’’بے نمود‘‘ کا تجزیاتی مطالعہ
بے چینی اور بے بسی کا احساس نظم میں منعکس ہوتاہے۔امید کا پہلو نظم کی زیریں سطح پر ہے۔
جلیل عالی صاحب کی مختصر نظم بعنوان ''بے نمود'' ثقافتی عہد حاضر کے ایک اہم موضوع 'عدم شناخت' کا استعارہ ہے، عدم شناخت اس حوالے سے نہیں کہ جس میں ''دوسرا'' اپنے مخصوص تناظر میں اپنے ''دوسرے پن'' کی تشکیل نہ کرپایا ہو، بلکہ عدم شناخت اس حوالے سے کہ جو سامراجی تسلط اور یلغار تلے ایک ایسا آزاد وجود نہیں بن سکا کہ جو اپنی شناخت کی شعوری تشکیل کرسکتا۔ لہذا یہ نظم ''دوسرے'' (جس کی نمایندگی یہ نظم کرتی ہے) کے تعلق سے عدم تعین کی عکاسی کرتی ہے ۔ اور جس شناخت کو یہ منعکس کرتی ہے وہ ''پہلے'' کی ثقافتی یلغارکا نتیجہ ہے، جسے یہ نظم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
بے چینی اور بے بسی کا احساس نظم میں منعکس ہوتاہے۔امید کا پہلو نظم کی زیریں سطح پر ہے۔ تاہم آخری مصرعوں میں 'ہم' اور ''ہمارے حکمران'' کی تفریق سے نظم میں رجائیت کا پہلو نمایاں ہوجاتا ہے۔ ثقافتی عدم شناخت کے خیال کا جس طریقے سے اظہار کیا گیا ہے، اس میں شناخت کی تشکیل کی احتیاج اور احساس موجود ہے۔ ''بے نمود'' ایک ترکیبی استعارہ ہے جو منفی اور مثبت کے تضاد پر قائم ہے۔' نمود' ایک مثبت تصور ہے،جوثقافتی سطح پر اجتماعیت کا ایسا اظہار ہے۔
جس میں شناخت کا تصور پیوست ہے، جب کہ 'بے' اسی نمود یا بالیدگی کی نفی کے تصور پر استوار ہے۔ نظم کی بالائی سطح پر عدم شناخت اور ناامیدی اور نچلی سطح پر امید اور شناخت جیسے تصورات متحرک ہیں۔بظاہر آسان اور سادہ دکھائی دینے والی اس نظم میں عصر حاضر کی حقیقت کا جدلیاتی اظہار ملتا ہے۔ سامراجی ثقافتی یلغار اور تسلط سے ہماری اجتماعی ثقافت کی تشکیل و ارتقا نہیں ہو پایا ہے، وجہ یہ کہ ثقافت کی تشکیل اور اس کا ارتقا اقوام کی آزادی سے مشروط ہے، جب کہ محکوم اقوام کی کوئی ثقافتی شناخت نہیں ہوتی ہے۔نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے:
نہیں کوئی کلچر نہیں ہے ہمارا/ کہ کلچر تو/ نسلوں کے آزادانہ اظہار سے/ اپنا چہرہ بناتا ہے۔ پہلے مصرعے میں 'نہیں' کے دو بار استعمال سے نظم اس خیال کی اہمیت کو عیاں کرتی ہے کہ ہمارا اپنا کلچر سرے سے ہی موجود نہیں ہے، کیونکہ صدیوں کی غلامی شناختوں کے عدم ارتقا کے لیے کافی ہوتی ہے۔ تیسرے اور چوتھے مصرعے میں خیال کا تنوع مصرعوں کے جدلیاتی اظہار سے نمایاں ہوتا ہے۔ ان میںایک تو انسانی سرشت میں پیوست آزادی کا احساس ہے۔
