سندھ پولیس مسائل اور وسائل

پولیس کے محکمے میں سب سے زیادہ مشکل مسئلہ ان ملازمین کا ہے جن کی گزر اوقات جائز کمائی پر ہے۔

S_afarooqi@yahoo.com

گزشتہ اتوار کو کراچی کے علاقے ناظم آباد میں مزید دو پولیس والوں کو گولی مار کر شہید کردیا گیا۔ گزشتہ سال اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران شہید کیے جانے والے پولیس اہلکاروں کی تعداد 141 تک پہنچ گئی تھی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ شہید ہونے والے ان پولیس اہلکاروں کے لواحقین کی غالب اکثریت کو ابھی تک کوئی معاوضہ بھی ادا نہیں کیا گیا اور یہ بے چارے اس سلسلے میں مختلف دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں اور صبح سے شام تک دھکے کھاتے ہوئے خوار ہو رہے ہیں۔

شہید ہونے والے ان پولیس اہلکاروں میں 50 سالہ سب انسپکٹر نذیر احمد خاصخیلی بھی شامل ہیں جنھیں پچھلے سال 22 جنوری کو شاہ فیصل کالونی میں ڈیوٹی انجام دینے کے دوران گولی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔اس واقعے کو ایک سال ہونے والا ہے مگر اس شہید کے ورثا ابھی تک معاوضے کی ادائیگی سے محروم ہیں۔ان کی اہلیہ مسماۃ کلثوم احمد خاصخیلی نہ صرف اپنے شوہر کی محرومی کے غم سے نڈھال ہیں بلکہ شدید قسم کے مالی مسائل سے بھی دوچار ہیں۔ ان بے چاری کا مسئلہ اس وجہ سے اٹکا ہوا ہے کہ ان کی سسرال والوں کا کہنا یہ ہے کہ ان کے شوہر نے انھیں طلاق دے دی تھی جو کلثوم صاحبہ کے بہ قول درست نہیں ہے۔ محکمہ اگر تمام ضروری تحقیقات کے بعد اس گتھی کو سلجھا دے تو اس بے چاری بیوہ کا مسئلہ حل ہوجائے۔

اسی سال اگست کے مہینے میں سوداگر خان نامی ہیڈ کانسٹیبل اور پولیس وین ڈرائیور کو قصبہ موڑ پولیس کی چوکی کے نزدیک دستی بم کے حملے میں ہلاک کردیا گیا تھا۔ شہید کے دوست اور پڑوسی محمد عثمان نے ازراہ ہمدردی متاثرہ خاندان کو جلدازجلد معاوضہ دلانے کا بیڑہ اٹھایا اور ایڑی چوٹی کا زور لگادیا لیکن تاحال معاوضے کی ادائیگی میں کامیابی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ شہید کی زوجہ اور سات بچوں پر مشتمل اس خاندان کے مالی حالات اچھے نہیں ہیں اور انھیں پائی پائی کی ضرورت ہے۔ قیامت خیز مہنگائی کے موجودہ دور میں ضرورت سے کم تنخواہیں بھی پولیس کے محکمے میں روز بہ روز بڑھتی ہوئی کرپشن اور رشوت ستانی کا سب سے بڑا سبب ہیں جس کی وجہ سے یہ محکمہ بری طرح بدنام بھی ہو رہا ہے۔

پولیس کے محکمے میں سب سے زیادہ مشکل مسئلہ ان ملازمین کا ہے جن کی گزر اوقات جائز کمائی پر ہے اور جو اپنے بال بچوں کے منہ میں رشوت کا نوالہ ڈالنے سے پرہیز اور گریز کرتے ہیں۔ اس وقت ڈیوٹی کے دوران جاں بحق ہونیوالے پولیس اہلکار کی عام شرح معاوضہ 20 لاکھ روپے ہے جوکہ ساری زندگی بھر کی کمائی کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ شنید ہے کہ اس رقم کو بڑھاکر 40لاکھ روپے کرنے کی تجویز زیر غور ہے جوکہ انسانی ہمدردی کے نکتہ نظر سے ایک معقول اور منصفانہ تجویز ہے حالانکہ انسانی جان انمول ہوتی ہے جس کا معاوضہ کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔ ارباب اختیار سے دردمندانہ گزارش ہے کہ اس تجویز کی جلدازجلد منظوری دے دی جائے تاکہ شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کے لواحقین کی کچھ نہ کچھ اشک شوئی تو ہوسکے۔

بڑے دکھ کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ 2013 میں ڈیوٹی انجام دیتے ہوئے جو171 اور 2014 میں اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہوئے جو 143 پولیس والے جاں بحق ہوگئے تھے ان کے خاندانوں کو معاوضے کی رقم کی ابھی تک ادائیگی نہیں ہوئی ہے اور یہ بیچارے مرزا غالب کی زبان میں شکوہ بہ لب ہیں کہ:

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک


معاوضے کی ادائیگی کا طریقہ کار پیچیدہ بھی ہے اور دقت طلب بھی۔ سب سے اہم اور مشکل مرحلہ اصل حقداروں کی اہلیت کے تعین کا ہوتا ہے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ اخلاقی اعتبار سے اتنا دیوالیہ ہوچکا ہے کہ شہید ہونیوالے پولیس اہلکار کا معاوضہ وصول کرنے کے لیے جعلی درخواست گزار بھی خود کو حقدار ثابت کرنے کے لیے پیش پیش ہوتے ہیں۔

