انتہا پسندی کا پس منظر و سدباب دوسرا حصہ
جن لوگوں کے سماجی بندھن کمزور ہوتے ہیں وہ جلد ہی انتہا پسندوں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں
خیبر ایجنسی کے علاقے لنڈی کوتل کی ایک مسجد میں ہونے والے بم دھماکے نے بہت سے افراد کی زندگیوں کو تبدیل کر کے رکھ دیا ۔ ان میں یاسر خان بھی شامل ہیں جن کی عمر اس وقت 28 سال تھی۔ 2009ء میں ہونے والے اس حملے میں وہ اپنی دائیں ٹانگ سے محروم ہو گئے تھے۔ اس حادثے نے یاسر کو چڑچڑا اور پژمردگی کا شکار بنا دیا اور ان میں متشدد جذبات پیدا ہونے کے بعد انھوں نے انتہا پسندی پر مبنی نظریہ اپنایا۔
تاہم انھوں نے بتایا کہ بعد میں مربوط انتظامی ضروریات کے لیے شراکتی حکمت عملیاں (پیمان) الومنی ٹرسٹ سے واسطہ پڑنے کے بعد ان کی حالت بدلنے لگی۔ 'پیمان' ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ ملکر کام کرتے ہوئے انھیں بنیاد پرستی کے اثرات سے آگاہ کرتی ہے۔ 'پیمان' نے یاسر اور بہت سے دیگر پاکستانیوں نوجوانوں کو اپنے تباہ کن نظریات پر قابو پانے اور ان کی جگہ مثبت خیالات اور احساسات لانے میں مدد دی ہے۔ 'پیمان' کا ماننا ہے کہ منتقلی تنازعہ میں عدم تشدد پر مبنی طریقوں کی حمایت کے ذریعے امن کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ اس کا اطلاق ہر قسم کے تنازعات پر ہو سکتا ہے جن میں افراد کے درمیان ہونے والے روزمرہ کے جھگڑوں سے لے کر ایسے تنازعات شامل ہیں جو آبادیوں کو تقسیم کر دیتے ہیں۔
'پیمان ' کے تذکرے کا مقصد یہی تھا کہ ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے میں انتہا پسندی کے خلاف موثر انداز میں مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے 'پیمان' کے طرز پر ایسی سرگرمیوں کی روک تھام میں معاون بن سکتے ہیں جو کسی بھی فرد میں انتہا پسندی کا سبب بننے کے لیے خود ساختہ توجہیات بنا لیتے ہیں۔ 'پیمان' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر مسرت قدیم کا کہنا تھا کہ پورے خیبر پختونخوا اور فاٹا میں امن گروپوں کے ذریعے ۵۷ ہزار افراد تک رسائی ہے ۔ یہ امن گروپ بنیاد پرستی کا شکار ہونے والے نوجوانوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا اور فاٹا کی80 فیصد کے لگ بھگ آبادی کو عسکریت پسندی کے سبب نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے اور وہ انتہا پسندی کے خطرے سے دوچار ہیں ۔
بنیاد پرستی کی روک تھام اور ذہنی خیالات تبدیل کیے جانے والے نوجوانوں کو انتہا پسندانہ نظریے سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے پروگرام شروع کرنے چاہیے جو ملکی مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں میں بطور نصاب پڑھایا جائے اور اس کی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی کی جائے ۔ علاوہ ازیں ان پروگراموں کا ارتکاز دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کو فن و ہنر کی تربیت دینے پر ہے تاکہ انھیں مالی امداد کے لیے دوسرے لوگوں اور امکانی طور پر عسکریت پسندوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
جن لوگوں کے سماجی بندھن کمزور ہوتے ہیں وہ جلد ہی انتہا پسندوں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں حالانکہ انتہا پسند خود بھی قطعی تنہائی پسند نہیں ہوتے بلکہ ان کے مخصوص سماجی تعلقات ہوتے ہیں اور نئے بھرتی ہونے والے ریکروٹس کو بھی انھی راستوں پر گامزن کر دیتے ہیں مزید برآں نئے نوجوان بھرتی ہو کر دیگر ہم خیال نوجوانوں کے ساتھ اپنے سماجی تعلقات مضبوط کر لیتے ہیں۔
سماجی عدم تحفظ کی وجہ سے بھی نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ جس سے وہ شدت پسندی کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز میں شریک دہشت گردوں کی پہلی وجہ ان کے سماجی عدم تحفظ ہی ہے، پکڑے جانے والے زیادہ تر دہشت گردوں کا یہی ماننا تھا کہ ان کی سیاسی جماعت نے ان کی معاشی مسائل کی یقین دہانی کے نام پر ان کا استعمال کیا۔ ان کے نظریات میں لسانیت، قومیت یا مذہب و مسلک سے بڑھ کر سماجی عدم تحفظ شامل تھا۔
