آلودگی

علم کے بغیرزندگی کچھ بھی نہیں!جانوراورانسان کے درمیان فرق صرف شعوراورتعلیم کی بنیادپرہی ہے۔

raomanzarhayat@gmail.com

علم کے بغیرزندگی کچھ بھی نہیں!جانوراورانسان کے درمیان فرق صرف شعوراورتعلیم کی بنیادپرہی ہے۔مگرحصول علم کاایک بہت بڑانقصان یہ بھی ہے کہ انسان جتنااس وسیع سمندرمیں سے موتی تلاش کرنے کی کوشش کرتاہے،اتناہی اسے اپنی جہالت کااحساس بڑھتاجاتاہے۔

عمومی طورپربہترتعلیم شعوردینے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔مگر ہمارے ملک کواگرطبقاتی سطح پرکسی نے زیادہ نقصاان پہنچایاہے تووہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔ہماراملک تضادات کامکمل مجموعہ ہے۔اس میں ہرچیزنظرکچھ اورآتی ہے اوراصل میں کچھ اورہے!ملک کے تمام اداروں کابھی یہی حال ہے۔ نظر آنے والاکمزورسانظام،پوشیدہ مگرمضبوط نظام کے طابع ہے۔حقیقت میں پسِ پردہ نظام ہی سب کچھ ہے۔

تضادات حکومتی لیول سے اب شخصی سطح پرمنتقل ہوچکے ہیں۔ تضادات اس قدرمشکل اوربھیانک ہیں کہ اصل انسان اور اصل ملک کی شناخت تک کرنی مشکل ہوچکی ہے!کبھی کبھی تومجھے اس یونانی کلیے پریقین ساآنے لگتاہے جسکے بقول ہرشخص دراصل دو انسان ہوتے ہیں۔دونوں مختلف دنیاؤں میں زندہ رہتے ہیں۔1940ء سے1947ء تک کے اعلانات اورپاکستان حاصل کرنے کے بعدجو مقاصدبیان کیے گئے تھے،وہ بہت مثبت اورقابل قبول تھے۔مگر اب ایسے گمان ہوتاہے کہ شائدوہ تمام مقاصداوراعلانات کسی اورملک کے حصول کے لیے تھے۔ آپ کوئی شعبہ دیکھ لیجیے آپ کو شدید تضاد نظر آئیگا۔مجھے تواب شہروں کے اندربھی کئی مختلف شہرنظرآتے ہیں۔

دن کالاہور، کراچی اوراسلام آباداورہے۔مگرشام کے یہی شہرکچھ اور ہیں۔ لگتاہے کہ شام کوکوئی قانون یا کوئی اخلاقی قیدوبندنہیں رہتی۔دشواربات یہ بھی ہے کہ اکثرلوگ صبح کوبعینیہ ان تمام معاملات کو بلندآواز سے انتہائی برابھلاکہہ رہے ہوتے ہیں جس میں وہ گزشتہ تمام شام ڈوبے رہے ہیں۔منافقت اکثر لوگوں کی سرشت میں بیٹھ چکی ہے۔یہ گھن کی طرح ہمارے کردار کوچاٹ چکی ہے۔سرکاری اورسیاسی شعبے منافقت کے اس سیلاب میں سب سے زیادہ متاثرہیں۔آپ کسی مغربی ملک میں چلے جائیے۔ آپ کو وہاں کے متمول پاکستانی ہماری اشرافیہ کے تضادات کی ایسی تصویرکشی کرینگے کہ آپ کچھ دیر کے لیے بے یقینی کی کیفیت میں چلے جائینگے کہ کیایہ اسی شخص کی بات ہورہی ہے جوہمارے سامنے ہروقت میرٹ اورنیکی کی مجسم تصویربننے کی کوشش کرتاہے۔صاحبان!یقین نہیں آتا۔ مگراب یقین آبھی جاتاہے۔

