نوجوانوں کا کردار

اگر کسی نوجوان کا آئیڈئل ہی اُمید سے خالی ہو تو پھر زندگی میں کسی چیز کا کوئی مقصد نہیں رہتا۔


سید عون عباس January 25, 2015
مایوسی جب کسی معاشرے کا دامن پکڑ لیتی ہے تو ایسے دور میں کسی معجز ے یا کرشمہ قدرت کا انتظار کرنے کے بجائے ہر کسی کی توجہ اور توقع اس قوم کے نوجوانوں پر مرکوز ہو جاتی ہے۔

ہم بدلتے ہیں رُخ ہوائوں کا

آئے دنیا ہمارے ساتھ چلے

وقت کے تغیرمیں کبھی بھی کسی ملک یا قوم کی حالت ایک سی نہیں رہتی۔ اگر کوئی ریاست تاریکی کے اندھیروں میں غرق ہوچکی ہوتی ہےتو وقت کی تبدیلی ہی اس میں ایک روشن کرن ثابت ہوتی ہے۔ مایوسی یا حالات کی تنگ دستی جب کسی معاشرے کا دامن پکڑ لیتی ہے تو ایسے دور میں کسی معجزے یا کرشمہ قدرت کا انتظار کرنے کے بجائے ہر کسی کی توجہ اور توقع اس قوم کے نوجوانوں پر مرکوز ہوجاتی ہے کہ وہ کب اٹھیں گے اور بیدار ہونے کے بعد مایوسی کے گلے پر چھڑی پھیریں گے۔

ایک دن میں بیٹھا اسی بارے میں سوچ رہا تھا جس کے بعد میں نے اپنے دادا جان سے کہا کہ مجھے کوئی ایسی نصیحت فرمائیں جو مجھ جیسے نوجوانوں کے کام آئے۔ دادا جان نے جواب دیا کہ میاں تمہارے جیسے نوجوانوں کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ تم لوگ ہماری عمر کے لوگوں سے دور رہو۔ میرے استفسار پر وہ گویا ہوئے کہ اُن کی عمر کے لوگ کبھی بھی ملک کے لئے کچھ نہیں کرسکے، اس لئے ان کی قربت نئی نسل کی تربیت اور ٹھیک سمت چلنے کی تلقین تو کرسکتی ہے مگر تبدیلی کے لیے شاید کچھ نہیں دے سکے گی۔ ہمارے جیسے ملکوں میں عمر کے ساتھ مایوسی کا بڑھنا شاید فطری عمل ہے۔ دادا جان کی کچھ بات مجھے اس لئے ٹھیک لگی کہ ہر نوجوان کسی نہ کسی کو اپنا آئیڈئل بناتا ہے اور اگر اس کا آئیڈئل ہی اُمید سے خالی ہو تو پھر زندگی میں کسی چیز کا کوئی مقصد نہیں رہ جاتا۔

مطالعہ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ 1799ء میں انقلاب فرانس کی بات کی جائے یا 1979ء میں انقلاب ایران، 18دسمبر 2010 تیونس میں آنے والی تبدیلی کی بات دہرائی جائے یا 25جنوری 2011 میں مصر کی سلطنت کی تباہی کا تذکرہ ہو، یا پھر 2011ء میں لیبیا اور اس کے بعد 2012ء یمن میں آنے والے وہ انقلاب جس کے نتیجے میں صدیوں سے چلنے والی موروثی حکومت کے راج ختم ہوا۔ تاریخ ِعالم میں برپا ہونے والے ان تمام انقلابات کے پیچھے اگر کسی کی محنت اور قربانیاں ہیں تو وہ صرف اور صرف ان ممالک کے نوجوان ہیں۔

1979ء انقلاب ایران کے بعد آیت اللہ خمینی نے اپنے ایک خطبے میں کہا کہ؛
''ایران جو انقلاب سے پہلے مغربی ممالک کی طرح فحاشی اور برائیوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اور کوئی اسلامی طرز کا کام یہاں نہیں ہورہا تھا، اگر اس نظام کو کسی نے تبدیل کیا اور ایران کو اسلامی جمہوریہ ایران بنانے میں اپنا کردارادا کیا، جس سے اس ملک اور سر زمین پر قیام امن برپا ہوا تو اس کے پیچھے ایران کی نوجوان نسل ہے، جس نے اپنے مضبوط ارادے اور قوت سے اس ملک کی تقدیر بدل دی۔ میرا سلام ہو ایسے نوجوانوں اور ان کے والدین پر''۔

1979 Iranian Revolution.jpg

فوٹو؛ وکی پیڈیا

اگر تاریخ پاکستان کی بات کی جائے تو اس میں بھی ہمیں نوجوانوں کا ہی کردار سب سے اہم نظر آتا ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد ندوۃالعلماء ہو یا علی گڑھ سب نے مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ سر سید احمد خان کا لندن جانا اور وہاں جاکر ڈینئل ڈیفو اور رچرڈ اسٹیل جیسے معروف صحافیوں کے رسالوں سے متاثر ہونا بھی بے معنی نہیں تھا۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد سرسید احمد خان نے تہذیب الخلاق نامی اخبار نکالا، جس کا بنیادی مقصد مسلمانوں میں بیداری اور شعور کی آگاہی تھا۔

سر سید احمد خان نے جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا وہ یہی تھی کہ اگر کسی چیز میں مسلمانوں کی بقاء و سلامتی پوشیدہ ہے تووہ صرف اور صرف یہی ہے کہ نوجوانوں کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔ سر سید احمد خان یہ بات صرف کتابوں کی حد تک نہیں رہی بلکہ جب ہم اس پر عمل ہوئے تو پھر پورے برصغیر نے دیکھا کہ کس طرح مسلم نوجوانوں نے تحریک ِپاکستان میں اپنا کردار ادا کیا۔

وہ بیج جو سر سید احمد خان نے لگایا تھا 14اگست 1947کو وہ ایک تناور درخت بن گیا۔ ایک مقام پر قائداعظم نے علی گڑھ کالج کے طلباء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ
''علی گڑھ تحریک کے نوجوان پاکستان کا اسلحہ خانہ ہیں''

بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے جہاں قوم کی بقاء کے لیے اس میں اتحاد، تنظیم اور یقین محکم جیسی خوبیوں کا ہونا لازمی قرار دیا تو دوسری جانب اس بات کا بھی یقین دلایا کہ کسی بھی ملک کے قیام امن میں جو کردار نوجوان نسل ادا کرسکتی ہے وہ کسی اور کے حصّے میں نہیں آسکتا۔ اور پھر قائداعظم کے وہ تاریخی جملے کہ
''آج کے نوجوان کل ملک کے معمار ہوں گے''۔

کل کے نوجوان یعنی قائداعظم نے آج کے نوجوان کو فکری سمت عطاء کی تھی۔ میرے قائد جب نوجوان تھے تو انہوں نے علم کو اڑنا بچھونا بنایا ہوا تھا، وہ ایک ایسے وکیل کے طور پر دنیا کے سامنے آئے تھے کہ ہر کس و ناکس انہیں Man of words کہنے پر مجبور ہوگیا۔



فوٹو فائل

قائد کے بعد کی نسل میں اور 1973ء کے آئین تک کم و بیش 25 برس کا فاصلہ ہے ان پچیس برسوں میں اس وقت کے نوجوان کس طرح بے سمتی کا شکار ہوئے اور انہی نوجوانوں کی عطا کردہ شاہراہ ہم جیسے نوجوانوں کا مقدر ٹھہری۔ کل کے اور آج کے نوجوان میں رابطے کا قفدان مقدر ٹھہرا۔ آج کا نوجوان اقبال کے اس مصرے کے مصداق۔
اپنی دنیا آپ کر اگر زندوں میں ہے
سمت کے تعین کے لئے ہمہ وقت کوشاں نظر آیا

دادا جان کی آدھی بات سے مجھے انکار اس بناء پر ہے کہ نوجوان کتنے ہی آگے کیوں نہ بڑھ جائیں ان کی سمت کا تعین کرنے میں بڑے بوڑھوں کا ہی کردار ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال جدوجہد تحریک پاکستان کے موقع پر ملتی ہے جب خواجہ ناظم الدین نے اپنے بیٹے کو خط لکھا جو علیگڑھ میں پڑھتا تھااور کہا
"تم کو چاہئے کہ تحریک ِ پاکستان کے کام میں کوئی غفلت نہ ہو ، تم تو اگلے سال بھی امتحان میں بیٹھ سکتے ہو مگر قوم کا ایسا امتحان ہر سال نہیں آتا "۔ َ

بزرگوں کی وہی نصیحتیں تھیں جس پر عمل پیرا ہو کر اس وقت کے نوجوان اُس امتحان میں بڑی محنت کے بعد کامیاب ہوئے اور آج بھی نوجوان اپنے علم و عمل سے ملک کے قیامِ امن میں اپنا بہترین کردار ادا کر رہے ہیں۔
نوجوانوں کو مل سکے منزل
یہی اس ملک کا ہے مستقبل

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |