ماں کی طرف سے بیٹے کو خط کا جواب
میں بدنصیب ماں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ جہاں رہو خوش رہو، بے شک ماؤں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے۔
یہ ماں کی طرف سے اس بیٹے کے خط کا جواب ہے جو اسکول کے چھوٹے چھوٹے پھولوں اور کلیوں کو مسلتا ہوا پتی پتی کرتا ہوا اور اپنے راستے میں بچھاتا ہوا عازم جنت ہوا تھا لیکن جنت کے بجائے کسی ایسے نامعلوم دشت میں پہنچا جہاں بھنی ہوئی ریت اس کا کھانا، زقوم کا شربت اس کا پینا اور آگ اس کا اوڑھنا بچھونا ہے، بیٹے نے ماں سے پوچھا تھا کہ مجھے تو وہ کچھ نہیں ملا جس کا وعدہ تھا لیکن کیا تم کو وہ ملا جو طے ہوا تھا، اب ماں کا جوابی خط پیش خدمت ہے
بیٹے ۔۔۔۔۔۔ السلام علیکم!
لیکن اگر میں السلام علیکم کے ساتھ ساتھ رحمت اللہ و برکاتہ، بھی لکھوں یا اور ڈھیر ساری دعائیں بھی لکھ دوں تو تم تو وہاں پہنچ گئے ہو جہاں نہ پہنچنے کی دعائیں ساری مائیں کرتی ہیں۔بیٹا ۔۔۔۔ میں بدنصیب ماں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ جہاں رہو خوش رہو، بے شک ماؤں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے لیکن اگر کوئی خود اپنے ہاتھ سے زہر کھا لے، خود کو چھرا بھونک لے یا گولی مار دے تو ماں کی دعا کیا کرسکتی ہے وہ نہ تو زہر کی تاثیر بدل سکتی ہے، نہ چھرے کا زخم ٹھیک کر سکتی ہے نہ گولی کا زخم بھر سکتی ہے ۔
تمہارا خط سنا تو اچانک میری کوکھ میں جیسے آگ جل گئی، جہاں میں نے تمہیں نو مہینے اپنا خون پلا پلا کر پالا تھا، مجھے کیا معلوم تھا کہ میری کوکھ دوسری کوکھوں کو اجاڑے گی، اس آگ اس سوزش اور تپش سے میرے دل کا خون پانی بن بن کر آنکھوں سے ٹپک رہا ہے، کتنا سمجھایا کرتی تھی کہ بیٹا تم جس راستے جارہے ہو وہ جنت کو نہیں جاتا کیوں کہ جنت تو میرے پاس تھی میرے قدموں تلے تھی لیکن نہ جانے تم کس ''جنت'' کی تلاش میں تھے؟ تم اپنی ماں کے قدموں کی جنت چھوڑ کر اس جنت کی تلاش میں نکل گئے جس کا راستہ دوسری ماؤں دوسری جنتوں کی بربادی سے ہو کر گزرتا ہے۔
جس کا پھل معصوم بچوں کی کھوپڑیوں اور گوشت و پوست میں اگتا ہے جس میں دودھ اور شہد کی نہروں کے بجائے انسانی لہو کی نہریں بہتی ہیں، جہاں شراب طہور ننھے بچوں کے لہو سے کشید کی جاتی ہے، جواب دینے میں دیر ہو گئی کیوں کہ ہمارے گاؤں کے اسکول کب کے اجاڑ دیے گئے ہیں اور پڑھی لکھی عورتوں کو یا تو مار دیا گیا ہے یا وہ جان بچا کر کہیں اور چلی گئی ہیں کیوں کہ وہ نازک ایمانوں کے لیے خطرہ بن گئی تھیں، تمہارا خط جب آیا تھا تو وہ تو میں نے اس پڑوسن سے پڑھوا لیا تھا جو اسی دن گاؤں کے لیے خطرہ جان کر گاؤں بدر کی جا رہی تھی اب پورے گاؤں میں کوئی پڑھی لکھی یعنی کافر عورت باقی نہیں رہی ہے، گاؤں میں جب کوئی عورت بیمار ہوتی ہے تو وہ تڑپ تڑپ کر مرنے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتی کیوں کہ عورت کو پڑھانے ڈاکٹر بنانے کا کام تو کفر کے مترادف ہے ۔
