لاتعلقی
رابطے کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ واسطوں اور تعلق میں آسانی پیدا کرتا ہے
رابطے کی خوبصورتی یہ ہے کہ یہ واسطوں اور تعلق میں آسانی پیدا کرتا ہے، جب کہ لاتعلقی ایک سرد مہر فاصلہ ہے۔ ایک ایسا فاصلہ جہاں تاحد نظر راستے ہیں۔ جدید دور نے جہاں بہت سی آسانیاں فراہم کی ہیں، وہاں بہت سی مشکلات بھی پیدا کر دی ہیں۔ یہ وہ مشکلات ہیں، جو رابطوں میں خلل ڈالتی ہیں۔ اجتماعی سوچ مفقود ہو جاتی ہے۔ فرد اپنی ذات میں تنہا ہو جاتا ہے۔ لاتعلقی بہت سی ذمے داریوں سے آزاد کر دیتی ہے۔
ذمے داری نبھانا، رابطے کی خوبصورتی ہے، کیونکہ رابطہ آگہی دیتا ہے۔ انسان اگر اپنی ذات سے رابطے میں ہے، تو وہ زندگی سے بھی قریب تر ہو گا۔ کائنات کے رموز سے بھی واقف رہتا ہے۔ خالق کائنات کو بھی سمجھ پاتا ہے۔ ذات سے رابطہ جسم، ذہن اور روح کی ہم آہنگی ہے۔ ذات سے دوری نہ ختم ہونے والا انتشار ہے۔ یہ انتشار ہمیں زندگی میں ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ گھر سے لے کر ادارے اس انتشار کا شکار ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انسان خود کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کی خواہشات، ضروریات و ترجیحات کا دائرہ لامحدود ہو چکا ہے۔ کوئی بھی رویہ حد سے تجاوز کر جائے تو وہ بے سکونی پیدا کر دیتا ہے۔ بے اطمینانی کی سب سے بڑی وجہ، ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی ہے۔ جس کی جڑیں بے خبری کی گہرائی میں پیوست ہیں۔ بے خبری، لاتعلقی کا ردعمل ہے۔
ہمارے رابطے کھوکھلے اور سطحی ہیں۔ یہ خالص اور بے ضرر نہیں رہے۔ یہ مطلب اور مفاد پرستی سے جڑے ہیں۔ جس کی وجہ سے لفظوں سے معنی چھن گئے ہیں۔ جملوں کا مفہوم بدل گیا ہے۔ تشریحات بھی جانبداری کے نرغے میں پھنس گئی ہیں۔ لفظ رابطوں کی نوید نہیں دیتے۔ یہ لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ لفظ محض دکھاوا ہیں۔
تعلق کی تشریح یہ ہے کہ یہ خالص اور شفاف ہو۔ مطلب اور دنیاداری سے مبرا اور احساس سے جڑا ہو۔ احساس سے تعلق رکھنے والی سوچ اور عمل خوبصورت ہوتے ہیں۔ یہ دیرپا اور مثبت نتیجے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ناامیدی اور مایوسی سے دور فقط مطلوبہ نتیجہ برآمد کرتے ہیں۔ یہ زمین کی طرح ہوتے ہیں۔ جس میں پودا، بیج کی مناسبت سے اگتا ہے۔ پھولوں کے بیج سے باغ تشکیل دیتے ہیں۔ وگرنہ پوری زمین خود رو پودوں اور جھاڑیوں سے بھری ہوتی ہے۔ ارادے کی سچائی کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ غیر ارادی طور پر بے ہنر اور بے فائدہ فصل اگتی ہے۔ یہ فصل ہم آج ہر سطح پر کاٹ رہے ہیں۔ ارادے کی پختگی نہ ہو تو عمل بے ثمر رہتا ہے۔
