فرقہ بندی اور ذاتیں
یہ عجیب بات ہے کہ مفکر پاکستان اور معمار پاکستان نے مملکت کے جو بنیادی خاکے اور تصورات تعمیر کیے تھے۔
DUBAI:
یہ عجیب بات ہے کہ مفکر پاکستان اور معمار پاکستان نے مملکت کے جو بنیادی خاکے اور تصورات تعمیر کیے تھے، پاکستان کے تخت پر جو براجمان ہوئے ان کا کوئی بھی تعلق معماران اور مفکران سے نہ تھا بلکہ ان کا کوئی بھی تعلق اپنے پیش رو سے نہ تھا۔
ان کے اپنے بنائے ہوئے اصول تھے یہاں تک کہ 1958 تک پاکستان کا کوئی معتبر قومی ترانہ اور 1973-74 تک کوئی متفقہ دستور نہ تھا۔ اس سے بڑھ کر اور قومی بددیانتی کیا ہوسکتی تھی اور اس میں بھی عوام کے حقوق کا خاکہ تو موجود ہے مگر عوام کے حقوق کو کس طرح قابل عمل بنایا جائے گا جس کا علامہ طاہر القادری نے بارہا ذکر کیا۔ انتخابات کے عملاً اور بااصول لوگوں کو کس طرح اسمبلی میں لایا جائے کہ باعمل ہوسکے اور انتخابات کو درست اور باعمل انداز میں آگے بڑھایا جاسکے۔
چونکہ 2013 کے انتخابات ماضی کے تیارکردہ یعنی 1973 کے آئین کے تحت کرائے گئے تھے اس لیے یہ انتخاب عوام کو وہ فیض نہ پہنچاسکے جو اس کو عملاً دینا تھا۔ لہٰذا عمران خان کے دھرنے نے انتخابی عمل کا پردہ چاک کردیا اور اس انتخاب میں چونکہ آئین کی شفافیت موجود نہ تھی اور نہ چیف الیکشن کمشنر کی قوت، اس لیے شفافیت کی کمی اور عمل کی قوت کی کمزوری کے باعث جسٹس رانا بھگوان داس اور دیگر جسٹس حضرات چیف الیکشن کمشنر کے عہدے پر فائز ہونا پسند نہ کرتے تھے اور انتخاب کے بعد ہونے والے ہنگامے انتخابات پر بدنما داغ بنے رہے۔ یہ تو کہیے کہ پشاور میں 16 دسمبر کا بدترین سانحہ رونما ہوا۔
اس سے ملک کی سیاسی باگ ڈور آخر کار فوج کے ہاتھ آگئی کیونکہ سویلین حکومت کوئی خاطر خواہ بہتری نہ کرسکی بلکہ ملک زوال پذیری کی جانب چل پڑا۔ علامہ طاہر القادری نے آئین کی شق 62/63پر کئی ماہ وضاحت کی مگر کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہ آئے کیونکہ اگر 62/63 کی اس کی اصل روح کے مطابق چھانٹی کی جاتی تو پھر اسمبلی خالی پڑی رہتی۔
کیونکہ روایتی لیڈران الیکشن سے باہر کھڑے نظر آتے، مگر جو عملہ ان آرٹیکل پر عملدرآمد کرانے کا ذمے دار تھا وہ خود جانبدار تھا اور عملاً اس پر عملدرآمد کرانا نہ چاہتا تھا اس لیے ملک کی قیادت میں کوئی تبدیلی نہ آئی اور ملک روایتی انداز میں گڑھے میں دھنستا چلا گیا اور کئی ماہ کے دھرنے اور عوام کا خون بظاہر اثرانداز نہ ہوا۔ ہاں اتنا ضرور ہوا کہ ان حکمرانوں کے عمل درآمد ہونے پر فوجی حکومت نگراں ہوئی اور اب تو جمہوری پارٹیوں کی جانب سے مارشل لا کی حمایت کی جا رہی ہے یہ مطالبہ ازخود نہیں ہو رہا ہے بلکہ بقول ساحر کے:
خون دیوانہ ہے دامن پہ لپک سکتا ہے
اور کسی وقت پر یہ شعلہ تند بن کر نام نہاد جمہوریت پسندوں پہ لپک سکتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ ان کی طرف بڑھ رہا ہے جو دہشت گردی کی نظری اور فکری تربیت پر مامور ہیں اور ملک میں نسلی اور مذہبی تصادم کی فضا کو پروان چڑھا رہے ہیں اور دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہیں کہ اسلام نعوذ باللہ کوئی تفرقہ پروری اور ہلاکتوں کو پروان چڑھانے کا دین ہے جب کہ ایک دوسرے پر نظر پڑتے ہی سلام کرنا سلامتی کا پیغام دیتا ہے۔
اسلام کے ان نام نہاد تشہیر کنندگان سے غیر مسلم دنیا واقف ہوتی جا رہی ہے۔ وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اسلام کے ماننے والے زبردستی اپنا دین نافذ کر رہے ہیں چونکہ یہ لوگ تو اپنے ہی دین کے ماننے والوں کے خلاف صف آرا ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ نائیجیریا میں بوکو حرام کا طریقہ کار دیکھیے اور اپنے ملک کے بچوں کی ہلاکتیں دیکھیے پھر شام اور عراق میں آئی ایس کا طریقہ کار کس چیز کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ مانا کہ مغربی ممالک ان سب دہشت گردیوں کے خلاف ہیں۔ لیکن ان کا طریقہ کار خود مغربی ممالک کا وضع کردہ ہے۔