جسے اجتماعی کلچر کی تشکیل کے لیے لازمی سمجھتے ہوئے شناخت کے تصور کے ساتھ جوڑ کر مثبت شکل میں پیش کیا گیا ہے، جب کہ تیسرے مصرعے میں آزادی کے تصور کو آخری مصرعے ''چہرہ بنانے'' کی ترکیب جو 'شناخت' کی علامت کے طور پر جنم لیتی ہے کہ ساتھ ربط میں رکھ کر عصرِ حاضر کے ایک سلگتے ہوئے ثقافتی قضیے یعنی تصورِ شناخت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نظم کی تہہ میں موجود یہی تصورِ شناخت ہے جو نہ صرف کلچر کی تشکیل کے لیے لازمی ہے بلکہ کلچر کی آزادانہ تشکیل ہی اجتماعی شناخت کے خیال کو مستحکم کرتی ہے۔لہذا یہاں دونوں اقدار یعنی آزادی اور شناخت لازم و ملزوم ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں تصورات نظم کے اندر ڈالے نہیں گئے بلکہ شاعر کے نامیاتی شعورکا عکس بن کر ازخود خلق ہوئے ہیں۔
مزید قابل غور امر یہ ہے کہ اس نظم میں شناخت کے تصور کی احتیاج مغرب میں ''شناختوں کے بحران'' کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔ وہاںشناختوں کا بحران مقتدر اقوام کے تہذیبی و ثقافتی ارتقا کا لازمی نتیجہ تھاجو نظری سطح پر مغربی شعور کے زوال پر منتج ہوتا ہے۔ اس حوالے سے وہاں کوئی خاص بے چینی یا اضطراب بھی دکھائی نہیں دیا ہے ۔ شناختوں کی شکست و ریخت کی قبولیت مغرب میں مابعد جدید کلچر کی علامت بن گئی ہے۔
یہ ایک اگلی سطح پروحدت، مرکز، مآخذ اور موجودگی جیسے تصورات کی جانب پلٹنے کی خواہش سے عبارت نہیں تھا۔ اس لیے وسیع سماجی یا ثقافتی سطح پر کسی مخصوص جہت پر نئی شناختوں کی تشکیل کی خواہش بھی مفقودہی رہی ہے۔تاہم ''بے نمود'' کی زیریں تہوں میںبے چینی و اضطراب، غالب سامراجی کلچر کی جانب مزاحمتی رویے کی علامت ہیں۔ایسے میں یہ نظم اپنے تناظر سے مکمل طور پر جڑی ہوئی ہے۔ اگلے چار مصرعے کچھ یوں ہیں:
اور ایک ہم ہیں/ کہ صدیوں سے/اپنے مقدر میں/ اپنی تمنا کے رستے نہیں ہیں۔گزشتہ مصرعوں سے ربط میں دیکھنے سے عیاں ہوتا ہے کہ ان مصرعوں میں خیال کا معیاری ارتقا نہیں ہوا۔ یہ گزشتہ مصرعوں کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ 'غلامی' کا جو تصور نظم کے تیسرے اور چوتھے مصرعے میں پیش کیے گئے 'آزادانہ اظہار' کے تصور میں پیوست تھا، اسی کی تکرار ہے۔ساتواں اور آٹھواں مصرعہ ایک مختلف سطح پر معنی خیز ہیں۔ ان میں موضوعی مرکزیت کا تصور پایا جاتا ہے۔موضوعی مرکزیت اور تصور شناخت لازم و ملزوم ہیں۔ موضوعی مرکزیت یعنی اجتماعی شناخت کی احتیاج کے ساتھ مرکز ، مآخذ اور معنویت جیسے تصورات جڑے ہوئے ہیں، جن کی تشکیل تو ''پہلے'' ہی نے کی تھی، مگر ''دوسرے'' کے بطن میں بھی اس احساس کا تسلسل موجود ہے، لیکن یہ موضوعی مرکزیت کسی فردِ واحد کے لیے نہیں ہے۔
یعنی کلچر کسی ایک فرد کی عطا نہیں ہے، یہ اجتماعی سرگرمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایسا موضوع یعنی'ہم' یا 'دوسرا'جو صدیوں سے لامرکز ہے، مگر لامرکزیت نے 'دوسرے' کی اس 'تمنا' کو منہدم نہیں کیا ہے۔ وہ مرتعش ہے اورمرکز میں آنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہشات فنا نہیں ہوئیں، قطع نظر اس سے کہ ان کی تکمیل کے امکانات مفقود ہوتے جار ہے ہیں۔ وجہ اس کی اگلے تمام مصرعوں سے عیاں ہوجاتی ہے۔ ملاحظہ کریں:
