حکومت کی عدم دلچسپی تعلیمی اداروں کے حفاظتی اقدامات کی رپورٹ پیش کرنے میں ناکام
سیکریٹری محکمہ تعلیم اور سیکریٹری داخلہ سندھ کو ذاتی طور پر پیش ہونے کا حکم،عدالت عالیہ کا شدید برہمی کا اظہار
دہشت گردی سے تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لیے حکومت کی عدم دلچسپی کا رویہ عدالت میں ثابت ہوگیا۔
سندھ ہائی کورٹ کے طلب کرنے کے باوجود بدھ کوحکومت سندھ کی جانب سے تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی، چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے حکومت سندھ کے اس رویے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری تعلیم کو 28 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے غیر سرکاری تنظیموں پائلر اورفشرفوک فورم کی جانب سے دائر کی گئی مشترکہ آئینی درخواست کی سماعت کی، فاضل بینچ نے بدھ کو جب سماعت شروع کی تو سرکاری وکیل نے رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید مہلت طلب کی، فاضل بینچ نے اس صورتحال پر برہمی کا اظہار کیا کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کی واردات کو ایک ماہ سے زائد وقت ہوچکا ہے لیکن حکومت سندھ کا رویہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوسکا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری تعلیم سمیت دیگرکونوٹس جاری کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کیلیے اقدامات اور فراہم کردہ پولیس کی نفری سے متعلق رپورٹس طلب کی گئی تھیں لیکن کسی کی جانب سے رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور پولیس نے تعلیمی اداروں کو خطرات کے لحاظ سے 4 حصوں میں تقسیم کرکے سیکیورٹی کے موثر اقدامات کیے ہیں جوحفاظتی اقدامات کی ایک مثال بھی ہے،سندھ میں صرف اعلانات کیے جارہے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مضر صحت گھی ،تیل ،مشروبات، ادویات اور کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کے حوالے سے دائر درخواست پر سیکریٹری صحت سندھ ،سیکریٹری خوراک اوروفاقی حکومت سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔ درخواست گزار رانا فیض الحسن نے موقف اختیار کیا ہے کہ شہر بھر میں مضرصحت گھی، تیل، دودھ، لیموں پانی کے ساشے، آٹا، چائے کی پتی اور دیگر اشیا کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے طلب کرنے کے باوجود بدھ کوحکومت سندھ کی جانب سے تعلیمی اداروں کی حفاظت کے لیے کیے گئے اقدامات کے بارے میں کوئی رپورٹ پیش نہیں کی گئی، چیف جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے حکومت سندھ کے اس رویے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری تعلیم کو 28 جنوری کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا۔
سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس مقبول باقر کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے غیر سرکاری تنظیموں پائلر اورفشرفوک فورم کی جانب سے دائر کی گئی مشترکہ آئینی درخواست کی سماعت کی، فاضل بینچ نے بدھ کو جب سماعت شروع کی تو سرکاری وکیل نے رپورٹ جمع کرانے کے لیے مزید مہلت طلب کی، فاضل بینچ نے اس صورتحال پر برہمی کا اظہار کیا کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کی واردات کو ایک ماہ سے زائد وقت ہوچکا ہے لیکن حکومت سندھ کا رویہ اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوسکا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری تعلیم سمیت دیگرکونوٹس جاری کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کیلیے اقدامات اور فراہم کردہ پولیس کی نفری سے متعلق رپورٹس طلب کی گئی تھیں لیکن کسی کی جانب سے رپورٹ جمع نہیں کرائی گئی، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ لاہور پولیس نے تعلیمی اداروں کو خطرات کے لحاظ سے 4 حصوں میں تقسیم کرکے سیکیورٹی کے موثر اقدامات کیے ہیں جوحفاظتی اقدامات کی ایک مثال بھی ہے،سندھ میں صرف اعلانات کیے جارہے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے مضر صحت گھی ،تیل ،مشروبات، ادویات اور کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ کے حوالے سے دائر درخواست پر سیکریٹری صحت سندھ ،سیکریٹری خوراک اوروفاقی حکومت سے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔ درخواست گزار رانا فیض الحسن نے موقف اختیار کیا ہے کہ شہر بھر میں مضرصحت گھی، تیل، دودھ، لیموں پانی کے ساشے، آٹا، چائے کی پتی اور دیگر اشیا کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