نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤگے

سانحہ پشاور سے پہلے اکیلی فوج دہشت گردوں کے خلاف ’’ضرب عضب‘‘ استعمال کر رہی تھی۔

PAARL:
جب جنرل موسی خان مغربی پاکستان کے گورنر بنے تو ان سے پوچھا گیا کہ سویلین عہدے پر کام کرنے کا تجربہ کیسا رہا تو انھوں نے جواب دیا ''فوج کا ایک کمانڈر جب رائٹ ٹرن کا کاشن دیتا ہے تو سامنے صف بستہ کھڑے ایک ہزار فوجی جوان رائٹ ٹرن ہوجاتے ہیں۔ ایک بھی لیفٹ ٹرن نہیں ہوتا۔ جب کہ سامنے کھڑے ہوئے دو سویلین کو رائٹ ٹرن کا کاشن دیں تو ضروری نہیں ہے کہ دونوں رائٹ ٹرن ہوں۔ ایک لیفٹ ٹرن بھی ہوسکتا ہے۔

سانحہ پشاورکے بعد پہلی مرتبہ تقسیم در تقسیم قوم اپنے سارے مسلکی، فرقہ وارانہ، سیاسی، صوبائی، لسانی، نسلی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر دہشت گردی کے خلاف کندھے سے کندھا ملا کر کھڑی ہوگئی ہے۔ پہلی مرتبہ حکومت، فوج، عوام، سیاسی پارٹیاں ایک پیج پر آگئیں۔ (وہ بھی جو بیک پیج پر تھیں) وزیر اعظم نے فوجی عدالتوں کے قیام پر تمام سیاستدانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے APC طلب کی۔

غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے تمام پارٹیوں نے حمایت کردی۔ سوائے MQMکے جن کے ماضی میں ہزاروں کارکنوں کو Fair Trial کا آئینی حق دیے بغیر ماورائے عدالت قتل کیا گیا تھا۔ان کے تحفظات دور کر دیے گئے۔ وہ مطمئن ہوگئے اور دوسرے پھسل گئے۔ مثلاً PPP کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا کہ ''فوجی عدالتوں کی صرف اس وقت حمایت کریں گے جب ان کو سیاستدانوں، صحافیوں اور دانش وروں کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا۔'' اس کے علاوہ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحٰمن کو مدارس کے خلاف استعمال ہونے کا اندیشہ تھا۔

انھوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔سانحہ پشاور سے پہلے اکیلی فوج دہشت گردوں کے خلاف ''ضرب عضب'' استعمال کر رہی تھی باقی سارے معاملات خداوندکریم سے نیک مطلوب تھے۔اگر بندوق بردار اور راکٹ لانچر بدوش دہشت گردوں کا صفایا کر بھی دیا جاتا اور باقی گلشن کا کاروبار یوں ہی چلتا رہتا جیساکہ چل رہا ہے تو پھر۔۔۔۔؟ سارے سیاستدان تو جمہوریت کے حسن سے دل بہلاتے رہتے یعنی من ترا ٹانگیں گھسیٹم' تو مرا ٹانگیں گھسیٹ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی انسان کو پستول کی گولی سے قتل کیا جاتا ہے تو FIRپستول کے خلاف درج نہیں کی جاتی بلکہ پستول چلانیوالے کے خلاف درج ہوتی ہے۔

کیونکہ پستول قاتل نہیں بلکہ ''آلہ قتل'' ہے جیسے کہ خودکش بمبار،کار بم اور ریموٹ کنٹرول بم وغیرہ ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے ہدایت کاروں، پیش کاروں اور سہولت کاروں کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ قانون کا المیہ یہ ہے کہ سو انسانوں کے قتل کرنے والوں کو بھی ایک ہی مرتبہ پھانسی دی جاسکتی ہے۔ ویسے بھی دہشت گرد واردات کے بعد بچتا ہی کتنا ہے؟ تلاش بسیار کے بعد ایک سر ملتا ہے اور وہ بھی بغیر گردن کے۔حالات حاضرہ کے مطابق مشکلیں مجھ پر پڑی اتنی کہ آساں ہوگئیں کے مصداق عوام نے دہشت گردی کی وارداتوں سے دہشت زدہ ہونا چھوڑ دیا ہے۔ مثلاً واہگہ بارڈر کے سانحے کے دوسرے دن پہلے دن سے زیادہ ہجوم اکٹھا ہوگیا اور طیش کے عالم میں دہشت گردوں کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے لگے۔