رشوت ستانی کا ماحول بھی اہم عوامل میں ایک ہے، ہر شعبہ ہائے زندگی میں رشوت ستانی کے وجود نے افراد کو مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیا ہے اس طرح لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کسی انتہا پسند گروپ کی وساطت سے اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ پاکستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اسٹیبلشمنٹ کی دگرگوں حالت کے ساتھ ساتھ پولیس اور تھانوں، چیک پوسٹوں اور متحرک دستوں پر حملے، ان تمام کا آپس میں گہرا رشتہ نظر آتا ہے۔
پختون کلچر اپنے جارحانہ رویوں اور طور و اطوار میں پنجابی ثقافت سے بالکل مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں انتہا پسندی کے لیے خاصی کشش پائی جاتی ہے۔ مقامی قبائلی علاقوں کے رویوں میں تبدیلی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ قبائلی علاقوں میں کچھ حصے ایسے بھی ہیں جہاں بچوں کے کھیل تماشوں میں بھی جارحانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا ہو گا کہ کھیل کود سے فارغ ہو کر گھر پلٹتے وقت بھی ایک دوسروں کو پتھر مارتے ہیں جس سے وہ زخمی ہو جاتے ہیں۔ پشتون ثقافت کے بارے میں خیال یہی کیا جاتا ہے کہ ان مین شدت پسندی کا عنصر موجود ہے لیکن ان کے ہیرو مثلا رحمان بابا اور خوش حال خان خٹک، خان عبدالغفار خان کو پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ شاید ان کا تعلق کسی اور سرزمین سے تھا۔ یہ تمام لوگ معتدل مزاج، محبت کرنے والے اور امن کے داعی تھے۔
سماجی دباؤ اور کچھاؤ بھی شدت پسندی کے حوالے سے بنیادی کردار کا حامل ہے۔ انتہا پسند، معاشرے کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سازشوں اور افواہوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے پاکستانی ثقافت میں لکیر کے فقیر عناصر کی بھرمار ہے جنہوں نے مختلف گروہ تشکیل دے رکھے ہیں اور پھر یہ لوگ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر ایک ہی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ مافوق الفطرت اور جادوئی خیالات کی معاشرے میں بھرمار ہے۔
انتہا پسند ان بشری کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ادراک اور کم فہمی دوسرے گروپوں پر نکتہ چینی کا باعث رہی ہے کیونکہ یہ مختلف النظریات گروہ پاکستانی معاشرے میں گہرے دھنسے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست اور باقی دنیا خصوصا مغرب کے متعلق خیالات، ثقافتی ارباب کی وجہ سے اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ عام پاکستانیوں کی رائے مغرب اور خصوصا سیاسی زعما کے متعلق انتہائی منفی سوچ کی آئینہ دار ہے اس قومی اور بین الاقوامی سوچ نے دانستہ یا نادانستہ طور پر کئی افراد کو انتہا پسندوں کے حلقہ اثر میں دھکیل دیا ہے۔
مواقعے اور آسائشیں تعمیری کاموں کی مناسبت سے نہ ہونے کے مترادف ہیں زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جہاں پر تعمیری سوچ کا سرے سے فقدان ہے جب کہ شہروں میں تخلیقی سرگرمیاں ناکافی ہیں لوگوں کی اکثریت ایسے علاقوں میں سفر کرنے سے قاصر ہے جہاں تمام سہولتیں میسر ہیں۔ مزید برآں تعمیری اور ثقافتی سر گرمیوں پر سرمایہ کاری کرنا فضول خرچی اور شاہانہ ٹھاٹھ سمجھا جاتا ہے۔
انتہا پسندوں کے گروپوں میں شمولیت سے ممبران کو وہ تمام مواقعے میسر ہوتے ہیں جو متبادل ردعمل سے کسی طور کم تصور نہیں ہوتا، نوجوان جو اپنے کسان اور ہنر مند والدین کے ساتھ فیکٹریوں اور دکانوں میں کام کرنے سے عاجز آ چکے ہوتے ہیں یا یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں وہ ان تنظیموں سے وابستہ ہو کر شہر شہر گھومتے ہیں۔ ایڈونچر کرتے ہیں اس طرح ان کی تربیت اور کارروائیاں بھی انجام پاتی رہتی ہیں اور ان میں سے خاصی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بھرتی ہونے کے بعد پہلی مرتبہ گھر سے دور کے اضلاع یا دیگر صوبوں کی راہ دیکھتے ہیں اور ان میں جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔
پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے تمام اسلامی تہوار اور رسومات جوش و خروش سے مناتے ہیں مگر اصل اسلامی روح کا ان میں فقدان ہے۔ مملکت کی ذمے داری ہے کہ نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں میں جانے سے مثبت طریق کار سے روکے۔
تاہم انھوں نے بتایا کہ بعد میں مربوط انتظامی ضروریات کے لیے شراکتی حکمت عملیاں (پیمان) الومنی ٹرسٹ سے واسطہ پڑنے کے بعد ان کی حالت بدلنے لگی۔ 'پیمان' ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ ملکر کام کرتے ہوئے انھیں بنیاد پرستی کے اثرات سے آگاہ کرتی ہے۔ 'پیمان' نے یاسر اور بہت سے دیگر پاکستانیوں نوجوانوں کو اپنے تباہ کن نظریات پر قابو پانے اور ان کی جگہ مثبت خیالات اور احساسات لانے میں مدد دی ہے۔ 'پیمان' کا ماننا ہے کہ منتقلی تنازعہ میں عدم تشدد پر مبنی طریقوں کی حمایت کے ذریعے امن کو فروغ دیا جاتا ہے ۔ اس کا اطلاق ہر قسم کے تنازعات پر ہو سکتا ہے جن میں افراد کے درمیان ہونے والے روزمرہ کے جھگڑوں سے لے کر ایسے تنازعات شامل ہیں جو آبادیوں کو تقسیم کر دیتے ہیں۔
'پیمان ' کے تذکرے کا مقصد یہی تھا کہ ہم اپنے معاشرتی ڈھانچے میں انتہا پسندی کے خلاف موثر انداز میں مائنڈ سیٹ کو تبدیل کرنے کے لیے 'پیمان' کے طرز پر ایسی سرگرمیوں کی روک تھام میں معاون بن سکتے ہیں جو کسی بھی فرد میں انتہا پسندی کا سبب بننے کے لیے خود ساختہ توجہیات بنا لیتے ہیں۔ 'پیمان' کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر مسرت قدیم کا کہنا تھا کہ پورے خیبر پختونخوا اور فاٹا میں امن گروپوں کے ذریعے ۵۷ ہزار افراد تک رسائی ہے ۔ یہ امن گروپ بنیاد پرستی کا شکار ہونے والے نوجوانوں کو معاشرے میں دوبارہ ضم ہونے میں مدد دیتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا اور فاٹا کی80 فیصد کے لگ بھگ آبادی کو عسکریت پسندی کے سبب نفسیاتی مسائل کا سامنا ہے اور وہ انتہا پسندی کے خطرے سے دوچار ہیں ۔
بنیاد پرستی کی روک تھام اور ذہنی خیالات تبدیل کیے جانے والے نوجوانوں کو انتہا پسندانہ نظریے سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے پروگرام شروع کرنے چاہیے جو ملکی مدارس سمیت تمام تعلیمی اداروں میں بطور نصاب پڑھایا جائے اور اس کی باقاعدہ مانیٹرنگ بھی کی جائے ۔ علاوہ ازیں ان پروگراموں کا ارتکاز دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کو فن و ہنر کی تربیت دینے پر ہے تاکہ انھیں مالی امداد کے لیے دوسرے لوگوں اور امکانی طور پر عسکریت پسندوں پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
جن لوگوں کے سماجی بندھن کمزور ہوتے ہیں وہ جلد ہی انتہا پسندوں کے جھانسے میں آ جاتے ہیں حالانکہ انتہا پسند خود بھی قطعی تنہائی پسند نہیں ہوتے بلکہ ان کے مخصوص سماجی تعلقات ہوتے ہیں اور نئے بھرتی ہونے والے ریکروٹس کو بھی انھی راستوں پر گامزن کر دیتے ہیں مزید برآں نئے نوجوان بھرتی ہو کر دیگر ہم خیال نوجوانوں کے ساتھ اپنے سماجی تعلقات مضبوط کر لیتے ہیں۔
سماجی عدم تحفظ کی وجہ سے بھی نوجوانوں کو اپنا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ جس سے وہ شدت پسندی کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ کراچی میں سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگز میں شریک دہشت گردوں کی پہلی وجہ ان کے سماجی عدم تحفظ ہی ہے، پکڑے جانے والے زیادہ تر دہشت گردوں کا یہی ماننا تھا کہ ان کی سیاسی جماعت نے ان کی معاشی مسائل کی یقین دہانی کے نام پر ان کا استعمال کیا۔ ان کے نظریات میں لسانیت، قومیت یا مذہب و مسلک سے بڑھ کر سماجی عدم تحفظ شامل تھا۔
رشوت ستانی کا ماحول بھی اہم عوامل میں ایک ہے، ہر شعبہ ہائے زندگی میں رشوت ستانی کے وجود نے افراد کو مایوسی کے سمندر میں دھکیل دیا ہے اس طرح لوگ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کسی انتہا پسند گروپ کی وساطت سے اپنی محرومیوں کا ازالہ کریں۔ پاکستان میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور اسٹیبلشمنٹ کی دگرگوں حالت کے ساتھ ساتھ پولیس اور تھانوں، چیک پوسٹوں اور متحرک دستوں پر حملے، ان تمام کا آپس میں گہرا رشتہ نظر آتا ہے۔
پختون کلچر اپنے جارحانہ رویوں اور طور و اطوار میں پنجابی ثقافت سے بالکل مختلف ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں انتہا پسندی کے لیے خاصی کشش پائی جاتی ہے۔ مقامی قبائلی علاقوں کے رویوں میں تبدیلی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ قبائلی علاقوں میں کچھ حصے ایسے بھی ہیں جہاں بچوں کے کھیل تماشوں میں بھی جارحانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ اکثر دیکھا ہو گا کہ کھیل کود سے فارغ ہو کر گھر پلٹتے وقت بھی ایک دوسروں کو پتھر مارتے ہیں جس سے وہ زخمی ہو جاتے ہیں۔ پشتون ثقافت کے بارے میں خیال یہی کیا جاتا ہے کہ ان مین شدت پسندی کا عنصر موجود ہے لیکن ان کے ہیرو مثلا رحمان بابا اور خوش حال خان خٹک، خان عبدالغفار خان کو پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ شاید ان کا تعلق کسی اور سرزمین سے تھا۔ یہ تمام لوگ معتدل مزاج، محبت کرنے والے اور امن کے داعی تھے۔
سماجی دباؤ اور کچھاؤ بھی شدت پسندی کے حوالے سے بنیادی کردار کا حامل ہے۔ انتہا پسند، معاشرے کے ہاتھوں ستائے ہوئے لوگوں کو ڈھونڈتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں سازشوں اور افواہوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے پاکستانی ثقافت میں لکیر کے فقیر عناصر کی بھرمار ہے جنہوں نے مختلف گروہ تشکیل دے رکھے ہیں اور پھر یہ لوگ قومی اور بین الاقوامی مسائل پر ایک ہی رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔ مافوق الفطرت اور جادوئی خیالات کی معاشرے میں بھرمار ہے۔
انتہا پسند ان بشری کمزوریوں سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ادراک اور کم فہمی دوسرے گروپوں پر نکتہ چینی کا باعث رہی ہے کیونکہ یہ مختلف النظریات گروہ پاکستانی معاشرے میں گہرے دھنسے ہوئے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست اور باقی دنیا خصوصا مغرب کے متعلق خیالات، ثقافتی ارباب کی وجہ سے اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ عام پاکستانیوں کی رائے مغرب اور خصوصا سیاسی زعما کے متعلق انتہائی منفی سوچ کی آئینہ دار ہے اس قومی اور بین الاقوامی سوچ نے دانستہ یا نادانستہ طور پر کئی افراد کو انتہا پسندوں کے حلقہ اثر میں دھکیل دیا ہے۔
مواقعے اور آسائشیں تعمیری کاموں کی مناسبت سے نہ ہونے کے مترادف ہیں زیادہ تر آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے جہاں پر تعمیری سوچ کا سرے سے فقدان ہے جب کہ شہروں میں تخلیقی سرگرمیاں ناکافی ہیں لوگوں کی اکثریت ایسے علاقوں میں سفر کرنے سے قاصر ہے جہاں تمام سہولتیں میسر ہیں۔ مزید برآں تعمیری اور ثقافتی سر گرمیوں پر سرمایہ کاری کرنا فضول خرچی اور شاہانہ ٹھاٹھ سمجھا جاتا ہے۔
انتہا پسندوں کے گروپوں میں شمولیت سے ممبران کو وہ تمام مواقعے میسر ہوتے ہیں جو متبادل ردعمل سے کسی طور کم تصور نہیں ہوتا، نوجوان جو اپنے کسان اور ہنر مند والدین کے ساتھ فیکٹریوں اور دکانوں میں کام کرنے سے عاجز آ چکے ہوتے ہیں یا یکسانیت سے اکتا جاتے ہیں وہ ان تنظیموں سے وابستہ ہو کر شہر شہر گھومتے ہیں۔ ایڈونچر کرتے ہیں اس طرح ان کی تربیت اور کارروائیاں بھی انجام پاتی رہتی ہیں اور ان میں سے خاصی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے جو بھرتی ہونے کے بعد پہلی مرتبہ گھر سے دور کے اضلاع یا دیگر صوبوں کی راہ دیکھتے ہیں اور ان میں جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے۔
پاکستان ایک مسلم اکثریتی ملک ہے تمام اسلامی تہوار اور رسومات جوش و خروش سے مناتے ہیں مگر اصل اسلامی روح کا ان میں فقدان ہے۔ مملکت کی ذمے داری ہے کہ نوجوانوں کو منفی سرگرمیوں میں جانے سے مثبت طریق کار سے روکے۔