ISLAMABAD:
دنیا میں کوئی بھی معاشرہ برائی سے پاک نہیں، جہاں ایک جانب کسی بھی معاشرے میں اچھائی کا بول بالا ہوتا ہے تو دوسری جانب وہاں برائی کی جڑیں بھی کافی مضبوط ہوتی ہیں۔
لیکن ریاست اور معاشرے میں برائیوں کے خاتمے کے لئے اس ریاست کے سکیورٹی اداروں پر ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان برائیوں کے خاتمے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں۔ اس امر کی خاطر ہی اس ریاست کے سکیورٹی اداروں کے اہلکار، آفیسرز، اپنی جانیں تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔
یقینناً ملک وقوم کی خاطر جان قربان کرنا بڑے اعزاز بات ہے۔ ایسا ہی جذبہ ہمارے ملک کی پولیس اورسکیورتی اداروں کے اہلکاروں اور افسران میں موجود ہے۔ جب بھی ملک و قوم کو اِن کی ضرورت پڑی ہےانہوں نے ملک کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔ لیکن ملک وقوم کی خاطر شہید ہونے والوں کو یہ خبر کبھی نہ تھی کہ ان کی شہدات کے بعد اُن کے اداروں میں غفلت اور نااہلی کا یہ عالم ہوگا کہ وہ ان کے قاتلوں کو بھی پکڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
جی ہاں، یہ میں کہیں اور کی نہیں مملکت خداداد پاکستان کی بات کررہا ہوں۔ اِس کے صوبے سندھ میں جہاں پولیس، سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی قربانیاں بہت زیادہ ہیں۔ یہ صوبہ سندھ ہے جہاں کا پولیس ادارہ اس حد تک سست روی کا شکار ہوچکا ہے کہ وہ اپنے ہی پیٹی بند شہید اہلکاروں کے قاتلوں کو پکڑنے میں ناکام ثابت ہورہا ہے۔ اگر ماضی کے اعداد وشمار کو ایک طرف رکھ کر صرف سال 2014ء کی بات کی جائے تو 144 افسران واہلکار شہید ہوئے اور 112 مقدمات درج کئے گئے۔ محکمہ پولیس کی ستم ظریفی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 112 کیسز میں سے57 کیسز کو اے کلاس قرار دے کر تفتیش بند کر دی گئی جبکہ ان کیسز کے بارے میں اعلی افسران کا کہنا ہے کہ یہ کیسز اس لئے بند کیے گئے کیونکہ ان میں تو کوئی گواہ یا ثبوت ہی ہمارے ہاتھ نہیں لگ سکا۔
اگر محکمہ پولیس کا کہنا یہ ہو کہ کوئی ثبوت یا گواہ ہی نہیں تو پھر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے پولیس افسران آخر پولیس کے محکمہ میں کر کیا رہے ہیں۔ اگر کسی بھی کیس کو پوری توجہ کے ساتھ پولیس افسران حل کرنے کی کوشش کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ گواہ یا ثبوت نہ ملیں۔ یہ حال صرف سندھ پولیس کا ہی نہیں بلکہ ملک کے دیگر صوبوں میں بھی محکمہ پولیس کے افسران کی یہی کارکردگی ہے جہاں سالوں سے کیسز، افسران کی توجہ کے منتظر ہیں۔
محکمہ پولیس کی یہ کارکردگی دیکھ کر خیال آتا ہے کہ جب یہ اپنے ہی شہید افسران واہلکاروں کے قاتلوں کو نہ پکڑسکیں تو پھر عام شہری پولیس سے کیا اُمیدیں وابستہ کرنے کے مجاز ہونگے؟ اس صورت حال میں عام شہری تو یہی محسوس کرے گا کہ نہ تو اس ریاست میں اس کی جان محفوظ ہےاور نہ ہی اس کو انصاف کی کوئی توقع رکھنی چائیے۔
کوئی بھی شہید اپنی جان تو ملک و قوم کی خاطر قربان کردیتا ہےلیکن اس دنیا میں ان شہیدوں کے ورثاء کی صورت میں ہمارے سامنے ایسی نشانیاں موجود ہوتی ہیں جو ہمیشہ ہم سے انصاف کا تقاضا کرتی ہیں لیکن افسوس یہاں شاید تمام کہانی شہادت پر آکر ختم ہوجاتی ہے۔ بس یہاں کوئی شہید ہوا، اُس کے لئے دعا کردی، اُس کے لئے دو بول بولے گئے اور سلامی پیش کرنے کے ساتھ ہی قصہ ختم۔ یہ تمام حالات دیکھ کر ذہن میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا شہیدوں کے ساتھ انصاف نہ برتنے والے زندہ لوگوں کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش آ سکتے ہیں؟
کسی بھی سکیورٹی ادارے کا اہلکار جب شہید ہوتا ہے تو جہاں وہ ایک جانب ہمیں شہدات کا سبق دے کر جاتا ہے تو دوسری جانب ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چائیے کہ شہیدوں کے ورثاء اس ملت سے اپنے شہیدوں کے لیے انصاف کی بھی اُمید رکھتے ہیں۔ محکمہ پولیس کوئی بھی جواز پیش کرے لیکن ہمیں ایک بات ضرور ذہنوں میں زیر نشین رکھنی چائیے کہ اگر ہمارے ملک میں سکیورٹی اداروں کی یہی کارکردگی رہی تو وہ دن دور نہیں جب کوئی بھی اہلکار شہادت سے پہلے ہزار بار ضرور سوچے گا کہ کیا اس کی شہادت کے بعد اس کے خون کرنے والوں کو پکڑا جائے گا؟ کہیں آج کی غفلت یہ رویہ جنم تو نہیں دے رہی کہ آنے والے کل میں ہمیں انصاف نام کی کوئی چیز میسر نہیں ہوگی۔ محکمہ پولیس کے افسران کو اپنے محکمے کے شہیدوں کے قاتلوں فوراً گرفتار کرنا چائیےاور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا چائیے تاکہ افسران اور اہلکاروں میں نیا جذبہ جنم لے۔ لیکن اگر یوں ہی پولیس کے محکمے کی غفلت جاری رہی تو پھر کل کوئی پولیس کے محکمے میں جانے کے بھی تیار نہیں ہوگا۔
یہاں شہیدوں کے قاتلوں کی گرفتاری اور کیسز پر بھرپور توجہ کی بات صرف اس لئے کی جارہی ہے کہ کم از کم شہیدوں کے ورثاء کو دلی سکون تو مل جائےاور پھر نئے شہادت کا جذنہ لے کر آنے والوں کو یہ تسلی تو ہو کہ ان کی شہدات کے بعدان کے خون کا بدلہ لینے والے ملک میں موجود ضرور ہوں گے۔اگر ہمارے محکمہ پولیس میں بیٹھے افسران یہ ہی نوازش کردیں تو کافی ہوگی۔ اِس لیے اب بھی وقت ہے کہ پولیس کے ادارے کی کارکردگی کو بہتر بنالیا جائے وگرنہ یہاں قربانی دینے والے ناپید ہوجائیںگے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