ہماری معلومات کے مطابق جاں بحق ہونے والے پولیس اہلکار کی تجہیز و تدفین کے لیے محکمے کی جانب سے مالی اعانت کے طور پر 40 ہزار روپے کی رقم دی جاتی ہے جو غنیمت کہی جاسکتی ہے اور جس کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ Something is better than nothing۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والے پولیس اہلکار کے بیٹے کو پولیس کے محکمے میں ملازمت پیش کی جاتی ہے۔ دنیا کے بعض ممالک میں پولیس اہلکاروں کی طبعی موت واقع ہونے کی صورت میں بھی لواحقین کو ایک معقول معاوضہ ادا کرنے کی صحت مند اور قابل تقلید روایت موجود ہے۔ ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس، سندھ غلام قادر تھیبو کی خواہش ہے کہ یہ صحت مند روایت ہمیں بھی اختیار کرنا چاہیے۔

اگرچہ دہشت گردی اور لاقانونیت کے واقعات میں تیزی سے اضافے کے نتیجے میں ہماری پولیس کی کارکردگی کیے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں اور پولیس کے محکمے پر مسلسل اور شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہماری پولیس کی نہ تو جدید خطوط پر تربیت کی گئی ہے اور نہ ہی انھیں جدید ترین ہتھیار اور آلات میسر ہیں۔ ایسے مایوس کن حالات میں یہ اطلاع تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں ہے کہ سندھ پولیس کو کم ازکم 10 ڈرون کیمروں سے لیس کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

پولیس ذرایع کا کہنا ہے کہ ان کیمروں کی خریداری کے لیے فنڈز کا بندوبست کیا جا رہا ہے اور جب یہ کیمرے حاصل ہوجائیں گے تو انھیں سینٹرل پولیس آفس کے سینٹرل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے ساتھ جوڑ دیا جائے گا۔یہ ٹیکنالوجی کوئی عملی قدم اٹھانے سے قبل خفیہ معلومات کے حصول اور منصوبہ بندی میں انتہائی کامیاب اور موثر ثابت ہوئی ہے۔ کراچی پولیس کو کارگو خفیہ معلومات کے عدم حصول کے سبب نہ صرف ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے بلکہ بعض واقعات میں بڑا بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔ ابتدا میں 10 ڈرون کیمرے حاصل کیے جائیں گے جب کہ بعد ازاں ان کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا۔

سندھ پولیس کا آئی ٹی کا شعبہ ان ڈرون کیمروں کی ذمے داری سنبھالے گا کیونکہ کمانڈ اور کنٹرول سینٹر کا انتظام و انصرام بھی اسی کے سپرد ہے۔ ڈرون کیمروں کا اضافہ بھی ویڈیو سرویلنس سسٹم کا ہی ایک جزو ہے جس کا آغاز 2010 میں 500ملین روپے کی ابتدائی سرمایہ کاری سے کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 846 ملین روپے کی اضافی رقم سے اہم مقامات پر مزید سرویلنس کیمروں کی تنصیب کی گئی تاکہ سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹا جاسکے۔

اس کے علاوہ سندھ پولیس نے 100 موبائلوں کا ایک بیڑہ بھی تشکیل دیا ہے جو کیمروں سے لیس ہے جس کا مقصد مجرموں کی حرکات و سکنات کی نگرانی کرنا ہے تاکہ موثر انداز میں ان کی سرکوبی کی جاسکے۔ ڈرون کیمروں کی مدد سے تاریکی میں بھی مشتبہ اور جرائم پیشہ افراد کی بخوبی نگرانی کی جاسکے گی۔ اس کے علاوہ ان کیمروں کی مدد سے بڑے بڑے اجتماعات، جلوسوں اور جلسوں کی بھی انتہائی موثر انداز میں نگرانی کی جاسکے گی۔ یہ ڈرون کیمرے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نہ صرف on the spot کوریج کی سہولت فراہم کریں گے بلکہ زمینی حقائق سے باخبر رکھنے میں بھی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر کے ساتھ رابطے کے ذریعے معاون ثابت ہوں گے۔

ان تمام اقدامات کی اہمیت و افادیت سے قطع نظر یہ امر نہایت افسوس ناک اور اصلاح طلب ہے کہ سندھ کا محکمہ پولیس اس وقت عجب انتشار و خلفشار کا شکار ہے۔اس وقت اس محکمے میں گریڈ 17 سے گریڈ 20 تک کے ساٹھ سے زائد فرض شناس افسران اپنی تعیناتی کے منتظر ہیں۔ شنید یہ بھی ہے کہ افسران بالا کی خوشنودی حاصل کرنے والے من پسند جونیئر افسران کو ان کی مرضی کے مطابق تعینات کیا جا رہا ہے جب کہ سینئر اور فرض شناس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

جس کے نتیجے میں ان میں بددلی اور مایوسی پیدا ہو رہی ہے۔ نظر انداز کیے جانے والے افسران میں بعض ایسے اچھے افسران بھی شامل ہیں جن کا ماضی جرائم پیشہ افراد کے خلاف کامیاب اور موثر کارروائی کے حوالے سے قطعی بے داغ اور انتہائی روشن ہے۔ سینٹرل پولیس آفس کی حالت بھی اطمینان بخش نہیں ہے کیونکہ وہاں انٹرنل ڈپارٹمنٹ کی کئی آسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔
Load Next Story