حکم حاکم خواب خرگوش
سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ایسی حکومتیں بلیک میل ہوتی رہی ہیں جنھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی
پاکستان دہشت گردی کے جس عذاب سے گزر رہا ہے وہ 16/12 کے بعد اس قدر خوفناک ہو گیا ہے کہ خواب خرگوش میں مبتلا حکومت کو بھی آنکھیں ملتے ہوئے بیدار ہونا پڑا ہے اور حکومت بعض اہم اور ضروری فیصلے کرنے پر مجبور ہو رہی ہے۔
ان فیصلوں میں قومی ایکشن پلان کا فیصلہ سر فہرست ہے اس فیصلے پر عمل در آمد ہوا نہیں بلکہ عملدرآمد کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس پر درست طریقے سے عملدرآمد کے لیے کتنا وقت لگے گا کیوں کہ بعض مقدس حلقوں کی طرف سے حکومت کے حالیہ فیصلوں، اکیسویں آئینی ترمیم اور قومی ایکشن پلان پر اعتراضات اور تحفظات کا سلسلہ جاری ہے اور ''متوشش'' حکومت کی یہ مجبوری ہے کہ وہ کسی کی ناراضگی کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ایسی حکومتیں بلیک میل ہوتی رہی ہیں جنھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ہماری موجودہ حکومت بھاری مینڈیٹ رکھنے کی دعویدار ہے تو پھر اسے قومی مفاد کے فیصلے کرتے وقت کسی سیاسی بلیک میلنگ کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور ان تمام فیصلوں اور پروگراموں پر تیزی سے عملدرآمد کرنا چاہیے جو قومی مفادات میں کیے جا رہے ہیں۔
حکومت 16/12 کے بعد جس خواب خرگوش سے آنکھیں ملتی ہوئی بیدار ہوئی ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس کی آنکھیں ابھی تک نیند سے بوجھل ہیں۔ یہ احساس اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ بعض ایسے فیصلے تو کر رہی ہے جن کی افادیت سے انکار نہیں لیکن یہ فیصلے اس قدر ادھورے ہیں کہ ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس قدر سنجیدہ مسائل پر جو فیصلے کر رہی ہے وہ عملدرآمد کے حوالے سے کسی ڈپٹی کمشنر کے حکم سے ملتے جلتے ہیں۔
16/12 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا جو سانحہ پیش آیا اس سے ساری دنیا کی آنکھیں کھل گئی ہیں بلکہ کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں۔ اس سانحے کے بعد فطری طور پر اسکولوں، کالجوں کی سیکیورٹی لازمی ہو گئی ہے کیوں کہ دہشت گرد تعلیم کے دشمن ہیں اور اب تک اس دشمنی میں ہزاروں اسکولوں کو بارود سے تباہ کر چکے ہیں کیوں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی جہل ہی میں پرورش پا سکتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کے حملوں کے خوف سے سرما کی چھٹیوں میں 12 روز کا اضافہ اس لیے کیا کہ اس دوران تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے انتظامات کر لیے جائیں، سیکیورٹی کے انتظامات کرنے کا تعلیمی اداروں کے مالکان اور منتظمین کو حکم تو دے دیا گیا لیکن یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ اس حکم پر عملدرآمد ہوا یا نہیں اگر نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا اور اس میں کیا کیا دشواریاں حائل ہیں۔
اس پر توجہ فرمائے بغیر اضافی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد تعلیمی ادارے کھول دیے گئے، کہا جا رہا ہے کہ سوائے مالدار اور مالداروں کے بچوں کے لیے بنائے گئے ایلیٹ اسکولوں کے باقی تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرائیویٹ اسکولوں کی شکل میں انگلش اسکولوں کے نام پر جو کاٹج انڈسٹری قائم ہو گئی ہے وہ گلی گلی محلے محلے تک پھیل گئی ہے اور سرکاری اسکولوں کو بچوں کی خانقاہیں سمجھنے والے ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو اپنی برداشت سے زیادہ فیس لینے والے ان تعلیمی اداروں میں بھیج رہے ہیں اور گلی گلی محلے محلے پھیلے ہوئے یہ تعلیمی ادارے بچوں سے بھاری فیس لے کر لاکھوں روپے کما بھی رہے ہیں لیکن ان تعلیمی اداروں میں ابھی تک سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔
حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کو آٹھ فٹ اونچی باؤنڈری وال بنانے، اس پر خاردار باڑھ لگانے اور مسلح گارڈ رکھنے کی ہدایت کی تھی لیکن اس ہدایت اور حکم پر دو تین فی صد بھی عمل نہیں دکھائی دیتا۔ یہ تو حال پرائیویٹ اسکولوں کا ہے اگر آپ سرکاری اسکولوں، کالجوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ادارے چوبیس گھنٹے دہشت گردوں کے لیے اپنے دروازے وا کیے ہوئے ہیں۔ ان اسکولوں کی چہار دیواری کو آٹھ فٹ بلند کرنا اس پر خار دار تار لگانا اور مسلح گارڈ رکھنا تو خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں مین گیٹ تک موجود نہیں مسلح گارڈ کو چھوڑیے ان اسکولوں میں چپراسی تک موجود نہیں ہوتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیچروں کی نوکریاں بیچ کر کروڑوں روپے کمانے والوں کو کبھی ان اسکولوں پر گیٹ لگانے اور یہاں مسلح چوکیدار رکھنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی؟
ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں ''ترقیاتی کاموں''پر تو دھڑا دھڑ اربوں روپے خرچ کر رہی ہیں اور یہ روپیہ گھی اور کھچڑی بن گیا ہے کیا ہماری حکومتوں کو یہ علم نہیں کہ جن سرکاری اسکولوں کو بچوں کے بیٹھنے کے لیے بنچ تک نصب نہیں اور بچے ننگے فرش پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں ایسے اسکولوں کی انتظامیہ اپنے اسکولوں کی چہار دیواری کو آٹھ فٹ بلند کیسے کرا سکتی ہے اور مسلح گارڈ کس فنڈ سے رکھ سکتی ہے؟
اگرچہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا حال انتہائی زبوں حال اور قابل شرم ہے لیکن وہ ماں باپ جو پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں غریبوں کے بچے ان اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں کیا ان بچوں کو سرکار دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑنا چاہتی ہے یا اپنے خرچ پر ان اداروں میں حفاظتی انتظامات کرنا چاہتی ہے۔
یہ سوال وہ لاکھوں ماں باپ کر رہے ہیں جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کو اس خوفناک حقیقت کا پوری طرح علم ہے کہ دہشت گرد تعلیمی اداروں کے سخت دشمن ہیں۔ 16/12 کے بعد اس خوفناک حقیقت سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے کہ جب اور جہاں انھیں موقع ملے گا اور جب وہ ضرورت سمجھیں گے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنائیں گے یہی خوف طلبا کے والدین کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے جس کا تقاضا ہے کہ حکومت ادھورے فیصلے نہ کرے۔
یہاں پر دہشت گردی کے حوالے سے حکمرانوں کے ایک اور ادھورے اور غیر عاقلانہ غیر منطقی حکم یا ہدایت کا ذکر ضروری ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے گلی گلی محلہ محلہ پھیلے ہوئے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کر سکتے کیوں کہ نہ ان کے پاس اس قدر نفری ہے نہ صلاحیت۔ حکمران عوام سے بار بار یہ ادھوری اور غیر منطقی اپیل کر رہے ہیں کہ عوام دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں بلا شبہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ عوام کی شمولیت کے بغیر گلی گلی محلہ محلہ پھیلے ہوئے دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن نہیں لیکن حکومت کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں عوام کی شمولیت کا کوئی واضح طریقہ عوام کے سامنے رکھے۔
عوام اس جنگ میں شریک ہونا تو چاہتے ہیں کیوں کہ یہ ان کے اور ملک کے مستقبل کے تحفظ کی جنگ ہے لیکن عوام حیران ہیں کہ وہ اس جنگ میں کس طرح شامل ہوں؟ ہم نے بھی محلہ کمیٹیاں بنانے کے حوالے سے کالم لکھے ہیں جو ایک مبہم خیال ہے لکھاری تو اس قسم کے مشورے دے سکتے ہیں لیکن حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر اس جنگ میں عوام کی شرکت کا ایک واضح لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کریں۔
محلہ کمیٹیاں اس حوالے سے بہت ضروری اور اہم ہیں لیکن عوام خود ایسی محلہ کمیٹیاں نہیں بنا سکتے ان کمیٹیوں کی رہنمائی یا تو ٹاؤن ایڈمنسٹریٹر کریں یا وہ جماعتیں کریں جو گراس روٹ تک منظم ہیں اور حکومت ایسی کمیٹیوں کو اسلحہ سمیت دیگر وسائل کے ساتھ ایک مربوط نیٹ ورک بنا کر دے۔ ورنہ یہ اپیلیں نیم دلانہ اور بے مقصد ہی ہو سکتی ہیں۔
