اظہار آزادی یا شر انگیزی
ریلی میں شریک افراد آزادی اور چارلی کے نعرے لگا رہے تھے۔
''معاملہ مذہبی عقائد کا ہو تو آزادی اظہار رائے کی بھی کچھ حدود ہیں، دوسروں کے مذہب کی توہین نہیں کی جاسکتی، ہر مذہب کی عزت اور تکریم ہوتی ہے، آپ کسی کو بھی اشتعال نہیں دلا سکتے، آپ کسی کے ایمان کی توہین نہیں کرسکتے، نہ ہی کسی کے عقیدے کا مذاق اڑاسکتے ہیں۔
مثال کے طور پر اگر میرا بہترین دوست ڈاکٹر گیپری میری ماں کے بارے میں برے جملے کہے تو وہ جواباً مکے کی توقع کرسکتا ہے، آزادی اظہار حق اور ذمے داری ہے جس میں کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے، کسی کو بھی خدا کے نام پر قتل کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔''
ان خیالات کا اظہار عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے سری لنکا سے فلپائن جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ (15جنوری 2015)۔ واضح رہے کہ 7 جنوری 2015 کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں واقع طنز و مزاح اور کارٹونز کے مشہور رسالے ''چارلی ایبڈو'' کے دفتر پر مسلح افراد کے حملے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت کم ازکم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 14 جنوری 2015 کو یمن میں القاعدہ کے ایک رہنما نے ایک ویڈیو کے ذریعے فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو پر حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے، یمن میں القاعدہ کے رہنما ناصر بن علی انسی نے ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا ہے کہ جزیرہ نما عرب القاعدہ نے پیغمبر اسلام کی ہتک کا بدلہ لینے کے لیے فائرنگ کی ہے۔
اسی روز عالمی میڈیا میں یہ خبر شایع ہوئی کہ فرانسیسی رسالے ''چارلی ایبڈو'' نے اپنا وہ نیا شمارہ فروخت کے لیے پیش کردیا ہے جس کے سرورق پر اس کے مطابق پیغمبر اسلام کا خاکہ شایع کیا گیا ہے، یہ جریدے کے دفتر پر ہونے والے حملے میں 12 افراد کی ہلاکت کے بعد شایع ہونے والا پہلا شمارہ ہے، میڈیا کا کہنا ہے کہ عموماً اس طنزیہ میگزین کے ایک شمارے کی زیادہ سے زیادہ 60 ہزار کاپیاں شایع ہوتی ہیں مگر رسالے کی انتظامیہ کے مطابق اس بار پوری دنیا میں اس کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے تازہ شمارے کی 30 لاکھ کاپیاں شایع کی گئیں ۔
میگزین کے سرورق پر شایع کیے گئے خاکے کی تفصیلات سرور دو عالمؐ کی شان میں گستاخی پر مبنی ہے جو کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام سراپا احتجاج ہے کہ اظہار آزادی کی آڑ میں شر انگیزی نہ کی جائے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے فرانس کے اس میگزین ''چارلی ایبڈو'' کی جانب سے ایک بار پھر توہین آمیز خاکے شایع کرنے کے مذموم اقدام کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ رکوایا جائے، ان خاکوں کی اشاعت سے پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کے جذبات مجروح کیے گئے ہیں۔
یہ ایوان فرانس کے ایک میگزین اور بعدازاں دیگر یورپی و مغربی اخبارات میں توہین رسالت پر مبنی خاکوں کی اشاعت کی پرزور مذمت کرتا ہے، ایوان کی متفقہ رائے ہے کہ آزادی اظہار کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے، آزادی اظہار کا مطلب دوسرے مذاہب کے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنا نہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر اور دیگر عالمی قوانین کا احترام کیا جانا چاہیے، حضورؐ کی حرمت اور دیگر انبیا کے تقدس پر حملے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور جذبات کو مشتعل کرنے کے باعث بنتے ہیں، یہ ایوان اس حوالے سے ہونیوالے پرتشدد واقعات کی بھی مذمت کرتا ہے اور قرار دیتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے اور تمام مذاہب اور مقدس ہستیوں کے احترام کا درس دیتا ہے، ایوان عالمی برادری، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یورپ اور مغربی ممالک کے اخبارات میں چھپنے والے توہین آمیز خاکوں کا سلسلہ رکوائے اور ایسے اقدام کی حوصلہ شکنی کریں۔