یہاں ہررویّہ تضادپرمبنی ہے۔ آپ مغربی دنیاکو جومرضی برابھلاکہیں،مگران کی کامیابی کی بنیاد یہ ہے کہ انھوں نے شخصی اورحکومتی تضادات کوکم سے کم کرنے کی سنجیدہ کوشش کی ہے۔وہ جوکہتے ہیں،وہ کرتے بھی ہیں یاکم ازکم کوشش ضرورکرتے ہیں۔مگریہ عنصربدقسمتی سے ہمارے ملک میں موجودنہیں ہے۔ہرنظام کی اپنی خرابیاں ہوتی ہیں۔ مگروہ اپنی خامیوں کوشناخت کرتے ہیں اورانکودورکرنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں۔ہم اول تواپنی خامیوں کوتسلیم ہی نہیں کرتے،اگرمجبوراًتسلیم بھی کرنی پڑیں توانھیں درست کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کرتے۔پوری دنیاہمارے ملک کی کسی بات پربھی یقین کرنے کے لیے تیارنہیں۔آپ خود باہرکے ممالک میں جاکرمشاہدہ کیجیے۔آپکویقین آجائیگا۔

آپ کسی صاحبِ حیثیت شخص سے بات کیجیے۔اس کی جائیدادکابیشتریامکمل حصہ کسی مغربی ملک میں ہوگا۔نجی شعبہ کو جانے دیجیے۔سرکاری شعبہ کی اکثراعلیٰ شخصیات دہری غیرملکی شہریت حاصل کرچکی ہے یاکرنے کے حصول میں ہے۔وجہ صرف یہ ہے کہ وہ جس نظام کی بدولت حکومت کررہے ہیں، وہ اس کی خامیوں سے مکمل واقف ہیں۔ اندرسے بخوبی جانتے ہیں کہ اس نظام میں اگروہ صاحبِ اختیارنہ رہے توشائدوہ زندہ نہیں رہ پائینگے۔

المیہ یہ ہے کہ ان کی تمام باتیں اورملک کو بہتر بنانے کے اعلانات محض تکلیف دہ مذاق ہیں جن میں عام لوگوں کی حسرتوں کاخون شامل ہے۔حالات بہت خراب ہیں توصرف عام لوگوں کے لیے، جن کی حیثیت ایک پلاسٹک کے شناختی کارڈسے زیادہ نہیں۔وہ محض بجلی،پانی اورپٹرول کے بل دینے کے لیے سانس لے رہا ہے۔یہاں ہرطاقتورشخص اپنے سے کمزورانسان کی ذہنی اورمالی چیرپھاڑمیں مصروف ہے۔ یہاں ہرمثبت اوراچھی سوچ رکھنے والاشخص مسلسل ابتلاء کاشکار ہے۔وہ روز جیتا اور روز مرتا ہے!مجھے اس وقت سعادت حسن منٹوکاعظیم افسانہ "ٹوبہ ٹیک سنگھ"کاایک لازوال جملہ یادآرہا ہے جس میں "ایک پاگل یہ کہتاہے کہ یہ ملک شائدوہ حصہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں"۔

مجھے ایک حیرت اوربھی ہے کہ ہمارے مسائل کی فہرست کی ترتیب بھی درست نہیں ہے۔دہشت گردی کی آفت اس وقت ہمارااول نمبرکامسئلہ ہے۔اس ناسور کوجڑ سے اکھاڑدیناچاہیے کیونکہ اسی میں ہماری بقاہے۔لیکن ان سیاسی اکابرین کے خلاف بھی بھرپورکاروائی ہونی چاہیے جودہشت گردوں سے ہمدردی رکھتے ہیں یاانکومالی امدادفراہم کرتے ہیں۔مگردہشت گردی سے آگے چلیے۔میری ناقص رائے میں ہماری آبادی میں فقیدالمثال اضافہ اورماحولیات کی بربادی انتہائی سنجیدہ مسائل ہیں۔یہ دہشت گردی کے برابرکے مسائل ہیں ۔ان مسائل کے متعلق آگاہی اس سطح کی نہیں ہے جودراصل ہونی چاہیے۔آپ موحولیاتی آلودگی کولے لیجیے۔


