مبارک ہو مبارک ہو۔۔۔ پٹرول مل گیا
حکمران اعلیٰ وارفع شخصیت کے مالک نہیں کہ قوم اُن سے اپنے حقوق کے بارے مٰں سوال نہ کرسکے۔
LONDON:
مبارک ہو۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔ یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے ایک لمحے کے لیے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی کیوں کہ ہجوم میں اکثریت مسکرانے والوں کی ہی تھی۔
لیکن چند چہروں پر خفگی کے آثار بھی نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔ کیوںکہ شاید انہیں اس شخص سے کچھ حسد محسوس ہونے لگا تھا جسے مبارکباد دی جا رہی تھی اور یقیناًحسد ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ اس شخص نے معرکہ ہی ایسا سر کیا تھا۔ مبارکبادیں سمیٹتا ہوا وہ شخص فخر سے سینہ تان کر ہجوم سے نکلا اور فاتحانہ انداز میں نظروں سے اوجھل ہو گیا اور باقی ہجوم اصل مسئلے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
یہ نوجوان جو کچھ دیر پہلے پورا 12 لیٹر پٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا کیوں کہ اس ہجوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے کسی کو ایک بوتل سے زیادہ پٹرول لے جاتے ہوئے دیکھا ہو اس لیے شاید وہ نوجوان ہجوم کے نزدیک مبارکباد کا مستحق ضرور تھا۔ ویسے بھی اس بحرانی کیفیت میں پٹرول کا مل جانا یقیناًایک ایسا عمل تھا جو قابل تعریف اور بہادری کے مصداق تھا۔
لیکن نہ جانے کیوں افسوس نے مسکراہٹ پر غلبہ پا لیا۔ ناجانے ہم کیسی قوم ہیں جو اپنے حقوق بھی قطاروں میں لگ کر حاصل کرنے پر خوشی و طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ ہم میں شاید سوال کرنے کی طاقت نہیں رہی یا ہم نے منافقت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا ہے جس کی وجہ سے ہم چشم پوشی کو ہی سب سے بہترین اور کارگر ہتھیار سمجھتے ہیں۔ ہجوم پیسے ہاتھ میں لیے چکراتا پھرتا ہے لیکن پٹرول اسے نہیں ملتا۔ گیس کے بل باقاعدگی کے ساتھ ہرمہینے ہمیں موصول ہورہے ہیں لیکن گیس کی فراہمی میں باقاعدگی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ماہانہ بجلی کے بلوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن ہم خاموشی سے بل بھی جمع کرواتے ہیں اور حکومت وقت کو گالی بھی دیتے ہیں۔ ہم یہ سوچنا گوارا تک نہیں کرتے کہ گالی سے حکومت کا نہ کچھ بگڑے گا نہ ہی حقوق کے حصول میں مدد ملے گی۔ یہ تو صرف اندر کا غصہ ہے جو گالی کی صورت میں باہر آجاتا ہے، اور ایسا کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12گھنٹے سے بھی تجاوز کر گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان سیاستدانوں کا گریباں کیوں نہیں پکڑتے جو ڈیم بننے کے نام پر ہی لاشیں بچھا دینے کا واویلا شروع کر دیتے ہیں۔ میرے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ پٹرول کا موجودہ بحران اگر ایک ہفتہ مزید جاری رہا تو قوم اشرافیہ یا برائے نام اشرافیہ کے محلات کو آ گ لگا دیں گے۔ میرے قہقے پر انہوں نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور ہنسنے کی وجہ دریافت کی۔ جواباً عرض کیا کہ بزرگوار! آپ کس قوم کی بات کررہے ہیں؟ اُس قوم کی جو ابھی تک قوم بن ہی نہیں پائی؟ کیا اس قوم میں صلاحیت ہے کہ یہ حکومت وقت کا گریباں پکڑسکے؟ کیا اس قوم میں اتنی ہمت ہے کہ یہ نااہلی کے بت بنے وزراء و مشیران کو سرِ بازار روک کر پوچھیں کہ وہ کون سی ایسی جمہوریت کو سنبھالے بیٹھے ہیں جس میں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات کے لیے مجھ سمیت ہر ذی شعور کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔ ذی شعوراس لیے کہ جو لوگ سیاستدانوں کے کہے کو فرمان سمجھنے کے عادی ہیں ان کا حال اس بدمست ہاتھی کا سا ہے جو ایک ہی سمت میں دوڑے چلا جاتا ہے بناء سوچے کہ شاید آگے گہری کھائی ہی ہو۔
ہم بطور قوم اقبال کے کاغذی شاہین ہیں۔ کیوں کہ ہم قطار پٹرول کے لیے تو بناسکتے ہیں لیکن ایک ایسا ہاتھوں کا دائرہ نہیں بنا سکتے جس میں حکمرانوں کو جوابدہ بنایا جاسکے۔ ہم کسی کے کچھ کہہ دینے کو تو اپنی ذلت تصور کرتے ہیں لیکن گھنٹوں گرم سرد سے بے نیاز قطار میں کھڑے ہونے کو اپنی ذلت تصور نہیں کرتے۔ موجودہ بحران میں تو ہم اجتماعی ذلت سہہ رہے ہیں اور پھر بھی حکمران ہمارے لیے دودھ کے دھلے ہی ہیں۔ پٹرول، بجلی ، گیس، پانی وغیرہ اور اس کے علاوہ بھی ہر چیز کی قلت صرف عوام کے لیے ہی کیوں؟ کیا پٹرول کی موجودہ قلت سیاستدانوں کو متاثر کرپائی؟ کیا ان کی گاڑیاں رکیں؟ کیا ان کے روزمرہ کے معاملات رکے؟ اگر نہیں تو کیا ان کے گھروں میں سے پٹرول ابل پڑا ہے؟ آخر کیوں ہم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ جعلی ڈگریاں ہم پہ راج کر رہی ہیں اور اصل ڈگریاں قطاروں میں کھڑی ہیں۔
وزیر خزانہ صاحب کے بقول پٹرول بحران بھی موجودہ حکومت کے خلاف سازش ہے۔ سازشوں کا واویلا کرنے سے بہت بہتر ہوتا اگر وزیر موصوف اپنی قابلیت کے مطابق صرف IMF سے قرضوں کی اگلی قسط کے معاملات طے کرتے کیوںکہ عوام کے مفاد کی سوچ شاید وہ واحد قابلیت ہے جو کسی وزیر یا مشیر کے پاس نہیں ہے۔ پٹرول کا بحران حکومت کے خلاف سازش ہے۔ دھرنا دینا حکومت گرانے کی سازش ہے۔ پارلیمنٹ کے سامنے آ کر اپنا حق مانگنا جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ وزراء کے خلاف کرپشن کیسز سیاسی جماعت کے خلاف سازش ہیں۔ کسی رشوت خور کو سامنے لانا اس کی ذات کے خلاف سازش ہے۔ کیا کوئی ایسی سازش نہیں ہوسکتی جس سے عوام کو اس کے بنیادی حقوق ہی مل جائیں؟ کیا کسی ایسی سازش کے تانے بانے نہیں بنے جاسکتے جس سے عوام کو بلا تعطل بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے؟
لیکن ایسی سازش کیوں ہوگی جس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔ حکمرانوں کے گھروں میں چراغاں ہے تو وہ اپنے چراغوں کا رخ اندھیروں کی طرف کرنا کیوں کر گوارا کریں گے؟
پٹرول بحران تو شاید کچھ دنوں تک ختم ہونے کی نوید مل جائے۔ لیکن بطور قوم ہم جس بحران کا شکار ہیں اس کے خاتمے کی پالیسی انفرادی سطح پر بنے گی تو ہی اس سے چھٹکارا مل پائے گا۔ ہیجان میں مبتلا ہجوم کو ایک قوم بننے کے لیے اپنے حقوق کا نہ صرف ادراک کرنا ہوگا بلکہ ان کو حاصل کرنے لیے راستہ بھی چننا ہوگا۔
حکمران اعلیٰ وارفع شخصیت کے مالک نہیں ہیں جن سے سوال نہ ہوسکے۔ جن سے اپنے حقوق اور ان کے سیاسی وعدوں کے بارے میں پوچھ نہ ہوسکے۔سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ احتساب کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں لیکن جب اصل احتساب عوام کا حکمرانوں سے شروع ہوجائے گا اُس وقت یہ ہجوم واقعی ایک قوم بن جائے گا۔
