھی نہیں چاہیے جو عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کے لئے بھی ذلیل و خوار کرکے رکھ دے۔
پٹرول کی عدم دستیابی صریحاً انتظامی نااہلی ہے جس کا اعتراف حکومت اور وزراء کی جانب سے کچھ دن مضحکہ خیز توجیہات دئیے جانے کے بعد کر لیا گیا ہے۔ یہ عارضی بحران مزید دو چار دن میں یقیناً ختم ہوجائے گا لیکن بنا شک و شائبۂ اس بحران نے حکومت کی ساکھ کو بے حد متاثر کیا ہے۔ حکومت شکرانے کے نوافل ادا کرے کہ عمران خان کا احتجاج ختم ہوچکا تھا وگرنہ تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان کی حکومت چینی مہنگی ہونے کے باعث بالواسطہ ختم تو نہیں ہوئی تھی لیکن حکومت مخالف مظاہرین کے مقصد کو حد درجہ تقویت ضرور بخش گئی تھی اور بالآخر ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
جمہوریت کا بڑا سادہ سا اصول ہے کہ حکومت تب تک مضبوط تصور ہوتی ہے جب تک عوام اس کو قوت فراہم کرتی رہے! یہاں احمق پھپھوندوی صاحب کا ایک شعر سمجھنے والوں کی نذر ہے کہ:
حکومت نے حالیہ بحران بہت محنت سے باقائدہ پیدا کرکے قومی غفلت کا ثبوت تو جو دیا سو دیا ساتھ ہی ساتھ قوم کی توجہ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان سے ہٹوانے کا سہرا بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے سر باندھا ہے۔ نواز حکومت اپنے آپ کو سعودی بادشاہتِ ثانی کے طور پر ابھارنے کے بجائے جمہوری طرزِ عمل اختیار کرے تو بہتر ہے۔ حکومت کو تمام شعبوں میں کارکردگی بہتر بنانی ہے تو خاندان کے افراد کو وزارتیں اور اہم عہدے بخشنے کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے قابلیت کی بنیاد پر تقرریاں کرنی چاہیے اور فیصلہ سازی کا عمل گنے چنے افراد کے ہاتھ سے نکال کر اس اہم ترین عمل میں باشعور و اہل افراد کی شمولیت انتہائی ناگزیر ہے وگرنہ مستقبل میں بھی مسائل یوں ہی سر اٹھاتے رہیں گے کیونکہ مسائل کا پیدا ہونا نااہل افراد کی نااہلیت کا منطقی انجام ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
سوال سیدھا سا ہے! کیا آگ اور پانی کا ایسا کھیل گڈ گورننس کہلاتا ہے؟ کیا ملکی نظام یونہی چلائے جاتے ہیں؟ یوں تو غلطی انسان کے خمیر میں گندھی ہے لیکن غلطی درغلطی درغلطی، غلطی نہیں نااہلی کے زمرے میں آتی ہے۔ جبکہ غلطی کی صورت میں غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے غلطی سرزد ہونے کی بے سروپا توجیہات و منطق پیش کرنا ڈھٹائی گردانا جاتا ہے اور یہی عمل مسائل کا شکارعوام کے غم و غصہ میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس ضمن میں پٹرول کا حالیہ بحران بھی محض حکومتی وزراء و افسران کی نااہلی کا شاخسانہ ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے یہاں عوامی حکومتوں کا شیوہ ہے کہ حکومتی اداروں کی کسی بھی قسم کی غیر ذمہ داری اور نااہلی کی صورت میں خطا کار اور سرکاری فرائض سے غفلت برتنے والے افسران اور وزراء کے خلاف فوری کارروائی کی جاتی ہے۔
ذکر تھا مہذب معاشرے اور جمہوری حکومت کا تو اگر مفروضہ یہ ہے کہ پاکستان بھی ایک عدد مہذب معاشرہ اور جمہوریت کا علم بردار ملک ہے تو انصاف کے تقاضے اور عوامی امنگوں کے پیش نظر مندرجہ ذیل دو باتوں میں سے ایک ضرور ہونی چاہیے تھی! یا تو وزیر پٹرولیم نے جس وقت اپنی وزارت کی نااہلی کو کئی دنوں کی تاخیر کے بعد بالآخر تسلیم کر ہی لیا تھا تو ذمہ داروں کے حتمی تعین تک لگے ہاتھوں اپنے عہدے سے خود ہی سبکدوش ہوجاتے یا پھر اولین طور پر وزیر اعظم صاحب پٹرول بحران کے ذمہ دار چار اعلی افسران کو معطل کرنے سے پہلے وزیر پٹرولیم کو بھی معطلی کا پروانہ تھما دینا چاہیے تھا!
