ٹپ ٹپ

انسان کے دماغ میں پیدا ہونے والی ہرخواہش، ہرتمنا کے پیچھے کسی نہ کسی محرومی کی ٹپ ٹپ ہوتی ہے۔


انسان کے دماغ میں پیدا ہونے والی ہرخواہش، ہرتمنا کے پیچھے کسی نہ کسی محرومی کی ٹپ ٹپ ہوتی ہے۔ فوٹو شٹر اسٹاک

عرب کے صحرائوں میں پانچ دس منٹ مسلسل بارش ہوجانا بھی ایک عجوبہ سا لگتا ہے، لیکن اس بار تو کمال ہی ہو گیا۔ دو دن سے مسلسل بارش ہورہی ہے اور کمرے سے باہر جاتے ہوئے گرم لباس پہننے کی حاجت بھی محسوس ہونے لگی ہے۔

صبح کے سات بجے کا وقت ہے اور باہر بارش ہورہی ہے۔ یک دم کمبل کے اندر سے اُس نے کہا یار یہ اے سی آن کردو۔ سب نے اپنے اپنے کمبل سے منہ نکالا اور یکبارگی میں پوچھا اے سی؟؟ وہ کہنے لگا ہاں اے سی۔ مگر اتنی ٹھنڈ میں اے سی کیوں؟ میں ٹھنڈ یا گرمی کی وجہ سے اے سی لگانے کا نہیں کہہ رہا بلکہ یہ جو باہر چھت سے بارش کا پانی ٹپک رہا ہے، اس کی ٹپ ٹپ سے میں سو نہیں پارہا۔ مگراے سی کا شور تو اس ٹپ ٹپ سے زیادہ ہے۔ ہاں اسی لئے تو کہ رہا ہوں کہ اے سی کے شور میں یہ ٹپ ٹپ کی آواز نہیں آئے گی اور میں سوجاؤں گا۔ یہ عجیب منطق سن کر سب چپ ہو گئے، اے سی آن کردیا، اے سی کا بڑا شور ٹپ ٹپ کے چھوٹے شور کو کھا گیا اور وہ سو گیا۔

ہم سب کی زندگی کے کسی نہ کسی کونے میں ایک ٹپ ٹپ ہورہا ہوتا ہے، جو ہمیں تنگ کرتا ہے۔ یہ ٹپ ٹپ کبھی ضمیر کی کوئی خلش ہوتی ہے، کبھی کوئی محرومی ہوتی ہے، کبھی کوئی ندامت ہوتی ہے، کبھی کوئی احساسِ گناہ ہوتا ہے، کبھی کسی ذلت کا احساس ہوتا ہے، کبھی کسی محرومی کی چبھن ہوتی ہے، کبھی کسی کو محروم کردینے کا دکھ ہوتا ہے، کبھی کچھ چھن جانے کا درد ہوتا ہے، کبھی کسی اپنے کے ہاتھوں دھوکہ کھاجانے کی اذیت ہوتی ہے، کبھی وقت پر فیصلہ نہ کر پانے کی خلش اور کبھی پیچھے رہ جانے کا دکھ۔

ہرانسان کی ذات کے تاریک گوشوں میں یہ ٹپ ٹپ جاری ہوتا ہے، جو کہ باہر والوں کو سنائی نہیں دیتا۔ ہرانسان یہ ٹپ ٹپ اپنے دل پر سہہ رہا ہوتا ہے۔ جب یہ انسانی نفسیات میں جاری ٹپ ٹپ حد سے تجاوز کرجاتا ہے تو ہم عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتے ہیں۔ جو لوگ کمزور اعصاب کے مالک ہوتے ہیں وہ اس ٹپ ٹپ کے سامنے بے بس ہو کر نفسیاتی ڈاکڑوں اور دوائیاں بنانے والی کمپنیوں کے کاروبار کو فائدہ پہنچانے لگتے ہیں۔

