کس نے کہا تھا پٹرول سستا کرو

پٹرول کا بحران اگر زرمبادلہ کے ذخائر کے کم ہونے سے جنم لیتا تو یہ کہا بھی جاسکتا تھا کہ بحران سنگین ہے۔

Jvqazi@gmail.com

عجیب سی استعاری کیفیت ہے، رونا بھی آتا ہے تو ہنسنا بھی۔ ہمارے حکمرانوں کے فہم کو دیکھ کر اسکولوں پر حملے ہوں تو چلو اساتذہ کو مسلح کردو، جمعہ بازار میں بم دھماکا ہو، چلو جمعہ بازار بند کردو۔ کل کو یہ لوگ یہ بھی کہیں گے کہ پٹرول پمپوں پر پٹرول دستیاب نہیں چلو پٹرول پمپوں کو بند کردو۔

اسپتال کام نہیں کرتے، اسپتال بند کردو۔ اسکول بند کردو۔ ساٹھ کی دہائی میں بنگالیوں نے آمریتوں کا جینا حرام کردیا، تو انھوں نے کہا چلو بنگالیوں سے جان چھڑاؤ۔ اگر آمریتیں ایسی حرکتیں کریں تو سمجھ بھی آتا ہے لیکن جب عوامی حکومتیں ایسے کریں تو بہت نفرت ہوتی ہے اور پھر اس بات کا بھی شوروغوغا شروع ہوجاتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت چل نہیں سکتی، یہ سارے سیاستدان کرپٹ ہیں، نااہل ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اس حمام میں ہم سب ننگے ہیں۔ ضیا الحق کوئی سول لیڈر نہیں تھا، جنرل یحییٰ کوئی آسمان سے نہیں اترے تھے۔ جنرل ایوب اور بھٹو کے بارے میں اتنی تفصیل میں نہیں جاتے۔

پٹرول کا بحران اگر زرمبادلہ کے ذخائر کے کم ہونے سے جنم لیتا تو یہ کہا بھی جاسکتا تھا کہ بحران سنگین ہے۔ مگر اس بحران میں سوائے نااہلی کے اور کچھ بھی نہیں۔ ہم اپنی قانونی زبان میں کنٹریکٹ کے بنیادی اصول کے لیے ایک اصطلاح استعمال کرتے ہیں، Quid Pro Quo جس کا مطلب یہ ہے کہ تم مجھ سے میرا مال لو اور اس کے بدلے تم اپنا مال یا دام دو۔ PSO پٹرول لیے جائے اور دام دینے میں دیر کرے ہے۔ تو اگلا کاہے کو انتظار کرے۔ قصور PSO کا بھی کیا ہے، جو PSO سے تیل لیں وہ PSO کو پیسے نہ دیں تو وہ کیسے آگے دام دے۔ گیلانی صاحب نے اس کے لیے گردشی قرض کا طریقہ نکالا۔ لیکن معاملہ اس سے بھی گمبھیر تھا۔

خود حکومت اربوں روپے کی بجلی استعمال کر کے برسوں ادائیگی نہ کرے۔ بجلی بنانے والے پلانٹ بجلی تو بیچ دیں مگر پیسے نہ ملیں جو PSO کو دیں کہ جناب ہمیں تیل دو۔ اور حکومت کے علاوہ بجلی کی چوری اپنی جگہ۔ سب سے اچھا لین دین میں یا یوں کہیے کہ بجلی کے بلوں کے ادائیگی میں نجی ادارے ہیں۔ وہ نہ چوری کریں اور پیسے بھی وقت پر واپس کریں۔ ڈیزل سے لے کر فرنس آئل تک، ہر قسم کا تیل، خام تیل سے نکلتا ہے۔ وہ بھی کیا دن تھے جب پانی سے بجلی پیدا کرتے تھے۔

ایک دن ایسا ہوا کہ تیل بہت سستا ہوگیا، تیل کے کاروبار کرنے والوں کے لیے یہ اچھی خبر نہ تھی۔ وہ جنھوں نے مہنگے دام پر تیل لے کر ذخیرہ کیا ہوا تھا، وہ جنھیں پچھلی حکومتوں کے زمانے کی عادتیں پڑی ہوئی تھیں، تیل مہنگا ہو تو یہ اپنی کرشمہ سازی سے سستا خریدا ہوا پٹرول مہنگا بیچتے۔ شوکت عزیز صدر کے وزیراعظم زیادہ اور عوام کے کم تھے۔ بات بالآخر اس مرتبہ یہاں تک پہنچی کہ جو کم سے کم ذخائر رکھنے کا مارجن تھا یعنی 16 دن یہ معاملہ اس سے بھی نیچے آگیا۔ اب جہاں گیس کی لوڈشیڈنگ ہو، بجلی کی ہو، وہاں لوگوں کے سستے پٹرول سے وارے نیارے ہوگئے۔ موجودہ حکمرانوں کو پٹرول کا عالمی منڈی میں سستا ہونا ایک بہت بڑی نعمت بن کے ملا۔

انھوں نے عمران خان کے دھرنے کے ٹائر پنکچر کرنے کے لیے اس میں سے اس کی ہوا نکال دی۔ پٹرول اتنا سستا کردیا کہ جتنا ہندوستان نے بھی نہیں کیا، نہ امریکا نے اس کا فائدہ نچلی سطح تک اتارا۔ تیل کے ذخائر کو اتنی نچلی سطح تک گرتے دیکھ کر یقیناً ذخیرہ اندوز مارکیٹ میں گھس گئے اور اس طرح 20 فیصد زیادہ تیل کی کھپت ہوئی۔ اور آج وہ اضافہ دراصل ان ذخیرہ کرنے والوں کی وجہ سے تھا۔ تیل جو 76 روپے فی لیٹر تھا وہ بلیک پر 400 روپے لیٹر کا ہوگیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت عمران خان کے دھرنے کی ہوا تو نکال گئی لیکن کیا خبر تھی کہ یہ کاریگری الٹا اس کے بھی گلے پڑے گی اور ان کی حکومت کے ٹائر پنکچر ہوجائیں گے۔

اور اب یہ عوام دوبارہ یہ تفریق کرنا بھول گئی کہ آمریت اور جمہوریت میں کیا فرق ہے۔ ہم سمجھتے ہیں یہ سب اچانک ہوا ہے، دراصل یہ سب اسی تسلسل کا حصہ ہے جو آمریتوں نے بویا تھا اور جمہوریتیں اپنے آپ کو مضبوط کرنے میں ناکام گئیں۔ یہ طبقہ وہی ہے۔ اگر آمریتیں آئیں تو اس طرف اور اگر جمہوریتیں آئیں تو اس طرف۔ انھوں نے اپنا صرف الو سیدھا کرنا ہے۔


ہمارے یہ طبقے آمریتوں اور جمہوریتوں کے رنج و غم سے بالاتر ہیں۔ زرداری صاحب کے زمانے میں ان کی پارٹی پنجاب سے گول ہوئی اور سندھ میں بھی، اب صرف ایک خاص طبقے کی پارٹی ہے نہ کہ عوام کی۔ الیکشن اب کی بار بہت مہنگے ترین ہوں گے، کیوں کہ لوگ اب ان سے ووٹ کے لیے پیسے مانگتے ہیں۔ آٹے ، گھی کی بوریاں مانگتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات ! یہ لوگ مرجائیں گے نہیں کرائیں گے، کیوں کہ اقتدار میں حصے داری دینی پڑجائے گی۔

اب تو ارباب رحیم بھی سامنے آگئے اور لوگ اس سے اتنی نفرت نہیں کرتے ہوں گے کہ قائم علی شاہ نے کوئی گل نہیں کھلائے۔ اور اکیسویں امینڈمنٹ پر انھوں نے دستخط کر کے یہ ثابت کردیا کہ اب یہ خود اقتدار دینا چاہتے ہیں تاکہ اس سے ان کا بھی فائدہ ہے ورنہ دو چار مرتبہ بار بار بیلٹ باکس پر لوگ گئے تو ان کی چھٹی ہوجائے گی۔ آمریت وہ چیز ہے جس کے ہونے سے یہ سدا بہار ہیرو نظر آئیں گے اور کہیں گے ''بھائی! اگر جمہوریت چاہیے تو پھر ہم ہی ہیں اس کا نعم البدل۔''

بچوں کے بار بار مرنے سے ہمارے قائم علی شاہ صاحب نے شہر کو بند کردیا۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، اب ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، چاہے کتنا بھی میڈیا میں اس کا ذکر ہو۔ خان صاحب کو اب یاد آیا ہے کہ پوری توجہ خیبرپختونخوا پر دینی ہے۔ مگر لگتا کچھ یوں ہے کہ زمین ان کے پاؤں کے نیچے سے ہل گئی ہے۔ خادم اعلیٰ بڑی اشتعال انگیز تقاریر کرتے رہے مگر ان کی لفاظی لوگوں کے دلوں میں گھر نہ بناسکی، وہ بھٹو نہ بن سکے۔

پٹرول کے بحران کے ساتھ پنجاب کے اندر ایک بہت بڑا آپریشن شروع ہونے والا ہے اور یقیناً اس نے پنجاب کی پولیس کو کھول کر سامنے کردینا ہے اور یہ ثابت ہونا ہے کہ سندھ کی پولیس اتنی بدترین نہیں جتنی پنجاب کی ہے۔ جماعت الدعوۃ پر پابندی لگ گئی۔ حکومت کے وزیر اب اتنے باچا خان ہوگئے ہیں کہ کہتے ہیں سعودی عرب نے اس ملک میں اشتعال پھیلایا ہے۔ دیر آید درست آید۔

جس پر ہم نے انگلیاں اٹھائی تھیں اب نظر آیا کہ اس میں خلل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے جنھوں نے اس پر محل بنائے، شوگر ملوں پر اجارہ داری کی، کیا اب وہ باچا خان یا ولی خان بن جائیں گے۔ کل ولی خان غدار تھا، ذرا یہ بھی تو مانو کہ وہ غدار نہیں محب وطن تھا اور پھر آگے بڑھیں۔ عمران خان کو جب بھی موقع ملا سوشل میڈیا پر سجدے بسجود ہونے والے اپنے فوٹو شایع کرواتے ہیں۔ اب بس کریں خدارا یہ کاروبار، مذہب آپ کا ذاتی فعل ہے ، کوئی اسے نمائش نہ بنائے ۔

اگر آٹا مہنگا ہوگیا تو اربوں روپے سستی روٹیوں کو بیچنے میں ضایع کردیے۔ ہر وہ کام جو ایک لفاظی کرنے والا کرتا ہے وہ کیا، اور وہ چل نہ پایا۔ اس کو ہی تو کہتے ہیں گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ یہ تو اس ملکہ کی مانند ہے کہ جب لوگ سڑکوں پر نکل آئے تو پوچھا کیوں نکلے ہیں لوگ، بتایا گیا کہ ڈبل روٹی نہیں ہے۔ ملکہ نے کہا کہ ''تو پھر لوگ کیک کیوں نہیں کھاتے؟'' ہمارے قائم علی شاہ کو پتا چلا کہ تھر میں لوگوں کے پاس پانی نہیں ہے پینے کے لیے تو منرل واٹر کے ٹرک بھیج دیے، اور لوگوں نے کیک کی طرح منرل واٹر بیچنا شروع کردیا۔

ان کی لاجک میں شدید خلل ہے۔ انھوں نے اس قوم کو بیمار کردیا ہے۔ اب اس شخص پر کیسے بحث کی جاسکتی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ پولیو سے بچنے کے لیے قطرے پینا حرام ہے۔ فلاں کافر ہے۔ فلاں غدار ہے۔ فلاں محب وطن نہیں۔ ہمارا حافظہ بھی کمزور ہے، ہم ان لیڈروں کو برا بھلا کہتے تو ہیں مگر جمہوریت کو بھی ساتھ ساتھ رگڑ دیتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ معاملہ خراب نہ جمہوریت میں ہے نہ فوج میں ہے۔

جمہوریت ایسے لیڈر دے گی جوکہ فطری عمل ہے اور آہستہ آہستہ لوگ بھی اچھے اور برے کی تمیز کرنا سیکھ لیں گے۔ اور فوج میں بھی ایک ایسا سربراہ آئے گا جو ایسے موقعوں کو منفی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرے گا اور اس طرح اور جمہوریت جڑ پکڑے گی اور مزید ہوگی جمہوریت مضبوط ۔
Load Next Story