ملکی معیشت پر جمود کی کیفیت
پٹرول ہو یا گیس یا بجلی توانائی کا ہر ذریعہ ملکی معاشی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔
پاکستان میں سڑک اور شاہراہیں 2 لاکھ 70 ہزارکلومیٹر کے لگ بھگ ہیں جس پر 2 کروڑ 15 لاکھ کے لگ بھگ مختلف اقسام کی گاڑیاں دوڑ رہی ہیں، ملک میں تیل کی یومیہ پیداوار 70 ہزار بیرل سے زائد ہے۔ ملکی ٹرانسپورٹ کو رواں دواں رکھنے کے لیے تیل کی درآمدات کا سلسلہ سارا سال جاری رہتا ہے جس پر سالانہ 14 تا 15 کھرب روپے کے اخراجات آتے ہیں۔ ملک میں تیل کی کھپت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
خصوصاً2007 کے بعد ملک میں پٹرول کی کھپت میں 10 تا 15 فیصد سالانہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔ پٹرول کی کھپت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیل کی مسلسل فراہمی کا بندوبست کیا جاتا ہے لیکن جب پٹرول کی قیمت میں کمی ہوگی تو پٹرول کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو پہلے ہی توانائی کا بحران بجلی کی لوڈشیڈنگ گیس کی قلت اور پانی کی کمی کے علاوہ امن و امان کے مسائل کا سامنا ہی کیا کم تھا کہ پنجاب میں پٹرول کی شدید کمی نے معیشت کو جمود کی کیفیت میں لاکھڑا کیا ہے۔ پٹرول کی قلت کے باعث فرنس آئل کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ جس کے باعث بجلی کی پیداوار میں بھی کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل فرنس آئل کے استعمال کے باعث بجلی کی لاگت 24 روپے کے لگ بھگ چلی آرہی تھی لیکن پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث ماہرین بجلی کی لاگت 10 تا 12 روپے فی یونٹ تک ہونے کی نوید سنا رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ تھرمل پاور جہاں استعداد سے بہت ہی کم بجلی پیدا کی جا رہی تھی کیونکہ لاگت زیادہ چلی آرہی تھی لہٰذا اب ان پاور پراجیکٹ میں پیداوار میں اضافے کے لیے تیاری شروع کی جا رہی تھی کہ معلوم ہوا کہ ملک میں فرنس آئل کا اسٹاک ہی اب چند یوم کا رہ گیا ہے۔
پٹرول ہو یا گیس یا بجلی توانائی کا ہر ذریعہ ملکی معاشی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ ان کی قلت یا عدم فراہمی یا قیمت میں اضافے سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن گزشتہ کئی روز تک پنجاب میں قلت ہی نہیں بلکہ پٹرول بالکل ہی غائب ہوچکا تھا۔ عام صارفین جوکہ صبح سے شام تک لائن لگا کر کھڑے ہوتے اور اس دوران انھیں یہ بتایا جاتا کہ اب پٹرول کا اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔
پنجاب بھر میں لوگ پٹرول نہ ملنے کے باعث شدید پریشانی کے عالم میں رہے اور پٹرول کی عدم دستیابی کے باعث معیشت کا پہیہ بھی رک گیا۔ پہلے ہی ملکی معاشی ترقی کی شرح خطے میں سب سے زیادہ کم تھی۔ ملکی ترقی کی شرح لگ بھگ 3 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی تھی۔ حالانکہ دیگر ممالک اس دوران 7 فیصد کے حساب سے ترقی کر رہے تھے۔
پاکستان کئی سال قبل 7 فیصد شرح ترقی کا حامل تھا لیکن توانائی بحران کے باعث ملکی ترقی کی شرح نصف سے بھی کم ہوکر رہ گئی۔ گزشتہ کئی دنوں سے پنجاب کی ایک لاکھ 10 ہزارکلومیٹر لمبی سڑک سے ٹریفک ہی غائب ہوچکی تھی جس کے باعث معیشت پر جمود کی کیفیت طاری ہوگئی کیونکہ نقل و حرکت معطل ہوکر رہ گیا حالانکہ پٹرول کی قیمت میں کمی اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ہوتی رہی ہے اور تیل کی طلب میں نمایاں اضافہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ تیل کی رسد ہی ختم کردی گئی ہو۔