لیکن چھوڑیں اِن مسائل کو اور متوجہ ہوں کیوں کہ ایک اور منچلا پٹرول مل جانے کی خوشی میں جشن منا رہا ہے۔ مبارک ہو۔ مبارک ہو۔ پٹرول مل گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
مبارک ہو۔۔۔ مبارک ہو۔۔۔ یہ وہ الفاظ تھے جنہوں نے ایک لمحے کے لیے میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھیر دی کیوں کہ ہجوم میں اکثریت مسکرانے والوں کی ہی تھی۔
لیکن چند چہروں پر خفگی کے آثار بھی نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے تھے۔ کیوںکہ شاید انہیں اس شخص سے کچھ حسد محسوس ہونے لگا تھا جسے مبارکباد دی جا رہی تھی اور یقیناًحسد ہونا بھی چاہیے تھا کیوں کہ اس شخص نے معرکہ ہی ایسا سر کیا تھا۔ مبارکبادیں سمیٹتا ہوا وہ شخص فخر سے سینہ تان کر ہجوم سے نکلا اور فاتحانہ انداز میں نظروں سے اوجھل ہو گیا اور باقی ہجوم اصل مسئلے کی طرف متوجہ ہو گیا۔
یہ نوجوان جو کچھ دیر پہلے پورا 12 لیٹر پٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا کیوں کہ اس ہجوم میں کوئی ایسا نہ تھا جس نے کسی کو ایک بوتل سے زیادہ پٹرول لے جاتے ہوئے دیکھا ہو اس لیے شاید وہ نوجوان ہجوم کے نزدیک مبارکباد کا مستحق ضرور تھا۔ ویسے بھی اس بحرانی کیفیت میں پٹرول کا مل جانا یقیناًایک ایسا عمل تھا جو قابل تعریف اور بہادری کے مصداق تھا۔
لیکن نہ جانے کیوں افسوس نے مسکراہٹ پر غلبہ پا لیا۔ ناجانے ہم کیسی قوم ہیں جو اپنے حقوق بھی قطاروں میں لگ کر حاصل کرنے پر خوشی و طمانیت محسوس کرتے ہیں۔ ہم میں شاید سوال کرنے کی طاقت نہیں رہی یا ہم نے منافقت کا ایسا لبادہ اوڑھ لیا ہے جس کی وجہ سے ہم چشم پوشی کو ہی سب سے بہترین اور کارگر ہتھیار سمجھتے ہیں۔ ہجوم پیسے ہاتھ میں لیے چکراتا پھرتا ہے لیکن پٹرول اسے نہیں ملتا۔ گیس کے بل باقاعدگی کے ساتھ ہرمہینے ہمیں موصول ہورہے ہیں لیکن گیس کی فراہمی میں باقاعدگی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ماہانہ بجلی کے بلوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے لیکن ہم خاموشی سے بل بھی جمع کرواتے ہیں اور حکومت وقت کو گالی بھی دیتے ہیں۔ ہم یہ سوچنا گوارا تک نہیں کرتے کہ گالی سے حکومت کا نہ کچھ بگڑے گا نہ ہی حقوق کے حصول میں مدد ملے گی۔ یہ تو صرف اندر کا غصہ ہے جو گالی کی صورت میں باہر آجاتا ہے، اور ایسا کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا۔
لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12گھنٹے سے بھی تجاوز کر گیا ہے لیکن اس کے باوجود ہم ان سیاستدانوں کا گریباں کیوں نہیں پکڑتے جو ڈیم بننے کے نام پر ہی لاشیں بچھا دینے کا واویلا شروع کر دیتے ہیں۔ میرے ایک بزرگ کہتے ہیں کہ پٹرول کا موجودہ بحران اگر ایک ہفتہ مزید جاری رہا تو قوم اشرافیہ یا برائے نام اشرافیہ کے محلات کو آ گ لگا دیں گے۔ میرے قہقے پر انہوں نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور ہنسنے کی وجہ دریافت کی۔ جواباً عرض کیا کہ بزرگوار! آپ کس قوم کی بات کررہے ہیں؟ اُس قوم کی جو ابھی تک قوم بن ہی نہیں پائی؟ کیا اس قوم میں صلاحیت ہے کہ یہ حکومت وقت کا گریباں پکڑسکے؟ کیا اس قوم میں اتنی ہمت ہے کہ یہ نااہلی کے بت بنے وزراء و مشیران کو سرِ بازار روک کر پوچھیں کہ وہ کون سی ایسی جمہوریت کو سنبھالے بیٹھے ہیں جس میں دو وقت کی روٹی کا حصول بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے؟ ان تمام سوالوں کے جوابات کے لیے مجھ سمیت ہر ذی شعور کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا۔ ذی شعوراس لیے کہ جو لوگ سیاستدانوں کے کہے کو فرمان سمجھنے کے عادی ہیں ان کا حال اس بدمست ہاتھی کا سا ہے جو ایک ہی سمت میں دوڑے چلا جاتا ہے بناء سوچے کہ شاید آگے گہری کھائی ہی ہو۔
ہم بطور قوم اقبال کے کاغذی شاہین ہیں۔ کیوں کہ ہم قطار پٹرول کے لیے تو بناسکتے ہیں لیکن ایک ایسا ہاتھوں کا دائرہ نہیں بنا سکتے جس میں حکمرانوں کو جوابدہ بنایا جاسکے۔ ہم کسی کے کچھ کہہ دینے کو تو اپنی ذلت تصور کرتے ہیں لیکن گھنٹوں گرم سرد سے بے نیاز قطار میں کھڑے ہونے کو اپنی ذلت تصور نہیں کرتے۔ موجودہ بحران میں تو ہم اجتماعی ذلت سہہ رہے ہیں اور پھر بھی حکمران ہمارے لیے دودھ کے دھلے ہی ہیں۔ پٹرول، بجلی ، گیس، پانی وغیرہ اور اس کے علاوہ بھی ہر چیز کی قلت صرف عوام کے لیے ہی کیوں؟ کیا پٹرول کی موجودہ قلت سیاستدانوں کو متاثر کرپائی؟ کیا ان کی گاڑیاں رکیں؟ کیا ان کے روزمرہ کے معاملات رکے؟ اگر نہیں تو کیا ان کے گھروں میں سے پٹرول ابل پڑا ہے؟ آخر کیوں ہم یہ سوچنا گوارا نہیں کرتے کہ جعلی ڈگریاں ہم پہ راج کر رہی ہیں اور اصل ڈگریاں قطاروں میں کھڑی ہیں۔
وزیر خزانہ صاحب کے بقول پٹرول بحران بھی موجودہ حکومت کے خلاف سازش ہے۔ سازشوں کا واویلا کرنے سے بہت بہتر ہوتا اگر وزیر موصوف اپنی قابلیت کے مطابق صرف IMF سے قرضوں کی اگلی قسط کے معاملات طے کرتے کیوںکہ عوام کے مفاد کی سوچ شاید وہ واحد قابلیت ہے جو کسی وزیر یا مشیر کے پاس نہیں ہے۔ پٹرول کا بحران حکومت کے خلاف سازش ہے۔ دھرنا دینا حکومت گرانے کی سازش ہے۔ پارلیمنٹ کے سامنے آ کر اپنا حق مانگنا جمہوریت کے خلاف سازش ہے۔ وزراء کے خلاف کرپشن کیسز سیاسی جماعت کے خلاف سازش ہیں۔ کسی رشوت خور کو سامنے لانا اس کی ذات کے خلاف سازش ہے۔ کیا کوئی ایسی سازش نہیں ہوسکتی جس سے عوام کو اس کے بنیادی حقوق ہی مل جائیں؟ کیا کسی ایسی سازش کے تانے بانے نہیں بنے جاسکتے جس سے عوام کو بلا تعطل بجلی و پٹرولیم مصنوعات کی فراہمی یقینی بنائی جاسکے؟
لیکن ایسی سازش کیوں ہوگی جس سے عوام کو فائدہ ہوگا۔ حکمرانوں کے گھروں میں چراغاں ہے تو وہ اپنے چراغوں کا رخ اندھیروں کی طرف کرنا کیوں کر گوارا کریں گے؟
پٹرول بحران تو شاید کچھ دنوں تک ختم ہونے کی نوید مل جائے۔ لیکن بطور قوم ہم جس بحران کا شکار ہیں اس کے خاتمے کی پالیسی انفرادی سطح پر بنے گی تو ہی اس سے چھٹکارا مل پائے گا۔ ہیجان میں مبتلا ہجوم کو ایک قوم بننے کے لیے اپنے حقوق کا نہ صرف ادراک کرنا ہوگا بلکہ ان کو حاصل کرنے لیے راستہ بھی چننا ہوگا۔
حکمران اعلیٰ وارفع شخصیت کے مالک نہیں ہیں جن سے سوال نہ ہوسکے۔ جن سے اپنے حقوق اور ان کے سیاسی وعدوں کے بارے میں پوچھ نہ ہوسکے۔سیاستدان ایک دوسرے کے ساتھ احتساب کا کھیل کھیلتے رہتے ہیں لیکن جب اصل احتساب عوام کا حکمرانوں سے شروع ہوجائے گا اُس وقت یہ ہجوم واقعی ایک قوم بن جائے گا۔
لیکن چھوڑیں اِن مسائل کو اور متوجہ ہوں کیوں کہ ایک اور منچلا پٹرول مل جانے کی خوشی میں جشن منا رہا ہے۔ مبارک ہو۔ مبارک ہو۔ پٹرول مل گیا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