وارث شاہ کی ہیر
وارث شاہ کی شاعری میں الفاظ کا ایک ذخیرہ دکھائی دیتا ہے جس کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ برتا گیا ہے ۔
ہیر رانجھا کا قصہ جب کہیں، جہاں کہیں سنا اور سنایا جائے گا، وارث شاہ کا نام بھی وہاں آئے گا۔ ہیر وارث شاہ کی مقبولیت کا اندازہ آپ اس طرح بھی لگا سکتے ہیں کہ اس شاہکار کا ترجمہ انگریزی، فرانسیسی، عربی، فارسی، سنسکرت اور اردو زبانوں میں کیا جاچکا ہے، ہمارے یہاں ایک مسئلہ تو تقریباً ہر بڑے شاعر اور ادب نوازوں کے ساتھ ہے وہ یہ کہ ان لوگوں کا کہیں بھی تفصیلی ذکر نہیں ملتا، وارث شاہ کی صحیح تاریخ پیدائش کے بارے میں کئی آرا ہیں کوئی 1720بتاتا ہے تو کوئی 1710۔ بہرحال وارث شاہ پنجابی زبان کے شہرہ آفاق اور عظیم المرتبت شاعر ہیں۔ ان کی پنجابی شاعری کو عالمگیر حیثیت حاصل ہے اور ''ہیر'' کا شمار ادبیات عالیہ میں کیا جاتا ہے۔
وارث شاہ نے حضرت خواجہ دیوان محمد یار چشتی سے بیعت کی اور ان کے مرید کی حیثیت سے بابا فرید گنج شکرؒ کے آستانے سے روحانی فیض حاصل کیا۔ وارث شاہ نے ملکہ ہانس جو پاک پتن سے جنوب کی جانب واقعہ ہے وہاں قیام بھی کیا اور کہتے ہیں وہاں ایک خوبصورت عورت جو ''بھاگ بھری'' کے نام سے مشہور تھی اس کے عشق میں گرفتار ہوگئے اور وہ بھی آپ کی دیوانی ہوگئی۔ پھر آپ نے کہیں اور جاکر ٹھہرنے کو منسوخ کردیا اور وہیں کے ہو رہے جہاں بھاگ بھری تھی لیکن دنیا نے دو پیار کرنے والوں کو کب قبول کیا ہے۔ بھاگ بھری کے رشتے داروں نے آپ کو تنگ کرنا شروع کردیا اور یہی وجہ ''ہیر'' جیسی لافانی پنجابی شاعری کی تخلیق ہے جو ہماری ثقافت کا حصہ بن چکی ہے، بھاگ بھری کی رعایت سے جو داستان عشق ان کے ساتھ نتھی کردی گئی ہے اس کو تقاضائے بشر کے باعث خارج از امکان تو نہیں کہا جاسکتا لیکن واضح شواہد کی عدم موجودگی کی بنا پر فرضی گردانا بھی جاسکتا ہے۔
کسی بھی فنکار، شاعر و مصور کے کام کو سمجھنے یا اس پر سیر حاصل تبصرہ کرنے سے پہلے یہ بات بہت ضروری ہے کہ ہم اس کے زمانے کی سیاست، مذہبی اقدار، سماجی اور اخلاقی پہلوؤں کو اور اس کے زمانے کے ادب کو تحقیق کے ساتھ پرکھیں۔ آپ وارث شاہ کی ہیر میں اٹھارویں صدی کی سیاسی، مذہبی اور سماجی زندگی کو دیکھ سکتے ہیں۔ وارث شاہ کا زمانہ سیاسی لحاظ سے انتہائی پرآشوب تھا۔ وارث شاہ اور احمد شاہ ابدالی تقریباً ہم عصر ہی ہیں۔ وارث شاہ نے ملکی حکمرانوں کی باہمی رقابتیں، سکھوں کی شورش ، بغاوت اور احمد شاہ ابدالی کی کئی شورشیں اپنی آنکھوں سے دیکھی ہیں۔
وارث شاہ کا وطن (جنڈیالہ شیر خاں، ضلع، شیخوپورہ) اور ان کی درسگاہ دونوں ہی ان دنوں حملوں کی زد میں تھے، جس کا دکھ وارث شاہ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا اور انھوں نے ہیر میں جابجا اس کا اظہار بھی کیا ہے، مثلاً کہیں کٹک پنجاب(سکھوں کی فوج) کٹک قندھار (ابدالی کی فوج) اور کہیں قزلباش جلاد (نادر شاہ کی ایرانی فوج) کا ذکر کیا ہے، شاعر اپنے زمانے کا مورخ بھی ہوتا ہے، وہ جو حالات، سیاسی اتار چڑھاؤ اور طرح طرح کی سماجی اور معاشی تنزلی دیکھتا ہے ان کو اپنے اشعار میں سمو دیتا ہے۔
''وارث شاہ وساں کی زندگی دا بندہ بکرا ہتھ قصائیاں دے''
ترجمہ: ''یعنی وارث شاہ کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، انسان قصائی کے چنگلوں میں پھنسا ہوا ہے۔''
اس زمانے میں فارسی کے بغیر ہر تعلیم نامکمل تصور کی جاتی تھی۔ گلستان، بوستان، نظامی کا سکندر نامہ مثنوی لیلیٰ مجنوں، دیوان حافظ وغیرہ۔ وارث شاہ کی شاعری میں الفاظ کا ایک ذخیرہ دکھائی دیتا ہے جس کو بڑی خوبصورتی کے ساتھ برتا گیا ہے ۔ وارث شاہ کی شاعری میں اردگرد بولی جانے والی زبانوں کے کچھ مخصوص لہجے بھی شامل ہیں جن کی وجہ سے ان کی شاعری کھنکتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
وارث کی شاعری میں پوٹھوہاری، ہندکو، شاہ پوری، ڈیروی اور ملتانی لہجے کی گھلاوٹ نے ایک مشترک زبان کو اٹھان دی ہے۔ہیر وارث شاہ کے کلام میں شوخی، بے ساختگی اور تاثیر حد درجہ کی ہے، محاورے اور ضرب الامثال بڑے شائستہ طریقے سے استعمال کیے گئے۔ وارث شاہ اپنے سماج کی عکاسی میں حقیقت نگاری کی سطح تک پہنچ گئے ہیں، مذہبی اجارہ داروں کا پردہ چاک کرتے ہوئے بڑی صاف گوئی سے کام لیا ہے، اس میں عوامی جذبات کی بھرپور ترجمانی بھی ملتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وارث نے جس خوبی سے قصہ گوئی کے سارے لوازمات پورے کیے ہیں وہ اسی کا حصہ ہے، پلاٹ مسلسل اور مربوط ہے، ربط کے تمہیدی اشارے وارث ساتھ ساتھ کرتا جاتا ہے، گویا ایک بات سے دوسری بات خود بخود نکل آتی ہے۔
اوتھے' خودی گمان منظور ناہیں سر دیجیے تاں بھیت پا لیے
وارث شاہ محبوب نوں تدوں پائیے جدوں اپنا آپ گوا لیے
وارث کی شاعری میں مکالمہ نگاری کا معیار فن کی انتہائی بلندی کو چھوتا ہے، مکالمے نہایت، جاندار، بے ساختہ اور برجستہ ہیں۔ آپ وارث شاہ کی شاعری میں ان کرداروں کے مابین ایک ربط خاص دیکھ سکتے ہیں جن کو وارث شاہ نے اپنی شاعری میں جہاں ضروری سمجھا وہاں ان کے درمیان مکالمے کی فضا کو مضبوطی سے جوڑدیا ہے، مناظرہ کے وقت مناظرہ، مکالمہ کے وقت مکالمہ جن صحیح معنوں میں وارث کے کلام میں ملتا ہے وہ کسی اور شاعر کے ہاں نہیں۔ بلاشبہ وارث کی قادرالکلامی نے اس مکالمانہ رنگ کو ماہرانہ ترقی دی۔ آپ ہیر پڑھیں تو آپ کو ایک چیز لازماً اپیل کرے گی وہ یہ کہ آپ ہر بند یا ردیف میں عموماً کسی خاص مضمون، کسی خاص جذبے، واقعے یا حالت کو دیکھتے ہیں جس کا وارث سے یارا ہے۔ اس میں اخلاقی سبق، کوئی سنہری قول یا کوئی مشہور ضرب المثل ہوتی ہے، جس پر ''دریا کو کوزہ میں بند کرنے والی مثل'' صادق آتی ہے۔
تیری عاجزی عجز منظور کیتی تاں میں مندراں کن وچہ سوریاں اوئے
وارث شاہ نہ عادتاں جاندیاں نیں بھاویں کٹئے پوریاں پوریاں اوئے
ترجمہ: ''میں نے تو تیرا عجز و انکساری کو منظور کرکے تیرے کانوں میں مندریں ڈالی تھیں، وارث شاہ لیکن عادتیں نہیں جاتیں خواہ اس آدمی کی پور پور ہی کیوں نہ کاٹا دیا جائے۔''
ڈرامہ تاریخ و تقویمی اعتبار سے یونان کی دیومالائی کرداروں کے آپس میں مکالمے سے وجود میں آیا، اور اس کا اثر تقریبا سارے سماج پر ہی پڑا، ہیروارث شاہ پانچ ایکٹ کا ایک منظوم ڈرامہ ہی ہے، جس میں کردار نگاری، اپنے عروج پر ہے، یونانی ڈرامے میں پلاٹ کے اعتبار سے کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے کورس کی ضرورت ہوتی تھی لیکن ہیر میں ایسا کچھ نہیں ہے ہیر میں کرداروں کی جاندار اساس سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے راہ چلتے ہوئے کسی سے ملاقات ہوجائے ایسا ہی نظر آتا ہے، شاعر، فطرت یا قدرت کے مناظر کا عاشق ہوتا ہے، اور شاعر اپنی شاعری سے زمانہ کو ایک پیغام بھی دینا چاہتا ہے، وارث اپنی شاعری سے زمانے کو باہمی محبت، خلوص اور پیار و محبت اور حسن سلوک کا پیغام دیتا ہوا نظر آتا ہے، اور دوسری طرف لوگوں میں سیاسی، دینی، روحانی اور فکری انقلاب لانے کی کوشش کی ہے۔
وارث نے اپنی ہیر میں مذہبی اخلاقی، تمدنی مسائل اور حقائق و مصارف پر روشنی ڈالی اور قارئین کو کونین کی گولی شہد میں بھگو کر دی ہے، بعض ناقدین کے خیال میں جن شاعروں نے وحدت الوجود کو اپنی شاعری میں جگہ دی ان کی شاعری میں تصوف کا رنگ بھی عیاں ہوتا ہے، علامہ اقبال، بلے شاہ، سلطان باہو، خواجہ فریدؒ، شاہ عبداللطیف بھٹائی کے یہاں یہ رنگ ملتا ہے لیکن بعض ناقدین وارث شاہ کو صوفی شعرا کی فہرست میں شامل نہیں کرتے حالانکہ وارث کے متعدد شعروں میں تصوف کا رنگ نمایاں ہے جن کو پڑھ کر یا سن کر وجدانی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔
ہمارے ناقدین کے پاس وہ کون سا معیار ہے جس کے تحت وہ شاعری، تنقید و تحقیق کے میدان میں کسی پر جدید، غیر جدید، ترقی پسند، غیر ترقی پسند، دائیں بازو یا بائیں بازو، مذہبی اور غیر مذہبی کا لیبل لگاتے ہیں، وارث شاہ کی ہیر میں سے اگر تاریخی واقعات یا عام مسائل کو جمع کیا جائے، تو شریعت محمدیؐ اور اسلامی تاریخ کا ایک مجمل سا خاکہ تیار ہوجاتا ہے نہ صرف یہ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وارث نے ملکی تاریخ کا بھی جا بجا استعمال کیا ہے، یعنی ہندوستان کے چند مشہور جنگی معرکوں (کوروں پانڈو) زبردست سورماؤں، جانباز عاشقوں، اور خدا دوست سادھوؤں کا ذکر بھی ہے، مثلاً دھنر، راون، گوپی چند، بھرتری ہری، رام لچھمن جی وغیرہ۔
طویل منظومی قصوں میں اگر قارئین کو جکڑ لینے کی صلاحیت ہو تو وہ سننے پڑھنے والوں پر اثر ڈالتے ہیں، اور ان کو کہیں بھی گرہ ٹوٹنے کا یا تسلسل میں فرق نہیں محسوس ہوتا یہی خاصیت ہیر کے ساتھ ہے۔
وارث شاہ پر اب تک مختصر کام ہوا ہے، وارث شاہ جیسے بڑے کینوس کے شاعر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ خدا کرے وہ وقت آئے جب علم کے پیاسے اپنے وقت کے جید لوگوں پر تھیسس لکھیں، اور ان پر تحقیقی کام ہوں۔