اس کی وجہ سے انسانی جانوں کاضیاع دہشت گردی میں ہونے والی اموات سے بہت زیادہ ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ بم پھٹنے یا گولی لگنے سے ہونی والی موت کافوری پتہ چل جاتا ہے۔ مگر آلودگی کے زہرسے ہونے والی موت بہت آہستہ آہستہ اور دھیمے اندازسے واردہوتی ہے۔آبادی کے خطرناک دباؤ اور ماحولیاتی آلودگی میں چولی دامن کاساتھ ہے یہ انتہائی خاموش دشمن ہے۔آپ پاکستان کے شمالی علاقہ جات پر طائرانہ نظرڈالیں۔ایک احساس ضرورہوگاکہ درختوں کی تعدادبہت کم ہو چکی ہے۔کئی جگہ توپہاڑبالکل عریاں ہوچکے ہیں۔چالیس یا پچاس سال پہلے پنڈی اور مری کے درمیان گھنے جنگل تھے،جو اب سکڑچکے ہیں۔ درختوں اورجنگلات کاقتلِ عام خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ ہواہے۔وہاں کے سیاسی رہنما اور چند تاجر، جنگلات کی غیرقانونی کٹائی میں باقاعدہ ملوث رہے ہیں۔

انھوں نے ہمارے ملک کواس حددرجہ نقصان پہنچایاہے کہ بیان نہیں کیاجاسکتا۔" ٹمبرمافیا" نے ہمارے ملک کے بدن سے صاف آب وہوااورسانس لینے کی استطاعت پر بھرپور وار کیا ہے۔ان میں سے اکثریت آج بھی طاقتورہے اورکچھ لوگ مسندشاہی پربھی براجمان ہیں۔پاکستان ان بدقسمت ممالک میں سے ایک ہے جسمیں جنگلات کارقبہ خطرناک حدتک کم ہوچکاہے۔درخت ہمارے خاموش محافظ ہیں۔ہم نے لالچ کی کلہاڑی سے ان محافظوں کے سربے دریغ قلم کیے ہیں۔نتیجہ صاف ظاہرہے۔بے وقت کی بارشیں،سیلاب اور موسم میں عجیب طرزکاتغیرقدرت کاسنگین احتجاج ہے۔ سیلاب سے ہمیں اربوں روپے کانقصان ہوتاہے۔

لاکھوں لوگ متاثرہوتے ہیں۔پوری حکومتی مشینری صرف سیلاب کی تباہ کاریوں کوکم کرنے میں جُت جاتی ہے۔مگرکوئی بھی ہنگامی بنیادوں پران نقصانات کے اصل محرکات پرغورنہیں کرتا۔کوئی مہم نہیں شروع کیجاتی کہ جنگلات کودوبارہ نئے پودوں سے شاداب کیاجائے۔نیزملک کوہرابھراکرنے کی ہنگامی بنیادوں پرکوشش کی جائے۔ہردوتین سال بعدسیلاب آتاہے اورہمیں سبق سکھانے کی کوشش کرتاہے۔مگرہم ایسے ناخلف شاگرد ہیںجوسبق سیکھنے کے بجائے پرانی غلطیاں دہرائے جاتے ہیں۔

آپ لاہورکے عین درمیان نہرپرتشریف لے جائیے۔ کہنے کوتویہ نہرہے مگردراصل یہ مختلف آبادیوں اورکارخانوں سے پیداشدہ وہ زہرہے جوشہرکی رگوں میں سرایت کرچکا ہے۔اس میں پانی توبرائے نام ہی ہے مگرباقی تمام گندگی موجودہے جوانسانی صحت کے لیے قاتل ہے۔گرمیوں میں اس زہرآلودپانی میں بچے تیرتے ہیں۔لازم ہے کہ یہ پانی مہلک بیماریاں پھیلانے کے لیے بہت کافی ہے۔غربت اور جہالت گرمیوں میں اسی پانی میں بصد شوق بیماریاں تقسیم کرتی نظرآتی ہے۔لوگ اس گندے پانی میں کپڑے دھوتے ہیں۔ دریائے راوی بھی اب گندگی اورصنعتی فضلہ کی آماج گاہ بن چکا ہے۔اس میں پانی کے علاوہ سب کچھ موجودہے۔سمجھ نہیں آتا! کیابیان کروں اورکیا رہنے دوں!

