آئی ڈی پیز کی واپسی …خوش آیند اقدام
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں کے عوام نے بے مثال قربانیاں دی ہیں۔
لاہور:
وفاقی وزیر برائے ریاستیں و سرحدی امور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے گزشتہ روزپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے آئی ڈی پیز کی گھروں کو واپسی اور بحالی کا عمل آیندہ ماہ فروری کے دوسرے ہفتے سے شروع ہو جائے گا جو ایک سال میں مکمل ہوگا،پاک آرمی اور گورنر خیبر پختونخوا جلد باضابطہ طور پر متاثرین کی واپسی کاشیڈول جاری کرینگے جن علاقوں میں آپریشن مکمل ہوگیاہے وہاںسب سے پہلے متاثرین کوواپس بھجوایا جائیگا' 20 لاکھ متاثرین قبائلی عوام کی واپسی کے لیے فوری طورپر 100ارب روپے درکار ہیں، افغان مہاجرین کو معاہدے کے مطابق31 دسمبر 2015ء تک پاکستان میں قیام کی مہلت دی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ مقررہ تاریخ تک افغان مہاجرین وطن واپس چلے جائیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں کے عوام نے بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ قبائلی علاقوں کے عوام نے 18 کروڑ پاکستانیوں کے تحفظ کی لڑائی لڑی ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جس قدر بھی جلد ممکن ہو سکے قبائلی عوام کی اپنے گھروں میں واپسی کے انتظامات کرے اور انھیں اس سلسلے میں جس قدر مدد کی ضرورت ہے فراہم کی جائے ۔اگر حکومت فروری میں آئی ڈی پیز کی واپسی کا عمل شروع کرتی ہے تو اسے خوش آیند قرار دیا جائے گا۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم ہو رہی ہیں ۔افغان مہاجرین کو وطن واپس بھجوانا بھی پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بے پناہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔حکومت کو اس حوالے سے عملی قدم اٹھانا چاہیے اور افغان مہاجرین کو ہر قیمت پر پاکستان سے نکالا جانا چاہیے۔
وفاقی وزیر برائے ریاستیں و سرحدی امور لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے گزشتہ روزپریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ قبائلی علاقوں کے آئی ڈی پیز کی گھروں کو واپسی اور بحالی کا عمل آیندہ ماہ فروری کے دوسرے ہفتے سے شروع ہو جائے گا جو ایک سال میں مکمل ہوگا،پاک آرمی اور گورنر خیبر پختونخوا جلد باضابطہ طور پر متاثرین کی واپسی کاشیڈول جاری کرینگے جن علاقوں میں آپریشن مکمل ہوگیاہے وہاںسب سے پہلے متاثرین کوواپس بھجوایا جائیگا' 20 لاکھ متاثرین قبائلی عوام کی واپسی کے لیے فوری طورپر 100ارب روپے درکار ہیں، افغان مہاجرین کو معاہدے کے مطابق31 دسمبر 2015ء تک پاکستان میں قیام کی مہلت دی ہے، حکومت کی کوشش ہے کہ مقررہ تاریخ تک افغان مہاجرین وطن واپس چلے جائیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں کے عوام نے بے مثال قربانیاں دی ہیں ۔اگر یہ کہا جائے کہ قبائلی علاقوں کے عوام نے 18 کروڑ پاکستانیوں کے تحفظ کی لڑائی لڑی ہے تو یہ بے جا نہ ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ جس قدر بھی جلد ممکن ہو سکے قبائلی عوام کی اپنے گھروں میں واپسی کے انتظامات کرے اور انھیں اس سلسلے میں جس قدر مدد کی ضرورت ہے فراہم کی جائے ۔اگر حکومت فروری میں آئی ڈی پیز کی واپسی کا عمل شروع کرتی ہے تو اسے خوش آیند قرار دیا جائے گا۔
اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ختم ہو رہی ہیں ۔افغان مہاجرین کو وطن واپس بھجوانا بھی پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ افغان مہاجرین کی وجہ سے خیبر پختونخوا اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں بے پناہ مسائل پیدا ہوئے ہیں۔حکومت کو اس حوالے سے عملی قدم اٹھانا چاہیے اور افغان مہاجرین کو ہر قیمت پر پاکستان سے نکالا جانا چاہیے۔