چاہے لفظ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ادا کیے جائیں۔ تعلق کی روشنی نہ ہو تو لفظ بھی بے اثر ہوجاتے ہیں۔ لفظ کی روح مردہ ہو تو ایسے الفاظ زندگی عطا نہیں کر سکتے۔ پھر خاموشی کے تسلسل میں معنی خیز وقفے آ جاتے ہیں۔ اب ہم ان وقفوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب ہر سمت خاموشی کی چاپ سنائی دیتی ہے اور خوفزدہ دل زندگی کو محسوس کیے بنا پہلو میں دھڑکتے ہیں۔ خوف بھی اجنبیت کی پیداوار ہے۔ خوف اور دہشت پھیلانے سے غیر انسانی رویے جڑ پکڑتے ہیں۔ گھر کے مضبوط نظام سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ گھر بھی کسی ایک فرد کی بے جا انا پرستی سے بکھرتا ہے۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی رشتے ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایک گھر میں بہت سارے گھر بن جاتے ہیں۔ ایک شہر میں رہتے ہوئے سالوں نہیں مل پاتے، سامنے آ جائیں تو نظریں چرا کے گزر جاتے ہیں۔ اپنائیت بے حسی کی دھند میں کہیں کھو گئی ہے۔
اچھی روایتیں قائم رکھنے کے لیے ہوا کرتی ہیں۔ جب کہ منفی سوچ و رویے جلد از جلد ازالہ چاہتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ برعکس ہے۔ کچھ دن پہلے شہر کے مصروف چوراہے سے اندر جانے والے راستے کے نکڑ پر بنے پلازہ کی نچلی دیوار پر لکھا تھا:
آؤ پاکستان میں ہر طرف گند پھیلا دیں
دلوں میں نفرتیں بھر دیں
خوشحالی کا راستہ روک دیں
تاریکی کو ہر سمت پھیلائیں
آفس جاتے ہوئے علی الصبح ایسے منفی الفاظ نظر سے گزریں گے تو پورا دن کیسے گزرے گا؟ اس پیغام کو کسی نے مٹانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم دیواروں کو اپنے اندر کے زہر سے بدنما بنا دیتے ہیں۔ احتجاج کے انوکھے طریقے ہم نے اپنا رکھے ہیں۔ پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے کی روایت زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
مذہبی تہوار شان و شوکت سے مناتے ہیں مگر آفاقی پیغام کو بھول چکے ہیں۔ سجدوں میں نفاق سوچتے ہیں۔ شہر میں کیا ہو رہا ہے۔ کتنے لوگ بھوکے سوئے، کتنی اموات سردی سے ٹھٹھرتے جسموں کی ہوئیں، نہ شہر کے مکینوں نے جانا اور نہ ہی امیر شہر کو خبر ہوئی۔
بے خبری بھی ایک فن ہے۔
جان بوجھ کے انجان بن جانا سر سے کئی بوجھ اتار دیتا ہے۔ لفظ کی حرمت کا کسے پاس ہے۔ لفظ تو ہواؤں میں بکھر جانے کے لیے ہوتے ہیں۔
لاتعلقی جبر کی ڈھال ہے۔
یہ پسماندہ طبقوں کے استحصال کا استعارہ ہے۔ تعلق ایک ذمے داری ہے۔ جب کہ غیر ذمے داری قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ عوام سارا قصور سیاستدانوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن انھیں سیاستدان نہیں کہتے کہ ملاوٹ کریں اور غیر صحت بخش اشیا کے وسیلے موت بھیجیں۔ دفتر دیر سے جائیں، وہاں ذاتی کام کریں اور خوب گپیں ہانکیں، لوگوں کو خوب رلائیں اور ان کا کام وقت پر نہ کریں۔ رشوت، چور بازاری اور بے ایمانی کو اپنا شعار بنالیں۔ جھوٹ بولیں گے تو وہ پلٹ کر ہماری طرف آئے گا۔ سچ بولیں گے تو خسارے میں بھی ضمیر مطمئن رہے گا۔ ضمیر کو اگر سونے کے لیے مختص کیا جائے تو تقدیر بھی سوتی رہ جاتی ہے۔