اس کا ثبوت یہ ہے کہ پہلے اسلامی ممالک میں فتنہ پروری یا جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں فرقہ بندی اور ذاتوں کا استعمال ذرا غور فرمائیے شیعہ، سنی اورکرد یہ تقسیم کیسی؟ عراق اور شام میں ایک عراقی شیعہ بھی ہوسکتا ہے اور سنی بھی۔ اسی طرح ایک شامی شیعہ بھی ہوسکتا ہے اور سنی بھی اور علوی بھی پھر کہیں یہ تقسیم فرقے کی بنیاد پر ہے تو کہیں یہ تقسیم علاقائی یا لسانی ہے جیسے کردستان کی آزاد ریاست کی حمایت۔ تو کہیں یہ تقسیم فرقہ یا مسالک کی بنیاد پر ہے چونکہ کردآبادی گزشتہ 50برسوں سے زیر عتاب ہے۔
کبھی صدام کے ذریعے تو کہیں ترکی کے ذریعے تو کبھی ایران کے ذریعے لہٰذا ان کے ثقافتی بنیادوں پر کردستان اسٹیٹ کی تحریک چل رہی ہے ایک کرد یا عراقی شیعہ سنی اور علوی یا عیسائی بھی ہوسکتا ہے قومی اور مذہبی فرق کو ملا کر گڈمڈ کردیا گیا ہے اور مغربی دنیا اس وقت آئی ایس پر شدید بمباری کر رہی ہے اور کردوں کی زمینی طاقت کو استعمال کر رہی ہے ۔ ترکی پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ کردوں کی حمایت کرے اور آئی ایس کے خلاف نبرد آزما ہوجائے اور حال ہی میں برطانیہ نے ایک زبردست حکمت عملی وضع کی ہے اس حکمت عملی کی صلاح کار یورپی یونین کی غیر ملکی معاملات کی سیاسی صلاح کار محترمہ موگی رینی ہیں (Mogirini)۔ ان کا خیال ہے کہ آئی ایس کی فنڈنگ بند کرائی جائے اور 25/26 ممالک مل کر فضائی بمباری کریں تو آئی ایس کی فوجی قوت تباہ ہوسکتی ہے۔
ایک وقت ایسا تھا کہ آئی ایس کی ترقی اور ان کی تنظیم نو کی یہ ممالک حمایت کر رہے تھے مگر مفادات کی جنگ کی وجہ اور تیل کی دولت کے حصول کے لیے آج مغربی دنیا آئی ایس کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی ہے۔ مگر جوں ہی مفادات میں تغیر آئے گا اور فائدہ کس چیز میں ہے یورپی یونین فوراً ہوا کے طریقے سے اپنا رخ بدل لیں گے جیساکہ یمن میں یہ اقوام کر رہی ہیں۔ اب یہ خبریں عام ہوچکی ہیں کہ یمن کے صدارتی محل پرصنعا پر زیدیہ ملیشیا کا قبضہ ہوگیا ہے اور سابقہ حکومت سے ڈیل ہو رہی ہے درون خانہ سیاست کی یہ تبدیلی عرب دنیا میں تبدیلیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔
دوسری جانب القاعدہ بھی ایک متحرک قوت ہے اور وہ بھی عرصے سے جنگی حکمت عملی میں مصروف ہے۔ اب نتائج کیا ہوتے ہیں امریکی حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے اس پر بھی بہت کچھ اثر کرتا ہے کہ امریکا کا کیا عمل ہوتا ہے کیونکہ یمن اور سعودی عرب بھی امریکا کے اتحادی ہیں لہٰذا امریکی کردار کا بھی یمنی جنگ اقتدار میں کیا کردار ہوگا، چونکہ آجکل القاعدہ اور یمنی باغیوں میں کشمکش ہے لہٰذا اب دیکھنا ہے کہ امریکا القاعدہ یا کس کا سااتھ دے گا ۔ قرین قیاس یہ ہے کہ امریکا زیدیہ ملیشیا کا ساتھ دے گا اس طرح امریکا اپنے ایک پرانے حریف کا ساتھ دے گا اور امریکا اس خطے میں ایک نیا حلیف بنائے گا جس کے اثرات سعودی عرب کے ایک اور حلیف بحرین تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ یہاں بھی مسلم فرقوں کی آماجگاہ بننے کا خدشہ موجود ہے۔
لہٰذا مستقبل قریب میں مشرق وسطیٰ میں ایک اور تبدیلی کی توقع موجود ہے چونکہ مسلمانوں کے مختلف فرقے عرب دنیا میں موجود ہیں اس لیے وہاں رونما ہونے والی تبدیلیاں پاکستان کی سیاست پر بھی اثرانداز ہوں گی اور ان فکری اور نظری تبدیلیوں کے اثرات پاکستان میں بھی مرتب ہوں گے کیونکہ پاکستانی حکمران عرب ممالک کی پالیسیوں کے زیر اثر رہتے ہیں کیونکہ تیل کی دولت سے مالا مال یہ ممالک اپنی نظری اور فکری اساس کو بھی پھیلانا چاہتے ہیں۔ لہٰذا قائد اعظم اور علامہ اقبال کے افکار کی ترویج ہی ان نظریات کی روک تھام کرسکتے ہیں ۔ پاکستان میں نظری فکری اور ثقافتی افکار کی تشہیر ہی ادبا، شعرا، دانشوروں کی تخلیقات اگر میڈیا پر جلوہ گر ہوں تو شاید ان تنگ نظر سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
(اقبالؒ)