فرانس کے جریدے چارلی ایبڈو پر حملے اور تشدد کے نتیجے میں 17 افراد کی ہلاکتوں کے خلاف فرانسیسی عوام نے پیرس کی تاریخ کے سب سے بڑے اجتماع میں شرکت کی جس میں اظہار یکجہتی کے لیے 40 ممالک کے سربراہان شریک ہوئے، اتوار 11 جنوری 2015 کو نکالی جانیوالی اس ریلی میں قریباً 16 لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی جن میں برطانوی وزیر اعظم، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، فلسطین کے صدر محمود عباس، مالی کے صدر ابراہیم ہایوچر کیتا، یورپی یونین کے صدر ڈونلڈٹسک، اردن کے شاہ عبداللہ اور ان کی اہلیہ رانیہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو سمیت کئی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔
ریلی میں شریک افراد آزادی اور چارلی کے نعرے لگا رہے تھے، ریلی کے آغاز پر عالمی رہنماؤں نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ یہ ریلی پیلاڈی لاریبنک کے مقام سے شروع ہوئی اور پیلاڈی نیسیوں پر اختتام پذیر ہوئی جس کی قیادت ہلاک ہونیوالوں کے رشتے داروں نے کی جب کہ پاکستان میں حکومتی، اپوزیشن جماعتوں اور اقلیتی ارکان نے آسٹریلیا، فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک کے اخبارات میں چھپنے والے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف پارلیمانی راہداری سے پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے تک احتجاجی مارچ کیا جس کی قیادت ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی اور وفاقی وزیر سردار یوسف نے کی۔
علاوہ ازیں ملک بھر میں چھوٹی بڑی احتجاجی ریلیاں منعقد کی گئیں لیکن کہیں بھی قومی سطح پر مرکزی ریلی نہ نکالی گئی وجہ؟ معلوم نہیں اور نہ ہی ہمارے میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا۔ عموماً ہمارے لیڈران اور میڈیا ذرا ذرا سی بات کو اچھالتے ہیں اور اس پر لاحاصل ٹاک شو کرتے ہیں۔ سیاسی و ذاتی مفادات کے حصول کے لیے لانگ مارچ، ملین مارچ، طویل دھرنے، ہڑتالیں، مذاکرات وغیرہ کرکے قوم کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ دانشور، کالم نگار، شاعر و ادیب اور مغربی ٹائپ کے این جی اوز اخبار آزادی کی بات کرتے نہیں تھکتے وہ کیوں مسلمانوں کی اس دل آزاری پر خاموش ہیں؟
ایک طرف کہا جاتا ہے کہ جنگ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ہے، مسلمانوں سے نہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلسل اور متواتر عالم اسلام کی دل آزاری کیوں کی جا رہی ہے؟ کیوں ایسا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے؟ اس وقت پورا عالم اسلام عالمی برادری کے ساتھ ہے اور قربانیاں دے رہا ہے کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جائے گا۔ ایسے میں عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ عالم اسلام کا ساتھ دیتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری سے متعلق شر انگیزی کو روکے اور اس بات کو خاطر ملحوظ رکھیں کہ مسلمان نبی کریمؐ سے اپنی جان و مال، اولاد اور عزت سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔
لہٰذا آزادی اظہار کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے، مغرب کا یہ رویہ مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کو برداشت کا درس دینے کے بجائے امت مسلمہ کے دینی جذبات کا احترام کیا جائے۔توہین آمیز خاکوں کی اشاعت قابل مذمت ہے ان کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون سازی کی جائے۔
عجب تماشا ہے ایک طرف دنیا کے بہت سے ممالک نے مختلف مذاہب ہی نہیں بہت سے سیاسی واقعات کی تضحیک کو بھی بہ ذریعہ قانون شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے، مگر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح ہونے سے روکنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی جاتی۔ الٹا اس طرح کے اقدام کو ڈنکے کی چوٹ پر انسانی حقوق کے خانے میں ڈالا جاتا ہے اور آزادی اظہار کا راگ الاپا جاتا ہے، جو ''عذرگناہ بدتر ازگناہ'' کے مترادف ہے۔ الغرض یہ کہ عالمی سطح پر تحفظ ناموس رسالتؐ قانون بنانے اور اسے لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ہر طرح کی انتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے جس کے لیے بلا رنگ و نسل امتیاز کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ تہذیبی ڈائیلاگ کو فروغ دیا جائے تاکہ ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن کو سمجھا جاسکے۔