آپ بدقسمتی کی انتہادیکھیے کہ پاکستان کاکوئی شہریاقصبہ اس قابل نہیں کہ روزانہ پیداہونے والے کوڑاکرکٹ کوبین الاقوامی حفاظتی اصولوں کے تحت تلف کرسکے۔ایک بھی شہراس درجہ پرپورا نہیں اترتاکہ معیاری"لینڈفل سائٹس" بناسکے۔ شہروں کے باہر،بلکہ نزدیک ہی کوڑے کے پہاڑ موجود ہیں۔ انھیں جلانے کی کوشش کی جاتی ہے،جومزیدمشکلات پیداکرتی ہے۔مغربی ممالک نے کوڑے کے پہاڑبناکران پرجنگل اُگادیے ہیں۔آپ سویڈن چلے جائیں۔اگرآپکوبتایانہ جائے کہ جس خوبصورت جنگل پرآپ سیرکررہے ہیں، دراصل وہ کوڑے پراُگاہواہے،توآپکوبالکل پتہ نہیں چلے گا۔ یقین توخیرپتہ چلنے کے بعدبھی نہیں آتا!

ماحولیاتی آلودگی سے فضاتومتاثرہوتی ہی ہے مگر انسانوں کے پینے کے پانی کے اندربھی مختلف بیماریوں کے جراثیم پنپنے لگے ہیں۔محتاط اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں چالیس فیصدکے لگ بھگ بیماریاں محض پینے کے ناقص پانی کی بدولت شروع ہوتی ہیں۔کئی شہرایسے ہیں جہاں پینے کا سوفیصدپانی انسانی استعمال کے قابل نہیں۔وہاں کے رہنے والے شہری اس زہرآلودپانی کواستعمال کرنے پرمجبور ہیں۔ اندازہ فرمائیے!بلوچستان کے جنت نظیرشہرزیارت کے پانی میں مختلف بیماریوں کے جراثیم ساٹھ فیصدسے زیادہ ہیں۔

آپ بلندآواز (Noise Pollution) کی آلودگی پرغور کیجیے۔پتہ نہیں!مجھے اسکاذکرکرنابھی چاہیے کہ نہیں۔کیونکہ مجھے کسی بھی سطح پراس اہم معاملہ پرکسی قسم کی کوئی توجہ نظرنہیں آرہی۔ہارن کابے جااستعمال اتناعام ہے کہ اسکوکوئی مسئلہ ہی نہیں گرداناجاتا۔اس سے پیداشدہ مسائل کی بدولت بس اور ویگن چلانے والے لاکھوں ڈرائیورسماعت سے منسلک مختلف بیماریوں کاشکارہوچکے ہیں۔اس تعدادمیں روزبروزاضافہ ہوتا جارہاہے۔آپ کسی بس اڈے پرچلے جائیں۔آپ کسی ویگن میں سفرکیجیے،آپکواس مسئلہ کاادراک ہوجائیگا۔مگرحل کیا ہے، کیاکرناچاہیے!اس پرمکمل خاموشی ہے!

صاحبان!کس کس چیزپرنوحہ لکھاجائے۔کیاکیابیان کیا جائے!مجھے تواب پانی یاماحول کی آلودگی معمولی سا مسئلہ لگتی ہے۔معصوم سی آفت!مجھے اب فکرہے، تواس ذہنی آلودگی کی جونہ نظرآتی ہے!نہ ہی اس کادوسرے کوپتہ چلتا ہے!نہ ہی اسکاکوئی علاج ہے!منافقت کے کھیت میں ذہنی آلودگی اورجھوٹ کی فصل پک کرمکمل تیارہوچکی ہے!اس کوکون کاٹنے کی جرات کریگا!اسے کون تلف کریگا!مجھے تودوردورتک کوئی نظرنہیں آتا!
Load Next Story