لاتعلقی محبت اور دوستی کے درمیان فاصلے پیدا کردیتی ہے۔ احساس کا احساس سے تعلق قائم نہ رہے تو وہ رشتے ناطے بوجھ بن جاتے ہیں۔ لاتعلقی کا عالم دیکھیے کہ غلط ذرایع سے حاصل شدہ آمدنی سے خیرات کی جاتی ہے تو وہ بھی صاحب حیثیت لوگوں میں بانٹی جاتی ہے۔ قربانی کا گوشت فریج میں پڑے سڑ جاتا ہے۔ باسی غذا کھا کر باحیثیت لوگوں کو اکثر بیمار ہوتے دیکھا ہے۔ کم کھانے سے کوئی نہیں مرتا بلکہ بسیار خوری سے اکثر لوگوں کو مرتے دیکھا ہے۔
زندگی کے تمام تر مسائل بھوک سے جڑے ہیں۔ خالی پیٹ بھی فتنہ برپا کردیتا ہے اور بھرا ہوا پیٹ قیامت۔ معلوم نہیں کیوں انسان ہر طرح سے خسارے میں گھرا رہتا ہے۔ گوتم بدھ نے ان دو رویوں کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ خالی پیٹ احساس و روحانیت کو فروغ دیتا ہے۔ جب کہ بھرا ہوا پیٹ رابطے، تشکر اور طمانیت کا مظہر کہلاتا ہے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ پیٹ بھرا ہوا ہو مگر چہروں پر کہیں دور تک سکھ اور شانتی کا نام و نشان نہ ہو۔ نعمتوں کو نہ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان بھی لاتعلقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان حسیاتی طور پر بہت کمزور ہے۔ اس کی تمام تر حسیں بے خبری اور بے دھیانی کی دھند میں غیر موثر ہو چکی ہیں۔
رابطے فعال ہوں تو انسان کی حس بھی فعال کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ رابطے جو اجتماعی شعور کو جنم دیتے ہیں اور اجتماعی شعور تعلق کی مضبوط ڈور سے بندھا ہوتا ہے۔
ذمے داری نبھانا، رابطے کی خوبصورتی ہے، کیونکہ رابطہ آگہی دیتا ہے۔ انسان اگر اپنی ذات سے رابطے میں ہے، تو وہ زندگی سے بھی قریب تر ہو گا۔ کائنات کے رموز سے بھی واقف رہتا ہے۔ خالق کائنات کو بھی سمجھ پاتا ہے۔ ذات سے رابطہ جسم، ذہن اور روح کی ہم آہنگی ہے۔ ذات سے دوری نہ ختم ہونے والا انتشار ہے۔ یہ انتشار ہمیں زندگی میں ہر طرف دکھائی دیتا ہے۔ گھر سے لے کر ادارے اس انتشار کا شکار ہیں۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ انسان خود کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ اس کی خواہشات، ضروریات و ترجیحات کا دائرہ لامحدود ہو چکا ہے۔ کوئی بھی رویہ حد سے تجاوز کر جائے تو وہ بے سکونی پیدا کر دیتا ہے۔ بے اطمینانی کی سب سے بڑی وجہ، ایک دوسرے کے حقوق کی پامالی ہے۔ جس کی جڑیں بے خبری کی گہرائی میں پیوست ہیں۔ بے خبری، لاتعلقی کا ردعمل ہے۔