ایک گروہ کی مخصوص سوچ اور منفی اقدامات کو دین اسلام اور مسلمانوں سے نہ جوڑا جائے۔ دین اسلام امن وآشتی کا مذہب ہے اور نبی کریمؐ کی ذات مبارکہ سارے جہاں کے لیے رحمت ہے۔ آزادی صحافت کے نام پر تہذیبوں کا آپس میں تصادم چاہنے والوں کو ناکام بنانا ہوگا اس دنیا کو مل جل کر امن کا گہوارہ بنانا ہوگا۔
مثال کے طور پر اگر میرا بہترین دوست ڈاکٹر گیپری میری ماں کے بارے میں برے جملے کہے تو وہ جواباً مکے کی توقع کرسکتا ہے، آزادی اظہار حق اور ذمے داری ہے جس میں کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہیے، کسی کو بھی خدا کے نام پر قتل کرنا سمجھ سے بالا تر ہے۔''
ان خیالات کا اظہار عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے سری لنکا سے فلپائن جاتے ہوئے ہوائی جہاز میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ (15جنوری 2015)۔ واضح رہے کہ 7 جنوری 2015 کو فرانس کے دارالحکومت پیرس میں واقع طنز و مزاح اور کارٹونز کے مشہور رسالے ''چارلی ایبڈو'' کے دفتر پر مسلح افراد کے حملے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت کم ازکم 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق 14 جنوری 2015 کو یمن میں القاعدہ کے ایک رہنما نے ایک ویڈیو کے ذریعے فرانسیسی میگزین چارلی ایبڈو پر حملے کی ذمے داری قبول کرلی ہے، یمن میں القاعدہ کے رہنما ناصر بن علی انسی نے ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا ہے کہ جزیرہ نما عرب القاعدہ نے پیغمبر اسلام کی ہتک کا بدلہ لینے کے لیے فائرنگ کی ہے۔
اسی روز عالمی میڈیا میں یہ خبر شایع ہوئی کہ فرانسیسی رسالے ''چارلی ایبڈو'' نے اپنا وہ نیا شمارہ فروخت کے لیے پیش کردیا ہے جس کے سرورق پر اس کے مطابق پیغمبر اسلام کا خاکہ شایع کیا گیا ہے، یہ جریدے کے دفتر پر ہونے والے حملے میں 12 افراد کی ہلاکت کے بعد شایع ہونے والا پہلا شمارہ ہے، میڈیا کا کہنا ہے کہ عموماً اس طنزیہ میگزین کے ایک شمارے کی زیادہ سے زیادہ 60 ہزار کاپیاں شایع ہوتی ہیں مگر رسالے کی انتظامیہ کے مطابق اس بار پوری دنیا میں اس کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے تازہ شمارے کی 30 لاکھ کاپیاں شایع کی گئیں ۔
میگزین کے سرورق پر شایع کیے گئے خاکے کی تفصیلات سرور دو عالمؐ کی شان میں گستاخی پر مبنی ہے جو کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ عالم اسلام سراپا احتجاج ہے کہ اظہار آزادی کی آڑ میں شر انگیزی نہ کی جائے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی نے فرانس کے اس میگزین ''چارلی ایبڈو'' کی جانب سے ایک بار پھر توہین آمیز خاکے شایع کرنے کے مذموم اقدام کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ اور یورپی یونین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کا سلسلہ رکوایا جائے، ان خاکوں کی اشاعت سے پاکستان سمیت پورے عالم اسلام کے جذبات مجروح کیے گئے ہیں۔
یہ ایوان فرانس کے ایک میگزین اور بعدازاں دیگر یورپی و مغربی اخبارات میں توہین رسالت پر مبنی خاکوں کی اشاعت کی پرزور مذمت کرتا ہے، ایوان کی متفقہ رائے ہے کہ آزادی اظہار کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہیے، آزادی اظہار کا مطلب دوسرے مذاہب کے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنا نہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کے چارٹر اور دیگر عالمی قوانین کا احترام کیا جانا چاہیے، حضورؐ کی حرمت اور دیگر انبیا کے تقدس پر حملے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے اور جذبات کو مشتعل کرنے کے باعث بنتے ہیں، یہ ایوان اس حوالے سے ہونیوالے پرتشدد واقعات کی بھی مذمت کرتا ہے اور قرار دیتا ہے کہ اسلام امن کا دین ہے اور تمام مذاہب اور مقدس ہستیوں کے احترام کا درس دیتا ہے، ایوان عالمی برادری، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یورپ اور مغربی ممالک کے اخبارات میں چھپنے والے توہین آمیز خاکوں کا سلسلہ رکوائے اور ایسے اقدام کی حوصلہ شکنی کریں۔