لیکن افسوس کہ جمہوری عوامی حکومت عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کرنے سے قاصر رہی ۔ اب اس کی بھی دو وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں! اول موجودہ جمہوری حکومت میں اب بھی سعودی شہنشاہت کا رنگ چھلکتا ہے تو انصاف کے اتنے ہی تقاضے پورے ہو سکتے ہیں جتنے شہنشاہ اجازت دے اور دوم وزیر پٹرولیم وہ شخصیت ہیں جو پرویز مشرف کی جانب سے 1999 میں نواز حکومت گرانے کے بعد مشرف صاحب کے تمام تر دباؤ کے باوجود نواز شریف کے خلاف تحریری بیان دینے سے انکاری رہے تھے اور اسی سبب مشرف حکومت کی طرف سے 2001 تک قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے رہے۔ مذکورہ وزیر 1999 میں قومی حکومت گرائے جانے کے وقت پی آئی اے کے چیرمین تھے!!!
نواز حکومت کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان تبدیل ہوتا ہوا ملک ہے۔ اس ملک میں بادشاہت کا خواب اب نہیں دیکھا جاسکتا۔ یہ ملک اگر فوجی ڈکیٹروں کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے، دہشت گردوں کے خلاف اپنے بچے قربان کرکے بھی ہار ماننے پر تیار نہیں، غیر جمہوری قوتوں کو بھی رد کرسکتا ہے تو کسی ایسی جمہوری حکومت کو زیادہ اونچی پرواز کرنے کا تو سوچنا بھی نہیں چاہیے جو عوام کو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کے لئے بھی ذلیل و خوار کرکے رکھ دے۔
پٹرول کی عدم دستیابی صریحاً انتظامی نااہلی ہے جس کا اعتراف حکومت اور وزراء کی جانب سے کچھ دن مضحکہ خیز توجیہات دئیے جانے کے بعد کر لیا گیا ہے۔ یہ عارضی بحران مزید دو چار دن میں یقیناً ختم ہوجائے گا لیکن بنا شک و شائبۂ اس بحران نے حکومت کی ساکھ کو بے حد متاثر کیا ہے۔ حکومت شکرانے کے نوافل ادا کرے کہ عمران خان کا احتجاج ختم ہوچکا تھا وگرنہ تاریخ گواہ ہے کہ ایوب خان کی حکومت چینی مہنگی ہونے کے باعث بالواسطہ ختم تو نہیں ہوئی تھی لیکن حکومت مخالف مظاہرین کے مقصد کو حد درجہ تقویت ضرور بخش گئی تھی اور بالآخر ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا تھا۔
جمہوریت کا بڑا سادہ سا اصول ہے کہ حکومت تب تک مضبوط تصور ہوتی ہے جب تک عوام اس کو قوت فراہم کرتی رہے! یہاں احمق پھپھوندوی صاحب کا ایک شعر سمجھنے والوں کی نذر ہے کہ:
مٹا دیتا ہے دم میں نخوتِ نمرود اک مچھر کبھی ایسا بھی دورِ گردشِ ایام آتا ہے
حکومت نے حالیہ بحران بہت محنت سے باقائدہ پیدا کرکے قومی غفلت کا ثبوت تو جو دیا سو دیا ساتھ ہی ساتھ قوم کی توجہ دہشت گردی کے خلاف قومی ایکشن پلان سے ہٹوانے کا سہرا بھی اپنے ہاتھوں سے اپنے سر باندھا ہے۔ نواز حکومت اپنے آپ کو سعودی بادشاہتِ ثانی کے طور پر ابھارنے کے بجائے جمہوری طرزِ عمل اختیار کرے تو بہتر ہے۔ حکومت کو تمام شعبوں میں کارکردگی بہتر بنانی ہے تو خاندان کے افراد کو وزارتیں اور اہم عہدے بخشنے کا سلسلہ ترک کرتے ہوئے قابلیت کی بنیاد پر تقرریاں کرنی چاہیے اور فیصلہ سازی کا عمل گنے چنے افراد کے ہاتھ سے نکال کر اس اہم ترین عمل میں باشعور و اہل افراد کی شمولیت انتہائی ناگزیر ہے وگرنہ مستقبل میں بھی مسائل یوں ہی سر اٹھاتے رہیں گے کیونکہ مسائل کا پیدا ہونا نااہل افراد کی نااہلیت کا منطقی انجام ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