ایسے حالات میں تمہارے خط کا جواب دینا میرے لیے ناممکن سا تھا لیکن پھر کسی نے بتایا کہ یہاں سے دو چار گاؤں دور ایک گاؤں میں ایک ایسی عورت موجود ہے جو کبھی کبھی اپنے عزیزوں کی شادی غمی میں شرکت کے لیے گاؤں آ جاتی ہے چنانچہ گرتی پڑتی وہاں پہنچ تو گئی لیکن دیکھا تو گاؤں میں ایک کہرام مچا ہوا ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ خاتون جس اسکول میں پڑھاتی تھی اس پر اہل ایمان غازیوں نے حملہ کر کے بہت سارے بچوں اور استانیوں کو مار دیا تھا، تھوڑی دیر میں بچوں سمیت اس استانی کی لاش بھی اپنے آبائی قبرستان میں دفنانے کے لیے پہنچنے والی ہے۔ گویا تمہیں خط لکھوانے کا یہ موقع بھی جاتا رہا، گاؤں کے لوگوں سے پوچھا اور تمہاری شہادت کا حساب کتاب لگایا تو یہ وہی اسکول تھا جسے خون میں نہلانے کے دوران تم بھی عازم جنت ہو گئے تھے۔
چنانچہ برقعہ کو کفن سمجھ کر ایک نامحرم مرد سے جواب لکھوانے اس کے گھر پہنچ گئی اور ایک بند کمرے میں ایک ٹمٹماتے دیے کی روشنی میں اب میں یہ خط اس سے لکھوا رہی ہوں اس کی بیوی دروازے پر کھڑی ہے کہ خطرے کے وقت خبردار کر سکے، حالانکہ وہ شخص بھی بوڑھا ہے اور میں بھی بوڑھی ہوں لیکن ''نامحرم'' تو نامحرم ہوتا ہے، سب سے ضروری بات میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ مجھے کچھ رقم تو مل گئی ہے اور اچھی خاصی رقم ہے جس سے میں اپنے خاندان کے وہ تمام مسائل حل کر سکوں گی جس کے لیے تم نے اپنی ''آدھی جان'' دی ہے۔
باقی آدھی جان تو جنت کے لیے دے رہے تھے نا ۔۔۔۔ بلکہ میرا خیال یہ ہے کہ تمہیں شاید جنت کے بجائے وہ خطرناک جگہ اسی وجہ سے ملی ہے کہ تم نے جنت کے لیے پوری نہیں بلکہ آدھی جان دی ہے آدھی جان تو ہمارا مستقبل سنوارنے کے لیے دی ہے نا ۔۔۔ لیکن افسوس کہ ہمارا مستقبل بھی سنورنے کے بجائے اور زیادہ خراب ہو گیا کیوں کہ جو رقم ہمیں ملی ہے وہ ہمارے کسی کام کی نہیں ہے، نہیں نہیں نوٹ اصلی ہیں 'جعلی نہیں ہیں لیکن ایک اور مسئلہ ہو گیا ہے، جب سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ یہ رقم جو ہمیں ملی ہے یا وہ جنت جس کا تم سے وعدہ تھا ان بے شمار معصوم جانوں کا معاوضہ ہے جن کو تم لوگوں نے اتنی بے دردی سے روند ڈالا ۔آخر تم نے کس دل سے ایسا کیا ۔ ان بچوں کو آخر اتنی بے دردی سے بھون کیسے ڈالا گیا۔
لیکن ہم ان لوگوں کی دی ہوئی رقم سے جو بھی چیز لاتے ہیں وہ خون میں لتھڑی ہوئی نظر آتی ہے، تنگ آکر میں نے ایک دن وہ سارے نوٹ تندور میں ڈال دیے تب سے کچھ افاقہ محسوس کرنے لگی ہوں اگرچہ دل میں اب بھی اتنا بڑا غار ہے کیوں کہ آخر ماں ہوں اور ماں تو صرف ماں ہوتی ہے چاہے کسی بھی ہو ۔۔۔۔۔
تمہاری بدنصیب ماں