سب لوگ دھماکے کی آواز سن کر اپنے اپنے گھروں کی طرف بھاگ نہیں رہے ہیں بلکہ گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آرہے ہیں اور جائے واردات پر جمع ہو رہے ہیں۔ اور دہشت گردی سے اپنی نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ پچھلے ہفتے ہفت روزہ چارلی ہیبڈو (پیرس) کے دفتر میں ٹائٹل پر قابل اعتراض خاکے شایع کرنے کی پاداش میں اندھا دھند گولیاں مار کر لوگوں کو قتل کیا گیا۔ 17 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے دوسرے دن پیرس کی سڑکوں پر لاکھوں افراد جمع ہوئے جن میں چالیس ملکوں کے سربراہان بھی شامل تھے۔ ماضی میں یہ اخبار دس سال بند رہ چکا صرف اپنے صدر مملکت کے خلاف قابل اعتراض خاکے شایع کرنے کے جرم میں۔ اس نے دوبارہ وہی قابل اعتراض خاکے شایع کیے ہیں۔ لیکن دہشت گردی کے طفیل کوئی حقیقی صورت حال کہہ رہا ہے نہ سن رہا ہے۔

آج سانحہ پشاور کے نتیجے میں ساری قوم، فوج، حکومت اور تمام سیاسی پارٹیاں متحد ہوگئی ہیں۔ اس وقت جس پیمانے پر، جس منصوبہ بندی کے تحت، افغانستان، پاکستان مل کر انتہائی منظم انداز میں مربوط کارروائیاں کر رہے ہیں اس سے کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئی دوسرا آپشن ہے بھی نہیں۔ نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے لیے بلکہ ساری دنیا کے لیے بھی۔ پاکستان کا شمال مغربی علاقہ دہشت گردوں کی جنت کہلاتا ہے جس کی واحد وجہ اس علاقے کا ''افلاس'' ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اس علاقے کا خوشحال ہونا لازمی ہے۔ اس علاقے کے لوگ ٹیکنیکل مائنڈڈ، محنتی اور اسلحہ سازی کے ماہر ہوتے ہیں۔

ان کی اکثریت ٹرانسپورٹ کے شعبے سے وابستہ ہے۔ ملک میں کاروں کی وہ بہتات ہے کہ سڑکیں کم پڑ رہی ہیں۔ A: اگر اس علاقے میں چھوٹے آٹو اسپیئر پارٹ کے کاٹیج انڈسٹری لیول کے مینوفیکچرنگ یونٹ لگا دیے جائیں اور ان کی پیکنگ کو گھریلو صنعت کا درجہ دے دیا جائے تو یہ علاقہ دیکھتے ہی دیکھتے خوش حال بن سکتا ہے۔ B:اس علاقے میں میٹرک تک مفت تعلیم ہو اور پرائمری اسکولوں میں طلبا کو فری لنچ دیا جانا چاہیے۔ نتیجتاً یہاں سے دہشتگردی کے لیے خام مال دستیاب نہیں ہوسکے گا۔

آخر میں جمہوریت کے شیدائیوں اور قربانی دینے والوں سے دست بستہ اطلاعاً عرض کروں گا کہ فی الوقت پاکستان میں جمہوریت شیخ چلی کے خوابوں اور اسمبلیوں پر قابض جاگیرداروں کے خیالوں میں پائی جاتی ہے۔

ایک شخص ریل کے ڈبے میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا۔ کھڑکی سے آنے والی فراٹے دار ہوا سے اخبار قابو سے باہر ہورہا تھا۔ اس نے کھڑکی بند کردی۔ اسی سیٹ کے آخری کنارے ایک دوسرا شخص بیٹھا تھا جو سانس کا مریض تھا۔ وہ گیا اور کھڑکی کھول کر آگیا۔ دونوں میں کھڑکی کھولنے اور بند کرنے کی ضد بازی شروع ہوگئی۔ یہ تماشا سامنے کی سیٹ پر بیٹھا ایک تیسرا مسافر دیکھ رہا تھا اس سے رہا نہیں گیا۔ اس نے دونوں کو مخاطب کر کے کہا ''بھائیو! کھڑکی کھول بند کرنے سے پہلے یہ بھی تو دیکھ لو کہ شیشہ لگا ہوا ہے بھی یا نہیں۔ وہ توکب کا ٹوٹ چکا ہے۔''
Load Next Story