اس صورتحال سے ایک اور مافیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور کھلا پٹرول دو سو سے لے کر تین سو روپے فی لیٹر میں بڑی مقدار میں فروخت کیا گیا۔ مختلف شہروں کے 90 فیصد پٹرول پمپ اس دوران بند ہی رہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ یا وزرا میں سے کسی نے بھی اس کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ یہ معاملہ جسے صرف چند افسران کو معطل کرکے دبایا نہیں جاسکتا۔ بلکہ ذمے داروں کا ہر طرح سے تعین کیا جانا ضروری ہے۔ تاکہ آیندہ اس قسم کی صورت حال پیدا نہ ہو۔
ملک میں تیل ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ نیز پٹرول لے کر آنے والے جہازوں کے بارے میں بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ سرکاری ادارے کے پاس کتنے جہاز فعال ہیں۔ نیز اس دوران غیر قانونی طور پر تیل کہاں سے حاصل کیا گیا۔ اس طرح موجودہ بحران کے باعث بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔ جس کا جواب ملنا بھی ضروری ہے۔
اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کمی ایک بار پھر فروری میں کی جا رہی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی کچھ عرصے تک مزید اضافے کی توقع نہیں ہے۔ لہٰذا اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ملکی معاشی ترقی کے لیے تیل کی درآمدات پھر اس کی کھپت کی صورت حال طلب میں کس حد تک اضافے کے امکانات ہیں۔ ان تمام باتوں کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ان مافیاز کا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ اس طرح کے واقعات کے باعث ملکی معیشت پر جمود کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ملکی معاشی ترقی کے لیے تیل کی اہمیت و ضرورت سے کسی بھی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے ہی ملکی معاشی ترقی کی شرح بہت ہی کم ہے ایسے میں معیشت کا پہیہ رک جائے تو پھر اس نقصان کی تلافی ناممکن ہوکر رہ جاتی ہے۔ پٹرول کی عدم فراہمی کے باعث ملکی معیشت پر جمود کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سکوت مرگ طاری ہوجائے، اس کا تدارک انتہائی لازمی ہے کیونکہ ملکی معیشت اور نہ ہی عوام اس قسم کی صورت حال کی متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
خصوصاً2007 کے بعد ملک میں پٹرول کی کھپت میں 10 تا 15 فیصد سالانہ اضافہ بھی دیکھا گیا ہے۔ پٹرول کی کھپت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیل کی مسلسل فراہمی کا بندوبست کیا جاتا ہے لیکن جب پٹرول کی قیمت میں کمی ہوگی تو پٹرول کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو پہلے ہی توانائی کا بحران بجلی کی لوڈشیڈنگ گیس کی قلت اور پانی کی کمی کے علاوہ امن و امان کے مسائل کا سامنا ہی کیا کم تھا کہ پنجاب میں پٹرول کی شدید کمی نے معیشت کو جمود کی کیفیت میں لاکھڑا کیا ہے۔ پٹرول کی قلت کے باعث فرنس آئل کی کمی کا بھی سامنا ہے۔ جس کے باعث بجلی کی پیداوار میں بھی کمی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اس سے قبل فرنس آئل کے استعمال کے باعث بجلی کی لاگت 24 روپے کے لگ بھگ چلی آرہی تھی لیکن پٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باعث ماہرین بجلی کی لاگت 10 تا 12 روپے فی یونٹ تک ہونے کی نوید سنا رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ تھرمل پاور جہاں استعداد سے بہت ہی کم بجلی پیدا کی جا رہی تھی کیونکہ لاگت زیادہ چلی آرہی تھی لہٰذا اب ان پاور پراجیکٹ میں پیداوار میں اضافے کے لیے تیاری شروع کی جا رہی تھی کہ معلوم ہوا کہ ملک میں فرنس آئل کا اسٹاک ہی اب چند یوم کا رہ گیا ہے۔