کہ ہم تو فقط/ خوف و دہشت کے مارے ہو ئے /ہانپتے کانپتے / اس طرف جارہے ہیں/جدھر/ اختیارات کے شہسواروں کی/مجبوریاں ہانکتی ہیں۔ ابتدائی چند مصرعوں میں غلامانہ کیفیات کا بیان ہے،لیکن آخری مصرعے بہت معنی خیز ہیں۔نظم میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ'' صدیوں سے، اپنے مقدر میں، اپنی تمنا کے رستے نہیں ہیں'' اور بعد ازاں یہ کہنا کہ ابھی تک ''اس طرف جارہے ہیں'' نظم میں ایک تضاد اور اسی کی وجہ سے ایک امید کو جنم دیتا ہے۔عام تائثر یہی ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعد اقوام کی شناخت مٹ جاتی ہے، اور نظم کے آغاز میں اسی خیال کا اظہار بھی ملتا ہے۔
لیکن صدیاں گزر جانے کے بعد بھی 'ہم' ابھی تک اس مقام پر گئے نہیں ہیں کہ جہاں اس قابل بھی نہ رہیں کہ ایسی نظم نہ لکھ سکیں جس میں اپنی ثقافتی شناخت کے معدوم ہوجانے کا احساس بھی باقی نہ رہے۔ نظم میں آزادی اورثقافتی شناخت کو مزاحمتی انداز میں پیش کرنے کا مفہوم ہی یہ نکلتا ہے کہ نظم کی اپنی حرکت پہلے مصرعے کے اس خیال کے خلاف ہے کہ ''نہیں کوئی کلچر نہیں ہے ہمارا۔'' یہ نظم بھی اسی کلچر میں لکھی گئی ہے جسے یہ نظم' اپنا' کہنے سے گریزاں ہے۔ یہ خیال نظم کی بالائی سطح پر نہیں بلکہ نظم کی متضاد حرکت کا نتیجہ ہے۔ آخری مصرعے میںایک اور سطح کی امید پائی جاتی ہے۔
یعنی ایک طرف ''اختیارات کے شہسوار'' ہیں جن کی طرف سے صرف مایوسی ہی مایوسی ہے، اور دوسری طرف عوام کی اکثریت ہے کہ جس کا عالی صاحب خود حصہ ہیں،جن میں 'شناخت کا احساس ہی نہیں، اپنے اور حکمرانوں کے وجود میں ایک واضح تفریق بھی دکھائی دیتی ہے اور دونوں کی منازل الگ ہوجاتی ہیں۔ یہاں سے یہ خیال ظہور کرتا ہے کہ کلچر کی تشکیل کا عمل خواہ سیاسی نوعیت کا ہو، اس کے باوجود 'ہم' فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
بے چینی اور بے بسی کا احساس نظم میں منعکس ہوتاہے۔امید کا پہلو نظم کی زیریں سطح پر ہے۔ تاہم آخری مصرعوں میں 'ہم' اور ''ہمارے حکمران'' کی تفریق سے نظم میں رجائیت کا پہلو نمایاں ہوجاتا ہے۔ ثقافتی عدم شناخت کے خیال کا جس طریقے سے اظہار کیا گیا ہے، اس میں شناخت کی تشکیل کی احتیاج اور احساس موجود ہے۔ ''بے نمود'' ایک ترکیبی استعارہ ہے جو منفی اور مثبت کے تضاد پر قائم ہے۔' نمود' ایک مثبت تصور ہے،جوثقافتی سطح پر اجتماعیت کا ایسا اظہار ہے۔
جس میں شناخت کا تصور پیوست ہے، جب کہ 'بے' اسی نمود یا بالیدگی کی نفی کے تصور پر استوار ہے۔ نظم کی بالائی سطح پر عدم شناخت اور ناامیدی اور نچلی سطح پر امید اور شناخت جیسے تصورات متحرک ہیں۔بظاہر آسان اور سادہ دکھائی دینے والی اس نظم میں عصر حاضر کی حقیقت کا جدلیاتی اظہار ملتا ہے۔ سامراجی ثقافتی یلغار اور تسلط سے ہماری اجتماعی ثقافت کی تشکیل و ارتقا نہیں ہو پایا ہے، وجہ یہ کہ ثقافت کی تشکیل اور اس کا ارتقا اقوام کی آزادی سے مشروط ہے، جب کہ محکوم اقوام کی کوئی ثقافتی شناخت نہیں ہوتی ہے۔نظم کا آغاز یوں ہوتا ہے:
نہیں کوئی کلچر نہیں ہے ہمارا/ کہ کلچر تو/ نسلوں کے آزادانہ اظہار سے/ اپنا چہرہ بناتا ہے۔ پہلے مصرعے میں 'نہیں' کے دو بار استعمال سے نظم اس خیال کی اہمیت کو عیاں کرتی ہے کہ ہمارا اپنا کلچر سرے سے ہی موجود نہیں ہے، کیونکہ صدیوں کی غلامی شناختوں کے عدم ارتقا کے لیے کافی ہوتی ہے۔ تیسرے اور چوتھے مصرعے میں خیال کا تنوع مصرعوں کے جدلیاتی اظہار سے نمایاں ہوتا ہے۔ ان میںایک تو انسانی سرشت میں پیوست آزادی کا احساس ہے۔
جسے اجتماعی کلچر کی تشکیل کے لیے لازمی سمجھتے ہوئے شناخت کے تصور کے ساتھ جوڑ کر مثبت شکل میں پیش کیا گیا ہے، جب کہ تیسرے مصرعے میں آزادی کے تصور کو آخری مصرعے ''چہرہ بنانے'' کی ترکیب جو 'شناخت' کی علامت کے طور پر جنم لیتی ہے کہ ساتھ ربط میں رکھ کر عصرِ حاضر کے ایک سلگتے ہوئے ثقافتی قضیے یعنی تصورِ شناخت کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ نظم کی تہہ میں موجود یہی تصورِ شناخت ہے جو نہ صرف کلچر کی تشکیل کے لیے لازمی ہے بلکہ کلچر کی آزادانہ تشکیل ہی اجتماعی شناخت کے خیال کو مستحکم کرتی ہے۔لہذا یہاں دونوں اقدار یعنی آزادی اور شناخت لازم و ملزوم ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں تصورات نظم کے اندر ڈالے نہیں گئے بلکہ شاعر کے نامیاتی شعورکا عکس بن کر ازخود خلق ہوئے ہیں۔
مزید قابل غور امر یہ ہے کہ اس نظم میں شناخت کے تصور کی احتیاج مغرب میں ''شناختوں کے بحران'' کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔ وہاںشناختوں کا بحران مقتدر اقوام کے تہذیبی و ثقافتی ارتقا کا لازمی نتیجہ تھاجو نظری سطح پر مغربی شعور کے زوال پر منتج ہوتا ہے۔ اس حوالے سے وہاں کوئی خاص بے چینی یا اضطراب بھی دکھائی نہیں دیا ہے ۔ شناختوں کی شکست و ریخت کی قبولیت مغرب میں مابعد جدید کلچر کی علامت بن گئی ہے۔
یہ ایک اگلی سطح پروحدت، مرکز، مآخذ اور موجودگی جیسے تصورات کی جانب پلٹنے کی خواہش سے عبارت نہیں تھا۔ اس لیے وسیع سماجی یا ثقافتی سطح پر کسی مخصوص جہت پر نئی شناختوں کی تشکیل کی خواہش بھی مفقودہی رہی ہے۔تاہم ''بے نمود'' کی زیریں تہوں میںبے چینی و اضطراب، غالب سامراجی کلچر کی جانب مزاحمتی رویے کی علامت ہیں۔ایسے میں یہ نظم اپنے تناظر سے مکمل طور پر جڑی ہوئی ہے۔ اگلے چار مصرعے کچھ یوں ہیں:
اور ایک ہم ہیں/ کہ صدیوں سے/اپنے مقدر میں/ اپنی تمنا کے رستے نہیں ہیں۔گزشتہ مصرعوں سے ربط میں دیکھنے سے عیاں ہوتا ہے کہ ان مصرعوں میں خیال کا معیاری ارتقا نہیں ہوا۔ یہ گزشتہ مصرعوں کی مزید وضاحت کرتے ہیں۔ 'غلامی' کا جو تصور نظم کے تیسرے اور چوتھے مصرعے میں پیش کیے گئے 'آزادانہ اظہار' کے تصور میں پیوست تھا، اسی کی تکرار ہے۔ساتواں اور آٹھواں مصرعہ ایک مختلف سطح پر معنی خیز ہیں۔ ان میں موضوعی مرکزیت کا تصور پایا جاتا ہے۔موضوعی مرکزیت اور تصور شناخت لازم و ملزوم ہیں۔ موضوعی مرکزیت یعنی اجتماعی شناخت کی احتیاج کے ساتھ مرکز ، مآخذ اور معنویت جیسے تصورات جڑے ہوئے ہیں، جن کی تشکیل تو ''پہلے'' ہی نے کی تھی، مگر ''دوسرے'' کے بطن میں بھی اس احساس کا تسلسل موجود ہے، لیکن یہ موضوعی مرکزیت کسی فردِ واحد کے لیے نہیں ہے۔
یعنی کلچر کسی ایک فرد کی عطا نہیں ہے، یہ اجتماعی سرگرمی کا نتیجہ ہوتا ہے۔ ایسا موضوع یعنی'ہم' یا 'دوسرا'جو صدیوں سے لامرکز ہے، مگر لامرکزیت نے 'دوسرے' کی اس 'تمنا' کو منہدم نہیں کیا ہے۔ وہ مرتعش ہے اورمرکز میں آنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہشات فنا نہیں ہوئیں، قطع نظر اس سے کہ ان کی تکمیل کے امکانات مفقود ہوتے جار ہے ہیں۔ وجہ اس کی اگلے تمام مصرعوں سے عیاں ہوجاتی ہے۔ ملاحظہ کریں:
کہ ہم تو فقط/ خوف و دہشت کے مارے ہو ئے /ہانپتے کانپتے / اس طرف جارہے ہیں/جدھر/ اختیارات کے شہسواروں کی/مجبوریاں ہانکتی ہیں۔ ابتدائی چند مصرعوں میں غلامانہ کیفیات کا بیان ہے،لیکن آخری مصرعے بہت معنی خیز ہیں۔نظم میں یہ خیال پیش کیا گیا ہے کہ'' صدیوں سے، اپنے مقدر میں، اپنی تمنا کے رستے نہیں ہیں'' اور بعد ازاں یہ کہنا کہ ابھی تک ''اس طرف جارہے ہیں'' نظم میں ایک تضاد اور اسی کی وجہ سے ایک امید کو جنم دیتا ہے۔عام تائثر یہی ہے کہ صدیاں گزرجانے کے بعد اقوام کی شناخت مٹ جاتی ہے، اور نظم کے آغاز میں اسی خیال کا اظہار بھی ملتا ہے۔
لیکن صدیاں گزر جانے کے بعد بھی 'ہم' ابھی تک اس مقام پر گئے نہیں ہیں کہ جہاں اس قابل بھی نہ رہیں کہ ایسی نظم نہ لکھ سکیں جس میں اپنی ثقافتی شناخت کے معدوم ہوجانے کا احساس بھی باقی نہ رہے۔ نظم میں آزادی اورثقافتی شناخت کو مزاحمتی انداز میں پیش کرنے کا مفہوم ہی یہ نکلتا ہے کہ نظم کی اپنی حرکت پہلے مصرعے کے اس خیال کے خلاف ہے کہ ''نہیں کوئی کلچر نہیں ہے ہمارا۔'' یہ نظم بھی اسی کلچر میں لکھی گئی ہے جسے یہ نظم' اپنا' کہنے سے گریزاں ہے۔ یہ خیال نظم کی بالائی سطح پر نہیں بلکہ نظم کی متضاد حرکت کا نتیجہ ہے۔ آخری مصرعے میںایک اور سطح کی امید پائی جاتی ہے۔
یعنی ایک طرف ''اختیارات کے شہسوار'' ہیں جن کی طرف سے صرف مایوسی ہی مایوسی ہے، اور دوسری طرف عوام کی اکثریت ہے کہ جس کا عالی صاحب خود حصہ ہیں،جن میں 'شناخت کا احساس ہی نہیں، اپنے اور حکمرانوں کے وجود میں ایک واضح تفریق بھی دکھائی دیتی ہے اور دونوں کی منازل الگ ہوجاتی ہیں۔ یہاں سے یہ خیال ظہور کرتا ہے کہ کلچر کی تشکیل کا عمل خواہ سیاسی نوعیت کا ہو، اس کے باوجود 'ہم' فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