ہمارے رابطے کھوکھلے اور سطحی ہیں۔ یہ خالص اور بے ضرر نہیں رہے۔ یہ مطلب اور مفاد پرستی سے جڑے ہیں۔ جس کی وجہ سے لفظوں سے معنی چھن گئے ہیں۔ جملوں کا مفہوم بدل گیا ہے۔ تشریحات بھی جانبداری کے نرغے میں پھنس گئی ہیں۔ لفظ رابطوں کی نوید نہیں دیتے۔ یہ لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔ لفظ محض دکھاوا ہیں۔
تعلق کی تشریح یہ ہے کہ یہ خالص اور شفاف ہو۔ مطلب اور دنیاداری سے مبرا اور احساس سے جڑا ہو۔ احساس سے تعلق رکھنے والی سوچ اور عمل خوبصورت ہوتے ہیں۔ یہ دیرپا اور مثبت نتیجے سے بھرپور ہوتے ہیں۔ ناامیدی اور مایوسی سے دور فقط مطلوبہ نتیجہ برآمد کرتے ہیں۔ یہ زمین کی طرح ہوتے ہیں۔ جس میں پودا، بیج کی مناسبت سے اگتا ہے۔ پھولوں کے بیج سے باغ تشکیل دیتے ہیں۔ وگرنہ پوری زمین خود رو پودوں اور جھاڑیوں سے بھری ہوتی ہے۔ ارادے کی سچائی کی اپنی الگ اہمیت ہے۔ غیر ارادی طور پر بے ہنر اور بے فائدہ فصل اگتی ہے۔ یہ فصل ہم آج ہر سطح پر کاٹ رہے ہیں۔ ارادے کی پختگی نہ ہو تو عمل بے ثمر رہتا ہے۔
چاہے لفظ کتنے ہی خوبصورت کیوں نہ ادا کیے جائیں۔ تعلق کی روشنی نہ ہو تو لفظ بھی بے اثر ہوجاتے ہیں۔ لفظ کی روح مردہ ہو تو ایسے الفاظ زندگی عطا نہیں کر سکتے۔ پھر خاموشی کے تسلسل میں معنی خیز وقفے آ جاتے ہیں۔ اب ہم ان وقفوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب ہر سمت خاموشی کی چاپ سنائی دیتی ہے اور خوفزدہ دل زندگی کو محسوس کیے بنا پہلو میں دھڑکتے ہیں۔ خوف بھی اجنبیت کی پیداوار ہے۔ خوف اور دہشت پھیلانے سے غیر انسانی رویے جڑ پکڑتے ہیں۔ گھر کے مضبوط نظام سے معاشرہ ترقی کرتا ہے۔ گھر بھی کسی ایک فرد کی بے جا انا پرستی سے بکھرتا ہے۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی رشتے ایک دوسرے سے بے خبر ہوتے ہیں۔ ایک گھر میں بہت سارے گھر بن جاتے ہیں۔ ایک شہر میں رہتے ہوئے سالوں نہیں مل پاتے، سامنے آ جائیں تو نظریں چرا کے گزر جاتے ہیں۔ اپنائیت بے حسی کی دھند میں کہیں کھو گئی ہے۔
اچھی روایتیں قائم رکھنے کے لیے ہوا کرتی ہیں۔ جب کہ منفی سوچ و رویے جلد از جلد ازالہ چاہتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں معاملہ برعکس ہے۔ کچھ دن پہلے شہر کے مصروف چوراہے سے اندر جانے والے راستے کے نکڑ پر بنے پلازہ کی نچلی دیوار پر لکھا تھا:
آؤ پاکستان میں ہر طرف گند پھیلا دیں
دلوں میں نفرتیں بھر دیں
خوشحالی کا راستہ روک دیں
تاریکی کو ہر سمت پھیلائیں
آفس جاتے ہوئے علی الصبح ایسے منفی الفاظ نظر سے گزریں گے تو پورا دن کیسے گزرے گا؟ اس پیغام کو کسی نے مٹانے کی کوشش نہیں کی۔ ہم دیواروں کو اپنے اندر کے زہر سے بدنما بنا دیتے ہیں۔ احتجاج کے انوکھے طریقے ہم نے اپنا رکھے ہیں۔ پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے کی روایت زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