ان فیصلوں میں قومی ایکشن پلان کا فیصلہ سر فہرست ہے اس فیصلے پر عمل در آمد ہوا نہیں بلکہ عملدرآمد کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ اس پر درست طریقے سے عملدرآمد کے لیے کتنا وقت لگے گا کیوں کہ بعض مقدس حلقوں کی طرف سے حکومت کے حالیہ فیصلوں، اکیسویں آئینی ترمیم اور قومی ایکشن پلان پر اعتراضات اور تحفظات کا سلسلہ جاری ہے اور ''متوشش'' حکومت کی یہ مجبوری ہے کہ وہ کسی کی ناراضگی کو نظر انداز نہیں کر سکتی۔
سیاسی تاریخ میں ہمیشہ ایسی حکومتیں بلیک میل ہوتی رہی ہیں جنھیں عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوتی۔ہماری موجودہ حکومت بھاری مینڈیٹ رکھنے کی دعویدار ہے تو پھر اسے قومی مفاد کے فیصلے کرتے وقت کسی سیاسی بلیک میلنگ کو خاطر میں نہیں لانا چاہیے اور ان تمام فیصلوں اور پروگراموں پر تیزی سے عملدرآمد کرنا چاہیے جو قومی مفادات میں کیے جا رہے ہیں۔
حکومت 16/12 کے بعد جس خواب خرگوش سے آنکھیں ملتی ہوئی بیدار ہوئی ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اس کی آنکھیں ابھی تک نیند سے بوجھل ہیں۔ یہ احساس اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ بعض ایسے فیصلے تو کر رہی ہے جن کی افادیت سے انکار نہیں لیکن یہ فیصلے اس قدر ادھورے ہیں کہ ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے، یوں محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اس قدر سنجیدہ مسائل پر جو فیصلے کر رہی ہے وہ عملدرآمد کے حوالے سے کسی ڈپٹی کمشنر کے حکم سے ملتے جلتے ہیں۔
16/12 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول کا جو سانحہ پیش آیا اس سے ساری دنیا کی آنکھیں کھل گئی ہیں بلکہ کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں۔ اس سانحے کے بعد فطری طور پر اسکولوں، کالجوں کی سیکیورٹی لازمی ہو گئی ہے کیوں کہ دہشت گرد تعلیم کے دشمن ہیں اور اب تک اس دشمنی میں ہزاروں اسکولوں کو بارود سے تباہ کر چکے ہیں کیوں کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی جہل ہی میں پرورش پا سکتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں نے تعلیمی اداروں پر دہشت گردوں کے حملوں کے خوف سے سرما کی چھٹیوں میں 12 روز کا اضافہ اس لیے کیا کہ اس دوران تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے انتظامات کر لیے جائیں، سیکیورٹی کے انتظامات کرنے کا تعلیمی اداروں کے مالکان اور منتظمین کو حکم تو دے دیا گیا لیکن یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ اس حکم پر عملدرآمد ہوا یا نہیں اگر نہیں ہوا تو کیوں نہیں ہوا اور اس میں کیا کیا دشواریاں حائل ہیں۔
اس پر توجہ فرمائے بغیر اضافی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد تعلیمی ادارے کھول دیے گئے، کہا جا رہا ہے کہ سوائے مالدار اور مالداروں کے بچوں کے لیے بنائے گئے ایلیٹ اسکولوں کے باقی تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے کوئی انتظامات نہیں کیے گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پرائیویٹ اسکولوں کی شکل میں انگلش اسکولوں کے نام پر جو کاٹج انڈسٹری قائم ہو گئی ہے وہ گلی گلی محلے محلے تک پھیل گئی ہے اور سرکاری اسکولوں کو بچوں کی خانقاہیں سمجھنے والے ماں باپ اپنا پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو اپنی برداشت سے زیادہ فیس لینے والے ان تعلیمی اداروں میں بھیج رہے ہیں اور گلی گلی محلے محلے پھیلے ہوئے یہ تعلیمی ادارے بچوں سے بھاری فیس لے کر لاکھوں روپے کما بھی رہے ہیں لیکن ان تعلیمی اداروں میں ابھی تک سیکیورٹی کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا۔