فرانس کے جریدے چارلی ایبڈو پر حملے اور تشدد کے نتیجے میں 17 افراد کی ہلاکتوں کے خلاف فرانسیسی عوام نے پیرس کی تاریخ کے سب سے بڑے اجتماع میں شرکت کی جس میں اظہار یکجہتی کے لیے 40 ممالک کے سربراہان شریک ہوئے، اتوار 11 جنوری 2015 کو نکالی جانیوالی اس ریلی میں قریباً 16 لاکھ سے زیادہ افراد نے شرکت کی جن میں برطانوی وزیر اعظم، جرمن چانسلر انجیلا مرکل، فلسطین کے صدر محمود عباس، مالی کے صدر ابراہیم ہایوچر کیتا، یورپی یونین کے صدر ڈونلڈٹسک، اردن کے شاہ عبداللہ اور ان کی اہلیہ رانیہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو سمیت کئی ممالک کے سربراہان شریک ہوئے۔
ریلی میں شریک افراد آزادی اور چارلی کے نعرے لگا رہے تھے، ریلی کے آغاز پر عالمی رہنماؤں نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی۔ یہ ریلی پیلاڈی لاریبنک کے مقام سے شروع ہوئی اور پیلاڈی نیسیوں پر اختتام پذیر ہوئی جس کی قیادت ہلاک ہونیوالوں کے رشتے داروں نے کی جب کہ پاکستان میں حکومتی، اپوزیشن جماعتوں اور اقلیتی ارکان نے آسٹریلیا، فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک کے اخبارات میں چھپنے والے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے خلاف پارلیمانی راہداری سے پارلیمنٹ کے مرکزی دروازے تک احتجاجی مارچ کیا جس کی قیادت ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی اور وفاقی وزیر سردار یوسف نے کی۔
علاوہ ازیں ملک بھر میں چھوٹی بڑی احتجاجی ریلیاں منعقد کی گئیں لیکن کہیں بھی قومی سطح پر مرکزی ریلی نہ نکالی گئی وجہ؟ معلوم نہیں اور نہ ہی ہمارے میڈیا نے آسمان سر پر اٹھایا۔ عموماً ہمارے لیڈران اور میڈیا ذرا ذرا سی بات کو اچھالتے ہیں اور اس پر لاحاصل ٹاک شو کرتے ہیں۔ سیاسی و ذاتی مفادات کے حصول کے لیے لانگ مارچ، ملین مارچ، طویل دھرنے، ہڑتالیں، مذاکرات وغیرہ کرکے قوم کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ دانشور، کالم نگار، شاعر و ادیب اور مغربی ٹائپ کے این جی اوز اخبار آزادی کی بات کرتے نہیں تھکتے وہ کیوں مسلمانوں کی اس دل آزاری پر خاموش ہیں؟
ایک طرف کہا جاتا ہے کہ جنگ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے ہے، مسلمانوں سے نہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلسل اور متواتر عالم اسلام کی دل آزاری کیوں کی جا رہی ہے؟ کیوں ایسا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے؟ اس وقت پورا عالم اسلام عالمی برادری کے ساتھ ہے اور قربانیاں دے رہا ہے کہ دنیا کو امن کا گہوارہ بنایا جائے گا۔ ایسے میں عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ عالم اسلام کا ساتھ دیتے ہوئے مسلمانوں کی دل آزاری سے متعلق شر انگیزی کو روکے اور اس بات کو خاطر ملحوظ رکھیں کہ مسلمان نبی کریمؐ سے اپنی جان و مال، اولاد اور عزت سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں۔
لہٰذا آزادی اظہار کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے، مغرب کا یہ رویہ مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیلنے کا باعث بن رہا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں کو برداشت کا درس دینے کے بجائے امت مسلمہ کے دینی جذبات کا احترام کیا جائے۔توہین آمیز خاکوں کی اشاعت قابل مذمت ہے ان کی حوصلہ شکنی کے لیے قانون سازی کی جائے۔
عجب تماشا ہے ایک طرف دنیا کے بہت سے ممالک نے مختلف مذاہب ہی نہیں بہت سے سیاسی واقعات کی تضحیک کو بھی بہ ذریعہ قانون شجر ممنوعہ قرار دے رکھا ہے، مگر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح ہونے سے روکنے کے لیے کوئی قانون سازی نہیں کی جاتی۔ الٹا اس طرح کے اقدام کو ڈنکے کی چوٹ پر انسانی حقوق کے خانے میں ڈالا جاتا ہے اور آزادی اظہار کا راگ الاپا جاتا ہے، جو ''عذرگناہ بدتر ازگناہ'' کے مترادف ہے۔ الغرض یہ کہ عالمی سطح پر تحفظ ناموس رسالتؐ قانون بنانے اور اسے لاگو کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے ہر طرح کی انتہا پسندی کا خاتمہ ضروری ہے جس کے لیے بلا رنگ و نسل امتیاز کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ تہذیبی ڈائیلاگ کو فروغ دیا جائے تاکہ ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن کو سمجھا جاسکے۔
ایک گروہ کی مخصوص سوچ اور منفی اقدامات کو دین اسلام اور مسلمانوں سے نہ جوڑا جائے۔ دین اسلام امن وآشتی کا مذہب ہے اور نبی کریمؐ کی ذات مبارکہ سارے جہاں کے لیے رحمت ہے۔ آزادی صحافت کے نام پر تہذیبوں کا آپس میں تصادم چاہنے والوں کو ناکام بنانا ہوگا اس دنیا کو مل جل کر امن کا گہوارہ بنانا ہوگا۔