مذہبی تہوار شان و شوکت سے مناتے ہیں مگر آفاقی پیغام کو بھول چکے ہیں۔ سجدوں میں نفاق سوچتے ہیں۔ شہر میں کیا ہو رہا ہے۔ کتنے لوگ بھوکے سوئے، کتنی اموات سردی سے ٹھٹھرتے جسموں کی ہوئیں، نہ شہر کے مکینوں نے جانا اور نہ ہی امیر شہر کو خبر ہوئی۔
بے خبری بھی ایک فن ہے۔
جان بوجھ کے انجان بن جانا سر سے کئی بوجھ اتار دیتا ہے۔ لفظ کی حرمت کا کسے پاس ہے۔ لفظ تو ہواؤں میں بکھر جانے کے لیے ہوتے ہیں۔
لاتعلقی جبر کی ڈھال ہے۔
یہ پسماندہ طبقوں کے استحصال کا استعارہ ہے۔ تعلق ایک ذمے داری ہے۔ جب کہ غیر ذمے داری قومی مزاج کا حصہ بن چکی ہے۔ عوام سارا قصور سیاستدانوں کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ لیکن انھیں سیاستدان نہیں کہتے کہ ملاوٹ کریں اور غیر صحت بخش اشیا کے وسیلے موت بھیجیں۔ دفتر دیر سے جائیں، وہاں ذاتی کام کریں اور خوب گپیں ہانکیں، لوگوں کو خوب رلائیں اور ان کا کام وقت پر نہ کریں۔ رشوت، چور بازاری اور بے ایمانی کو اپنا شعار بنالیں۔ جھوٹ بولیں گے تو وہ پلٹ کر ہماری طرف آئے گا۔ سچ بولیں گے تو خسارے میں بھی ضمیر مطمئن رہے گا۔ ضمیر کو اگر سونے کے لیے مختص کیا جائے تو تقدیر بھی سوتی رہ جاتی ہے۔
لاتعلقی محبت اور دوستی کے درمیان فاصلے پیدا کردیتی ہے۔ احساس کا احساس سے تعلق قائم نہ رہے تو وہ رشتے ناطے بوجھ بن جاتے ہیں۔ لاتعلقی کا عالم دیکھیے کہ غلط ذرایع سے حاصل شدہ آمدنی سے خیرات کی جاتی ہے تو وہ بھی صاحب حیثیت لوگوں میں بانٹی جاتی ہے۔ قربانی کا گوشت فریج میں پڑے سڑ جاتا ہے۔ باسی غذا کھا کر باحیثیت لوگوں کو اکثر بیمار ہوتے دیکھا ہے۔ کم کھانے سے کوئی نہیں مرتا بلکہ بسیار خوری سے اکثر لوگوں کو مرتے دیکھا ہے۔
زندگی کے تمام تر مسائل بھوک سے جڑے ہیں۔ خالی پیٹ بھی فتنہ برپا کردیتا ہے اور بھرا ہوا پیٹ قیامت۔ معلوم نہیں کیوں انسان ہر طرح سے خسارے میں گھرا رہتا ہے۔ گوتم بدھ نے ان دو رویوں کی وضاحت اس طرح سے کی ہے کہ خالی پیٹ احساس و روحانیت کو فروغ دیتا ہے۔ جب کہ بھرا ہوا پیٹ رابطے، تشکر اور طمانیت کا مظہر کہلاتا ہے۔ لیکن یہ المیہ ہے کہ پیٹ بھرا ہوا ہو مگر چہروں پر کہیں دور تک سکھ اور شانتی کا نام و نشان نہ ہو۔ نعمتوں کو نہ محسوس کرنے کی صلاحیت کا فقدان بھی لاتعلقی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا انسان حسیاتی طور پر بہت کمزور ہے۔ اس کی تمام تر حسیں بے خبری اور بے دھیانی کی دھند میں غیر موثر ہو چکی ہیں۔
رابطے فعال ہوں تو انسان کی حس بھی فعال کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ رابطے جو اجتماعی شعور کو جنم دیتے ہیں اور اجتماعی شعور تعلق کی مضبوط ڈور سے بندھا ہوتا ہے۔