مُرد ہ گھر

وقت کے ہاتھوں لٹنے کے بعد میرے پاس بس ایک عزت کی دولت ہی بچی تھی اب مجھے اپنی اسی دولت کو بچانا تھا!


جس عزت کو بچانے کے لیے میں بھاگی تھی۔ جس کو بچانے کے چکر میں میری جان گئی ۔۔۔ وہ اب ہسپتال کے اس مردہ خانے میں پامال ہورہی تھی!۔ فوٹو: فائل

وہ زندگی جو میرے والدین کے مرنے کے بعد میرے لئے مصائب اور پریشانیوں کا مرکز بن گئی تھی آج بلاخر وہ ختم ہوہی گئی!

زندگی بعض لوگوں کے ساتھ بالکل کسی سوتیلی ماں کا سا رویہ رکھتی ہے جس سے آپ کتنی بھی اُمیدیں اور خواہشات وابستہ کرلیں آخر میں ایک نفرت بھری جھڑکی کے سوا اور کچھ نہیں ملتا۔

کہتے ہیں والدین کواولاد کی موت کا غم نہیں ملنا چاہئیے اور میرا ماننا ہے کہ اولاد کو بھی ماں باپ کی موت کا غم نہیں ملنا چاہیئے کہ آپ کا ہونا جن کے ہونے کے سبب ہو اور وہیں نہ رہیں تو آپ کا وجود کسی عمارت کی اُن دیواروں کی مانند رہ جاتا ہے جس کی بنیادیں ڈھے چکی ہوں!

مگر اس خواہش کا حصول ناممکن ہی ہے کہ آپ کے پیارے آپ سے کبھی جُدا نہ ہوں۔ انسانی زندگی کا سفر درحقیقت مسکراہٹ سے رونے تک پر مشتمل ہے۔ کسی انسان کی پیدائیش پر شروع ہونے والا مسکراہٹوں اور خوشیوں کا سفر بلاخر اُس کی موت پر رونے اور ماتم پر ختم ہوجاتا ہے۔ زندگی سے جڑی باقی چیزیں اور حالات تمام عمر اسی مسکراہٹ اور رونے کے چکر کے گرد گھومتے رہتے ہیں۔

میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ میری زندگی سے مسکراہٹوں نے اُس روز رخصت لے لی جب اچانک ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں میری امی ابو کا انتقال ہوا۔ اُس روز ہمارے گھر میں تین میتیں ہوئیں بس فرق اتنا تھا کہ دو کو آخری رسومات کے بعد دفنادیا گیا تھا!

مجھے اپنا گھر قبرستان اور اپنے کمرے کی دیواریں اپنی قبر محسوس ہونے لگی تھیں جہاں گذرتے ہوئے لمحے منکر نکیر کی صورت مجھ پر عذاب ڈھاتے رہتے تھے۔

امی ابو کے چہلم تک کا یہ عرصہ کسی نہ کسی رشتہ دارکے میرے پاس رکنے کے سبب جیسے تیسے کٹ ہی گیا۔ گو آج سب اپنی زندگیوں اور مسائل میں اُلجھے ہوئے ہیں مگر چہلم کے بعد کسی رشتے دار کو اتنی توفیق نہیں ہوئی کہ جھوٹے مُنہ ہی یہ کہہ دیتا کہ جوان جہان تنہا اس گھر میں کیسے رہوگی۔ ہمارے ساتھ چل کے رہ لو اور پھر میں اپنے قبرستان نما گھر میں کسی بدروح کی طرح بھٹکنے کو تنہا رہ گئی۔

وقت کی خوبی رہی ہے کہ اس کے ہمراہ چلنے والے رُک جاتے ہیں مگر اس کی رفتار پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میں نے بی اے کیا ہوا تھا لہذا نوکری کی تلاش شروع کردی۔ گھر سے باہر نکلنے پر مجھے دوطرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑا جس سے مجھے لگا کہ دنیا میں صرف دو طرح کے لوگ بچے ہیں ایک مردہ اوردوسرے گدھ!

اور نوکری کی تلاش میں قدم قدم پر میرا انہی دو سے واسطہ پڑا۔ ہنستے ہوئے مردے، چلتے ہوئے مردے ، بیٹھے ہوئے مردے یہی حال اُن تمام گدھوں کا تھا جنہیں بس اپنی بھوک مٹانے کے لئے ایک جسم درکار تھا اس سے کوئی غرض نہیں کہ اپنی بھوک مٹانے کو وہ ایک مردہ جسم پر ٹوٹے ہیں یا کسی زندہ پر۔ خود کو انہی گدھوں سے محفوظ رکھنے کی خاطر آخر کار میں نے ملازمت کے بجائے گھروں پر بچوں کو ٹیوشنز دینے کو ترجیح دی۔

میں جوآہستہ آہستہ وقت کے ساتھ سنبھلتی جارہی تھی تو وقت کو ایک بار پھر میرا یوں سنبھلنا پسند نہیں آیا۔ بچوں کے امتحانات ختم ہوچکے تھے اور میرے پاس گنتی کے دو ہی گھر رہ گئے تھے جہاں میں ٹیوشن پڑھانے جاتی تھی۔ کچھ دنوں سے میں نوٹ کررہی تھی کہ ایک گھر جہاں میں بچوں کو ٹیوشن پڑھانے جاتی تھی۔ ان بچوں کا باپ بھی جو مجھے شروع میں مردہ ہی لگا تھا چلتا پھرتا اُٹھتا بیٹھتا گھورتا ہوا۔ اب آہستہ آہستہ اُس کی آنکھوں میں مجھے دیکھ کر ایک عجیب سی چمک نمودار ہونے لگی تھی۔ وہی چمک جو ایک گدھ کی آنکھوں میں اپنا شکار دیکھ کر اترنے لگتی ہے اور اپنے شکار کے گرد اس خیال سے چکراتا رہتا ہے کب اس کی آخری سانس ٹوٹے اور وہ اس جسم سے ضیافت اُڑائے۔ اب مجھے جلد سے جلد ایک نئے ٹیوشن کی تلاش تھی تاکہ میں اس گھر سے جان چھڑا سکوں مجھے پتہ تھا کہ وقت کے ہاتھوں لٹنے کے بعد میرے پاس بس ایک عزت کی دولت ہی بچی تھی جس پر یہ شب خون نہیں مار پایا تھا اور اب مجھے اپنی اسی دولت کو بچانا تھا!

مگر انسان سوچتا کچھ ہے اور ہوتا کچھ ہے قبل اس کے کہ میں یہ گھر چھوڑتی مجھ پر ایک قیامت ٹوٹ پڑی۔ میں حسبِ معمول بچوں کو پڑھانے اپنے وقت پر گئی مگرگھر پر کوئی نہیں تھا سوائے وہی گدھ اپنے ایک دوسرے دوست گدھ کے ساتھ موجود تھا۔ خطرے کا احساس ہونے پر قبل اس کے کہ میں بھاگتی وہ دونوں گدھ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ مگرمیں نے سوچ لیا تھا کہ مرجاؤں گی خود کو یوں لٹنے نہیں دوں گی اور اسی خیال نے میرے اندر نجانے کہاں سے اتنی طاقت بھردی کہ میں نے اپنے بچاؤ میں ہاتھ آیا ہوئے ایک سائیڈ ٹیبل کے گلدان کو اُن میں سے ایک گدھ کے سر پر مارا اُس کے سر سے خون کا فوارہ نکلتے دیکھ کر دوسرے گدھ کی گرفت خود ہی ہلکی ہوگئی اور میرے لئے اتنا ہی موقع غنمیت تھا دو چار جگہ سے اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں سے بے خبر میں باہر کی جانب بھاگی۔

میں اپنے حواسوں میں نہیں تھی بس میرے کانوں میں بہت سے گدھوں کی آوازوں کا شور تھا اورمیں اندھا دھند بھاگ رہی تھی اور اپنی عزت بچانے کے لئے یوں بھاگنے نے مجھے موت کے قریب کردیا جب اندھیرے میں دوسری جانب سے نجانے کوئی سوزوکی تھی یا کوئی چھوٹا ٹرک جو مجھے روندتے ہوئے گذر گیا۔ کافی دیر میری لاش وہیں پڑی رہی پھر ایک ایمبولنس نے مجھے پہلے ہسپتال اور پھر رسمی سی خانہ پُری کے بعد مجھے اس مردہ خانے میں منتقل کردیا گیا۔ اس تمام تر واقعے میں چھ یا سات گھنٹے گزرے تھے مگر کسی کو خبر بھی نہیں ہوگی کہ کچھ گھنٹوں قبل چلتا پھرتا ایک جسم دنیا سے کم ہوگیا ہے!

رات کا نجانے کو نسا پہر تھا جب اس مردہ خانے کے آہستہ سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی ۔ کمرے میں داخل ہونے والے آہستہ آہستہ سرگوشیاں کررہے تھے یہ تین لوگ تھے قریب آنے پر اُن کی سرگوشیاں واضح ہوگئیں۔ یہ یقیناً مردہ خانے کا انچارج تھا جو بقایا دوآدمیوں سے پیسوں پر بحث کررہا تھا۔ دو ہزار روپے دیتے ہو تو بولو۔ اُس کی اس بات پر اُن دو آدمیوں میں سے ایک غصے میں ہلکی سی سرگوشی سے بولا کیا پاگل ہورہے ہو۔ دو ہزار میں تو زندہ گوشت مل جاتا ہے۔ مردہ خانے کا انچارج خباثت سے ہنستے ہوئے بولا پھر اُنھی گوشت کی دکانوں پر جاؤنا۔ جہاں آئے دن پولیس چھاپے ماردیتی ہے یہاں میں دوسال سے یہ کام کررہا ہوں چھاپہ تو دور کی بات کسی کو شک بھی نہیں ہوتا! اس سے محفوظ جگہ کوئی ہوگی کیا؟ جہاں عزت سے آؤ اور عزت سے چلے جاؤ!اور یہ کونسا زیادہ باسی گوشت ہے ابھی چھ سات گھنٹے ہی تو ہوئے ہیں!

مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا ان کی کس چیز پر یوں پیسوں پر بحث ہورہی تھی اور یہاں اس مردہ خانوں میں ایسا کونسا گوشت تھا جسے یہ دو آدمی لینے آئے تھے؟ بالاخر کافی تکرار کے بعد یہ معاملہ پندرہ سو پر طے ہوا اور مردہ خانے کا انچارج اُن دونوں آدمیوں سے آدھے گھنٹے بعد واپسی کا بولتے ہوئے چلاگیا۔ ابھی ان کی باتوں پر میں کچھ اور سوچتی کے مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی اور لمحے بھر میں ہی مجھے اُن سرگوشیوں کا مطلب سمجھ آگیا جو پیسوں اور گوشت کے حوالے ابھی چند لمحے پہلے یہاں ہورہی تھیں۔ میرے جسم میں جان ہوتی تو یقیناً میری چینخیں آسمان ہلاد یتیں۔۔۔۔۔۔۔۔ جس عزت کو بچانے کو میں بھاگی تھی۔ جس کو بچانے کے چکر میں میری جان گئی ۔۔۔ وہ اب ہسپتال کے اس مردہ خانے میں پامال ہورہی تھی!

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں