دہشت گردی کا سدباب

پشاور میں اسکول کے بچوں کا بہیمانہ قتل ایک ایسی دردناک اور وحشت ناک کارروائی تھی

ISLAMABAD:
پشاور میں اسکول کے بچوں کا بہیمانہ قتل ایک ایسی دردناک اور وحشت ناک کارروائی تھی جس نے پورے پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا اور جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے لیکن اسی کے ساتھ ساتھ اس ہولناک واقعے نے ہماری سیاسی قیادت کی بے بصیرتی اور اس نظام کے کھوکھلے پن کو بھی پوری طرح عیاں کر دیا ہے۔

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا

بے شک پوری قوم دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے یکسو نظر آتی ہے مگر کیا صرف انتظامی اقدامات اور پھانسیاں جن کے لیے بھی لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے، اس کی بیخ کنی کے لیے کافی ہیں؟ کیا یہ بوسیدہ نظام جس کی بنیادی بددیانتی، منافقت اور مفاداتی سیاست کی دلدل میں دھنسی ہیں اس عفریت کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جس پر ہمارے مستقبل کا فیصلہ ہوتا ہے۔

اسلام امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے اس نے ہمیشہ رواداری اخوت، بھائی چارے اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقوں کا ساتھ دیا جس نے تمام افراد کو معاشی طور پر برابری کے حقوق دیے اور رنگ و نسل و مذہب کی بنیاد پر ہر قسم کے استحصال کو حرام قرار دیا۔ معاشرے میں موجود تمام افراد کی عزت نفس کو تحفظ بخشا، قانون کی حکمرانی اور جواب دہی کے تصور کو حاکم و محکوم کے لیے لازمی قرار دیا۔ اسلام میں حاکم عوام کا خادم ان کی جان و مال کا محافظ اور عوامی خزانے کا امانت دار ہوتا ہے اور اس کی حکمرانی کا مقصد عوامی فلاح و بہبود کے لیے منصوبہ سازی اور اس کی کڑی نگرانی میں ان کو پایہ تکمیل تک پہنچانا اور بددیانت عمال حکومت کو کڑی سزاؤں کے ذریعے عوام دشمنی سے باز رکھنا ہوتا ہے۔

قائد اعظم کے ویلفیئر اسٹیٹ کے خواب ہنوز ادھورے ہیں ہمارے بے حس حکمرانوں نے جی بھر کے ان تمام فرائض اور قوانین کو پامال کیا جس پر عمل ہوتا تو آج ہم بھی دنیا کی ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتے۔ ہم آخر کس کے بل بوتے پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے کمربستہ ہیں جب کہ ہمارا عالم یہ ہے کہ ملک کی سول انتظامیہ برسر اقتدار طبقے کی وفادار خادم بنی ہوئی ہے میرٹ ناپید ہے لائق اور قائدے اور ضابطے کے پابند افسران کھڈے لائن لگے ہیں پولیس کے نظام سے کالی بھیڑوں کو نکالے بغیر اور ٹریننگ اور اسکریننگ کا سخت نظام اپنائے بغیر ان کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے بغلیں بجائی جا رہی ہیں۔

یہی حال دیگر انٹیلی جنس ایجنسیوں کا ہے عوام کا اپنے روزمرہ کاموں میں جس ادارے سے بھی سرکاری واسطہ پڑتا ہے ان میں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے اداروں کے سربراہ برسراقتدار گروہ کے عزیز و اقارب ہیں یا ان کے مفادات کے نگراں عوام کی خدمت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ احتساب کا کوئی موثر نظام نہیں جو ادارے اس کے ذمے دار ہیں وہاں حکمراں طبقے کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔

تعلیم کے میدان میں عجب افراتفری ہے تعلیم کے نام پر تجارت زوروں پر ہے، انگلش میڈیم، اردو میڈیم وغیرہ اور کوئی 30 ہزار مدرسے جس میں لاکھوں بچے کون سا نصاب پڑھ رہے ہیں اس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ قیام و طعام کے بندوبست کے طفیل جہاں غریب والدین اپنے بچوں کو مجبوراً داخل کرواتے ہیں اور ثواب دارین حاصل کرتے ہیں جہاں مختلف مکاتب فکر اپنی اپنی عاقبت سنوارنے میں مصروف ہیں۔ بیشتر سیاسی جماعتیں شخصیت پرستی اور مفاد پرستی کی بنیاد پر قائم ہیں پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں مذہب کو سیاست کے لیے اور سیاست کو مذہبی انداز میں پیش کرنے کی مختلف مکاتب فکر کو کھلی آزادی ہے۔


چنانچہ ہم دیکھتے ہیں یہ مذہبی جماعتیں /سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مکتبہ فکر کے مدارس کے معصوم طالب علموں کو بے دریغ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں حتیٰ کہ عبادت گاہوں کا بھی سیاسی استعمال بڑھتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کوئی عبادت گاہ بشمول غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے محفوظ نہیں اور آئے روز ان پر حملے ہوتے ہیں اور بے گناہ اپنی زندگیوں سے محروم ہوتے جاتے ہیں۔

عوام الناس کو قومیتوں، لسانی عصبیتوں اور مذہبی تفرقہ بازیوں میں اپنے مذموم مقاصد کے تحت تقسیم کر دیا گیا ہے۔ عدالتی نظام غریبوں کو حقیقی انصاف دینے سے محروم ہے کیونکہ غریب نہ تو وکلا کی بھاری بھرکم فیسیں ادا کرسکتا ہے اور نہ برس ہا برس انصاف کے حصول کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھا سکتا ہے جب کہ وہ دیکھتا ہے کہ بڑے بڑے کرپشن کے ذمے دار مہنگی مہنگی فیسوں والے بڑے وکیلوں کے ذریعے یا تو صاف بچ نکلتے ہیں یا مک مکا کرکے کچھ لے دے کر اپنی جان اور مال کا بڑا حصہ چھڑا لے جاتے ہیں۔ اسمبلیوں میں جو عوام کے نمایندے بیٹھے ہیں، ان کے بارے میں کروڑوں خرچ کر کے اربوں کمانے سے لے کر جعلی ڈگریوں اور بیرون ملک اثاثوں کا غلغلہ ہے مگر مجال ہے جو کسی کے کان پر جوں بھی رینگتی ہو۔

طبقہ اشرافیہ کے بیشتر ارکان نے جو خیر سے برسر اقتدار بھی ہیں بڑے بڑے کارٹیل بنا رکھے ہیں جو جب چاہیں شکر کی قیمت بڑھا دیں جب چاہیں سیمنٹ کو نایاب کرکے دس گنا منافع کمائیں یہی حال روز مرہ استعمال کی اشیا کا ہے۔ ٹیکس کا سارا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے اور طبقہ اشرافیہ بمعہ شعبہ زراعت کے اس سے مستثنیٰ ہے۔ اب ایسے میں اگر انتہا پسندی، عدم رواداری، عدم برداشت اور انتقامی جذبہ اور غصہ نہ پیدا ہو تو اور کیا ہو؟

عوام کے بہت بڑے طبقے کو جان بوجھ کر بہترین تعلیم سے محروم رکھا گیا۔ انھیں حقیقی اسلامی تعلیمات کی روح سے ناآشنا رکھا گیا۔ عوام کے ایک بڑے طبقے کو جہالت اور تفرقہ بازی کے اندھیروں میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ علماء سُو نے ہر دور حکومت میں اپنے مفادات سمیٹے اور اسلام کی روشن تعلیمات کو جاگیرداری اور سرمایہ داری کے تحفظ کے لیے مسخ کرکے پیش کیا اور اب بھی ہم انتہا پسندی اور دہشت گردی کے حقیقی اسباب و عوامل کو سمجھنے اور ان کو دور کرنے کی کسی بھی حقیقی کوشش سے دور نظر آتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ لیپا پوتی کرکے محض انتظامی اقدامات کے ذریعے اس کا قلع قمع کرلیں گے تو یہ ہماری بہت بڑی بھول ہے۔

ہماری خوبصورت تہذیبی روایات، ہماری معاشرتی قدریں، ہماری روشن خیال مذہبی اقدار اور تعلیمات آہستہ آہستہ اس انتہا پسندی سے اثر پذیر ہو رہی ہیں ہم اب بھی انھیں بچا سکتے ہیں اپنی صحیح فکری اور عملی جدوجہد کے ذریعے مگر ہمیں اس کے لیے اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ اس گلے سڑے نظام کی اوورہالنگ کے بغیر ہمیں کامیابی نہیں مل سکتی۔ ایک ہمہ گیر کڑے احتسابی عمل کے بغیر یہ ناممکن ہے اپنے انداز حکمرانی کو عوام الناس کے لیے ایک مخلص ایماندار اور خدمت خلق کی حامل اور محب وطن قیادت میں بدلنا ہو گا۔

یہ شہادت گاہ رہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے دو پہلو ہیں ایک انتظامی اور دوسرا نظریاتی۔ ہمیں اسلامی روشن خیالی، رواداری، محبت و اخوت اور معاشی برابری کے نظریاتی پہلو کو اجاگر کرنا ہوگا اور اس پر عمل بھی کرنا ہوگا اور یہی وہ کڑا امتحان ہے جس سے ہمیں گزرنا ہے۔
Load Next Story