حکومت نے تمام تعلیمی اداروں کو آٹھ فٹ اونچی باؤنڈری وال بنانے، اس پر خاردار باڑھ لگانے اور مسلح گارڈ رکھنے کی ہدایت کی تھی لیکن اس ہدایت اور حکم پر دو تین فی صد بھی عمل نہیں دکھائی دیتا۔ یہ تو حال پرائیویٹ اسکولوں کا ہے اگر آپ سرکاری اسکولوں، کالجوں پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ادارے چوبیس گھنٹے دہشت گردوں کے لیے اپنے دروازے وا کیے ہوئے ہیں۔ ان اسکولوں کی چہار دیواری کو آٹھ فٹ بلند کرنا اس پر خار دار تار لگانا اور مسلح گارڈ رکھنا تو خواب و خیال کی باتیں ہیں۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ ان تعلیمی اداروں میں مین گیٹ تک موجود نہیں مسلح گارڈ کو چھوڑیے ان اسکولوں میں چپراسی تک موجود نہیں ہوتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹیچروں کی نوکریاں بیچ کر کروڑوں روپے کمانے والوں کو کبھی ان اسکولوں پر گیٹ لگانے اور یہاں مسلح چوکیدار رکھنے کی توفیق کیوں نہیں ہوئی؟
ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں ''ترقیاتی کاموں''پر تو دھڑا دھڑ اربوں روپے خرچ کر رہی ہیں اور یہ روپیہ گھی اور کھچڑی بن گیا ہے کیا ہماری حکومتوں کو یہ علم نہیں کہ جن سرکاری اسکولوں کو بچوں کے بیٹھنے کے لیے بنچ تک نصب نہیں اور بچے ننگے فرش پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں ایسے اسکولوں کی انتظامیہ اپنے اسکولوں کی چہار دیواری کو آٹھ فٹ بلند کیسے کرا سکتی ہے اور مسلح گارڈ کس فنڈ سے رکھ سکتی ہے؟
اگرچہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا حال انتہائی زبوں حال اور قابل شرم ہے لیکن وہ ماں باپ جو پرائیویٹ اسکولوں کی فیس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں غریبوں کے بچے ان اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں کیا ان بچوں کو سرکار دہشت گردوں کے رحم و کرم پر ہی چھوڑنا چاہتی ہے یا اپنے خرچ پر ان اداروں میں حفاظتی انتظامات کرنا چاہتی ہے۔
یہ سوال وہ لاکھوں ماں باپ کر رہے ہیں جو اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے پر مجبور ہیں۔ حکومت کو اس خوفناک حقیقت کا پوری طرح علم ہے کہ دہشت گرد تعلیمی اداروں کے سخت دشمن ہیں۔ 16/12 کے بعد اس خوفناک حقیقت سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے کہ جب اور جہاں انھیں موقع ملے گا اور جب وہ ضرورت سمجھیں گے تعلیمی اداروں کو نشانہ بنائیں گے یہی خوف طلبا کے والدین کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہے جس کا تقاضا ہے کہ حکومت ادھورے فیصلے نہ کرے۔
یہاں پر دہشت گردی کے حوالے سے حکمرانوں کے ایک اور ادھورے اور غیر عاقلانہ غیر منطقی حکم یا ہدایت کا ذکر ضروری ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے گلی گلی محلہ محلہ پھیلے ہوئے دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کر سکتے کیوں کہ نہ ان کے پاس اس قدر نفری ہے نہ صلاحیت۔ حکمران عوام سے بار بار یہ ادھوری اور غیر منطقی اپیل کر رہے ہیں کہ عوام دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کا ساتھ دیں بلا شبہ یہ کھلی حقیقت ہے کہ عوام کی شمولیت کے بغیر گلی گلی محلہ محلہ پھیلے ہوئے دہشت گردوں کا خاتمہ ممکن نہیں لیکن حکومت کا فرض ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں عوام کی شمولیت کا کوئی واضح طریقہ عوام کے سامنے رکھے۔
عوام اس جنگ میں شریک ہونا تو چاہتے ہیں کیوں کہ یہ ان کے اور ملک کے مستقبل کے تحفظ کی جنگ ہے لیکن عوام حیران ہیں کہ وہ اس جنگ میں کس طرح شامل ہوں؟ ہم نے بھی محلہ کمیٹیاں بنانے کے حوالے سے کالم لکھے ہیں جو ایک مبہم خیال ہے لکھاری تو اس قسم کے مشورے دے سکتے ہیں لیکن حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ اس اہم مسئلے پر اس جنگ میں عوام کی شرکت کا ایک واضح لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کریں۔
محلہ کمیٹیاں اس حوالے سے بہت ضروری اور اہم ہیں لیکن عوام خود ایسی محلہ کمیٹیاں نہیں بنا سکتے ان کمیٹیوں کی رہنمائی یا تو ٹاؤن ایڈمنسٹریٹر کریں یا وہ جماعتیں کریں جو گراس روٹ تک منظم ہیں اور حکومت ایسی کمیٹیوں کو اسلحہ سمیت دیگر وسائل کے ساتھ ایک مربوط نیٹ ورک بنا کر دے۔ ورنہ یہ اپیلیں نیم دلانہ اور بے مقصد ہی ہو سکتی ہیں۔