پٹرول ہو یا گیس یا بجلی توانائی کا ہر ذریعہ ملکی معاشی ترقی کے لیے لازم و ملزوم ہے۔ ان کی قلت یا عدم فراہمی یا قیمت میں اضافے سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن گزشتہ کئی روز تک پنجاب میں قلت ہی نہیں بلکہ پٹرول بالکل ہی غائب ہوچکا تھا۔ عام صارفین جوکہ صبح سے شام تک لائن لگا کر کھڑے ہوتے اور اس دوران انھیں یہ بتایا جاتا کہ اب پٹرول کا اسٹاک ختم ہوگیا ہے۔
پنجاب بھر میں لوگ پٹرول نہ ملنے کے باعث شدید پریشانی کے عالم میں رہے اور پٹرول کی عدم دستیابی کے باعث معیشت کا پہیہ بھی رک گیا۔ پہلے ہی ملکی معاشی ترقی کی شرح خطے میں سب سے زیادہ کم تھی۔ ملکی ترقی کی شرح لگ بھگ 3 فیصد کے حساب سے بڑھ رہی تھی۔ حالانکہ دیگر ممالک اس دوران 7 فیصد کے حساب سے ترقی کر رہے تھے۔
پاکستان کئی سال قبل 7 فیصد شرح ترقی کا حامل تھا لیکن توانائی بحران کے باعث ملکی ترقی کی شرح نصف سے بھی کم ہوکر رہ گئی۔ گزشتہ کئی دنوں سے پنجاب کی ایک لاکھ 10 ہزارکلومیٹر لمبی سڑک سے ٹریفک ہی غائب ہوچکی تھی جس کے باعث معیشت پر جمود کی کیفیت طاری ہوگئی کیونکہ نقل و حرکت معطل ہوکر رہ گیا حالانکہ پٹرول کی قیمت میں کمی اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ہوتی رہی ہے اور تیل کی طلب میں نمایاں اضافہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا کہ تیل کی رسد ہی ختم کردی گئی ہو۔
اس صورتحال سے ایک اور مافیا نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور کھلا پٹرول دو سو سے لے کر تین سو روپے فی لیٹر میں بڑی مقدار میں فروخت کیا گیا۔ مختلف شہروں کے 90 فیصد پٹرول پمپ اس دوران بند ہی رہے۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ کوئی بھی ادارہ یا وزرا میں سے کسی نے بھی اس کی ذمے داری قبول نہیں کی۔ یہ معاملہ جسے صرف چند افسران کو معطل کرکے دبایا نہیں جاسکتا۔ بلکہ ذمے داروں کا ہر طرح سے تعین کیا جانا ضروری ہے۔ تاکہ آیندہ اس قسم کی صورت حال پیدا نہ ہو۔
ملک میں تیل ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کا بھی جائزہ لینا ہوگا۔ نیز پٹرول لے کر آنے والے جہازوں کے بارے میں بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ سرکاری ادارے کے پاس کتنے جہاز فعال ہیں۔ نیز اس دوران غیر قانونی طور پر تیل کہاں سے حاصل کیا گیا۔ اس طرح موجودہ بحران کے باعث بہت سے سوالات نے جنم لیا ہے۔ جس کا جواب ملنا بھی ضروری ہے۔
اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں کمی ایک بار پھر فروری میں کی جا رہی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی کچھ عرصے تک مزید اضافے کی توقع نہیں ہے۔ لہٰذا اس تمام صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے۔ اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ ملکی معاشی ترقی کے لیے تیل کی درآمدات پھر اس کی کھپت کی صورت حال طلب میں کس حد تک اضافے کے امکانات ہیں۔ ان تمام باتوں کے لیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ان مافیاز کا بھی محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
کیونکہ اس طرح کے واقعات کے باعث ملکی معیشت پر جمود کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ملکی معاشی ترقی کے لیے تیل کی اہمیت و ضرورت سے کسی بھی طور پر انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پہلے ہی ملکی معاشی ترقی کی شرح بہت ہی کم ہے ایسے میں معیشت کا پہیہ رک جائے تو پھر اس نقصان کی تلافی ناممکن ہوکر رہ جاتی ہے۔ پٹرول کی عدم فراہمی کے باعث ملکی معیشت پر جمود کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سکوت مرگ طاری ہوجائے، اس کا تدارک انتہائی لازمی ہے کیونکہ ملکی معیشت اور نہ ہی عوام اس قسم کی صورت حال کی متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