جبکہ ذرا مضبوط اعصاب کے لوگ بھی اس ٹپ ٹپ کو نہیں سہہ پاتے اور وہ اس آواز کو دبانے کے لئے مختلف طریقے ڈھونڈ لیتے ہیں۔ کوئی بڑی کامیابی، کوئی بڑی ڈگری، کوئی بڑا کاروبار، کوئی بڑی گاڑی، بڑا گھر، کوئی خوب رو جیون ساتھی، کوئی برانڈڈ چیزیں، کوئی طاقت کے حصول، کوئی کاسمیٹک سرجری، کوئی دھکتے جسموں اور بے قابو جذبوں کوخرید کر، کوئی لائف اسٹائل اور کوئی منشیات کے شور میں پنی ذات کے اندر موجود اس ٹپ ٹپ کو خاموش کرانے کے چکر میں ہوتا ہے۔

انسان کے دماغ میں پیدا ہونے والی ہرخواہش، ہرتمنا کے پیچھے کسی نہ کسی محرومی کی ٹپ ٹپ ہوتی ہے۔ جب کسی محرومی کی ٹپ ٹپ ناقابل برداشت ہو جاتی ہے تو اُس کو خاموش کرانے کے لئے ہم کوئی نہ کوئی مقصد گھڑ لیتے ہیں۔ کبھی وہ مقصد دولت ہوتی ہے، کبھی کوئی مرد و عورت، کبھی شہرت اور کبھی طاقت کا حصول۔

ہم جب کسی مقصد کے پیچھے جارہے ہوتے ہیں، کچھ حاصل کرنے کی لگن میں ہوتے ہیں، تو ہماری سوچ ہوتی ہے کہ اگر میں نے یہ کام کرلیا تو مجھے راحت مل جائے گی، میری عزت میں اضافہ ہوگا، مجھے سکون ملے گا، میر ی زندگی آسان ہوجائے گی، مگر ہر مقصد حاصل ہوجانے کے بعد بے معنی لگنے لگتا ہے۔ دراصل بارش کے پانی کی ٹپ ٹپ کی بہ نسبت انسانی دماغ میں جاری ٹپ ٹپ مختلف ہوتی ہے، انسانی نفسیات کے اندر موجود محرومی کے احساس کا ٹپ ٹپ خود کو وقت کے ساتھ ساتھ ایڈجسٹ کرتا رہتا ہے۔ ہم جتنا کامیابیوں کا شور زیادہ کرتے ہیں محرومی کے احساس کا یہ ٹپ ٹپ بھی اپنی ٹیون ہائی کرتا رہتا ہے۔

اکثر بڑی کامیابیاں حاصل کرنے والے آخرنشے کے عادی ہوجاتے ہیں، خودکشی کرلیتے ہیں، نفسیاتی بیماربن کر شیخی باز بن جاتے ہیں، اپنی کامیابیوں کا اشتہار بن کر لوگوں کو ہروقت اپنا قصہ سناتے ہیں اور نیند کی گولیاں کھا کرسوتے ہیں یا پھرخود کو فلاحی کاموں کے لئے مختص کردیتے ہیں، سب کچھ خیرات میں بانٹ دیتے ہیں، 'اچھا' انسان بننے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی عبادت گاہ کے اونچے ستون کے ساتھ ٹیک لگا کرموت کرانتظار کرتے ہیں۔ یہ دراصل اس بے بسی کا بلواسطہ اعلان ہوتا ہے کہ میں لمبی دوڑ اور کامیابیوں کے باوجود سکون حاصل نہیں کرپایا اور محرومیوں کی ٹپ ٹپ نے مجھے بے بس کر دیا۔

سخت سردی کے باجود کمرے میں اے سی چل رہا ہے، مگر پھر بھی اس ٹپ ٹپ کی آواز تیزی سی جاری ہے۔ کیا آپ کو اس ٹپ ٹپ کی آواز آرہی ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں