کیا پرویزمشرف کا کیس بھی فوجی عدالت میں چلے گا سردار اختر مینگل
دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں کو بھی سزا ملنی چاہئے، بلوچستان کے بارے میں مرکز اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ تبدیل نہیں ہوا
سردار اختر جان مینگل ممتاز قوم پرست بزرگ بلوچ راہ نما سردار عطاء اﷲ مینگل کے صاحبزادے ہیں اور گذشتہ تین عشروں سے بلوچستان کی سیاست میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن لیڈر بھی رہ چکے ہیں۔
1988ء سے مسلسل صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ وہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے بلوچ عوام کے حقوق کے لیے اسمبلی سمیت ہر فورم پر آواز اُٹھائی ہے۔ بلوچستان میں مسخ شدہ نعشوں کے ملنے اور نوجوانوں کو لاپتا کرنے، ماورائے آئین گرفتاریوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا، جن میں لانگ مارچ بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ میں چھے نکات بھی پیش کیے جنہیں خاصی اہمیت ملی صوبے کے مسائل اور وسائل کے دفاع کے لیے آواز اُٹھانے پر انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ ان کی جماعت بی این پی کا شمار ایک بڑی قوم پرست جماعت کے طور پر ہوتا ہے۔
سردار اختر مینگل نے نوجوانی ہی میں سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ اس وجہ سے نوجوان طبقے میں انہیں خاصی پذیرائی حاصل ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں جب صوبے میں امن و امان کی صورت حال بہت زیادہ خراب تھی، تو سردار اختر مینگل بیرون ملک چلے گئے، لیکن عوام کے دباؤ پر واپس آکر 2013ء کے الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں۔ دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والے سردار اختر مینگل سیاسی داؤ پیچ کا خوب احاطہ کرتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس نے بلوچستان اور ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال ، امن وامان کی ابتری سمیت مختلف اُمور پر ان سے بات چیت کی جو قارئین کے لیے پیش ہے۔
سوال: سردار صاحب! بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت کی کیا کارکردگی ہے اور اس سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
اخترمینگل: یہاں تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ پتا نہیں کہ میری روشنی یہاں کارآمد ثابت ہوتی ہے یا نہیں حکومت میں شامل جماعتیں اپنے آپ کو قوم پرست کہتی ہیں۔ اب یہ بھی پتا نہیں کہ یہ قوم پرستی کے زمرے میں آتے بھی ہیں یا نہیں۔ مجھے تو ان کے جمہوری ہونے پر بھی شک ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک سے وزیراعلیٰ بننے سے قبل میں نے کہا تھا کہ آپ کو اس مشکل مرحلے میں یہ ذمہ داری دی جارہی ہے، آپ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سمجھ بھی نہیں سکیں گے اور انہیں مطمئن بھی نہیں کرسکیں گے۔
اب امن و امان کی صورت حال نہایت ابتر ہے۔ گوادر سمیت کوئی ایک ضلع یا تحصیل بتادی جائے، جہاں امن وامان کی صورت حال بہتر ہو۔ کوئٹہ میں ڈاکٹروں، سیاسی راہ نماؤں کو اغواء کیا جارہا ہے۔ صحافی قتل کیے جارہے ہیں۔ منسٹرز اور بیورو کریسی پر حملے ہورہے ہیں۔ سول اسپتال کوئٹہ میں پولیو ویکسین کے سرٹیفکیٹس فروخت کیے جارہے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں ہیلتھ ورکرز، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، کو قتل کیا جارہا ہے۔ لسانی فسادات بھی ہورہے ہیں۔ مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ یہ کون سی تبدیلی لائے۔ حالات تو دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی کارکردگی تو دیکھیں۔ آواران میں زلزلہ آیا کئی لوگ جاں بحق ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوگئے، ان کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ جب معاملہ گرم تھا تو وزیراعظم بھی گئے، وزیراعلیٰ بھی گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے ان متاثرین کے لیے تین ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔
مرکز نے بھی اعلانات کیے۔ متاثرین کو مکانات بنانے کے لیے پہلی قسط بنیاد رکھنے کے لیے دی گئی۔ دوسری قسط دیواریں کھڑی کرنے کے لیے دی گئی، لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ بارش ہوئی کچی دیواریں پانی میں بہہ گئیں۔ متاثرین وہیں کے وہیں رہ گئے۔ وزیراعلیٰ اپنے حلقۂ انتخاب کے لیے سات ارب روپے کا اعلان کرتے ہیں لیکن دوسرے حلقوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کرپشن کی انتہا ہے کہ انہوں نے میرٹ کو بالکل نظرانداز کردیا ہے۔ نوکریاں بِک رہی ہیں۔ حکومت کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی پر ہم جلد ہی وائٹ پیپر جاری کررہے ہیں۔
سوال: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ نام زد ہوئے تھے تو عام تاثر تھا کہ انہیں اس منصب کے لیے آپ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یہ تاثر کس حد تک درست ہے؟
اخترمینگل: ان کی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نام زدگی کے بعد جب میں اسلام آباد گیا تو مجھے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا فون آیا تھا کہ ہم نے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بلوچستان نام زد کردیا ہے۔ نام زدگی سے قبل مجھ سے کوئی رائے نہیں لی گئی تھی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم نے انہیں سپورٹ کیا ایسی بات نہیں۔ البتہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے، تاکہ کل ہم پر کوئی الزام نہ آئے۔ انہوں نے جو دعوے کیے تھے وہ درست ثابت نہیں ہوئے۔
سوال: بی این پی مینگل اسمبلی میں موجود ہے، لیکن اس کا اپوزیشن کا کردار نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ اس کی کیا وجہ ہے اور مسلم لیگ (ن) اگر وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو بی این پی اس کا ساتھ دے گی؟
اخترمینگل: بی این پی کسی کی بیساکھی بنی ہے نہ بنے گی اور نہ ہی ہم کسی کو بیساکھی بنائیں گے۔ ہمارے لیے صوبے میں بڑے بڑے ایشوز ہیں۔ اپوزیشن کو اگر ضرورت پڑی تو دیکھیں گے۔ ہم نے اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا، بل کہ سڑکوں پر عوام کے پاس گئے ہیں۔
عوام نے ہمیں حقیقی اپوزیشن کہا ہے اور میرا خیال نہیں کہ اپوزیشن وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے گی۔ ایسی باتوں میں کوئی دم نہیں ہے۔ یہ معاملہ خود ہی حل کرلیں گے۔ اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کررہی۔ اگر وہ وزیراعلیٰ کے خلاف سنجیدگی سے تحریک اعتماد لائی تو ہم بھی اس میں کچھ حصہ ڈال دیں گے۔
سوال: سردار صاحب ریکوڈک کے حوالے سے بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
اخترمینگل: حکومت یہ کہتی ہے کہ ریکوڈک کا کیس عالمی عدالت میں ہے، لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں عالمی عدالت کی لندن اور فرانس میں کوئی برانچ نہیں ہے۔ یہ 25 ،25 رکنی وفود لے کر وہاں گئے۔ اس میں ضرور کچھ ہے جس کو یہ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر انہوں نے کچھ کرنا تھا تو یہیں کرلیتے وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم جلد ہی موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی اور ڈیڑھ سال میں جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس پر وائٹ پیپر جاری کررہے ہیں۔
سوال: وائٹ پیپر میں کن کن لوگوں کے نام شامل ہیں؟
اخترمینگل: مال غنیمت کو لوٹنے میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ وائٹ پیپر جاری ہونے سے قبل کچھ نہیں بتایا جاسکتا۔
سوال: خان آف قلات کے واپس آنے کی خبریں آرہی ہیں۔ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے حوالے سے موجودہ وزیراعلیٰ جو دعوے کررہے ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
اخترمینگل: خان آف قلات اور محمود خان اچکزئی میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کیا طے کیا؟ اس کا پتا نہیں۔ جہاں تک ناراض لوگوں سے مذاکرات یا رابطوں کی بات ہے تو یہ بیان حکومت کی اپنی طرف سے آیا تھا کہ ہم رابطے میں ہیں۔ ان کے پاس تو اختیارات تک نہیں ہیں اگر واقعی یہ اختیارات کے مالک ہیں تو لاپتا افراد کی بازیابی، مسخ شدہ نعشوں کے حوالے سے کام کیوں نہیں کرتے۔ ان کے پاس تو اختیارات وزیراعلیٰ ہاؤس سے زرغون روڈ تک ہیں۔
سوال: آپ کے خیال میں وزیراعظم نوازشریف نے بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کیے ہیں؟
اخترمینگل: جب بلوچستان کے حوالے سے میں نے سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا اور چھے نکات پیش کیے تھے۔ اس وقت میاں نواز شریف نے میرے والد سردار عطاء اﷲ مینگل سے کراچی میں ملاقات کی تھی اور وعدے کیے تھے کہ بلوچستان میں آپریشن، مسخ شدہ نعشوں کا ملنا اور لاپتا افراد کی بازیابی ہمارے کیسز ہیں۔
نوازشریف نے سپریم کورٹ کیس کے حوالے سے میرے6 نکات کی بھی حمایت کی تھی، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ میاں نوازشریف نے بلوچستان کے معاملات میں خود کو بے بس رکھا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے معاملات پر ہاتھ ڈالنے سے ان کی حکومت چلی جائے۔
سوال: فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس سے ملک کے جو حالات میں اُن میں کیا بہتری آئے گی اور اس کے بلوچستان کے حالات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اخترمینگل: فوجی عدالتیں لوگوں کو گرفتار کریں گی۔ تحقیقات ہوں گی۔ چارج شیٹ بنے گی۔ پھر سزائے موت دی جائے گی۔ یہاں پر تو پہلے ہی لوگوں کو اُٹھایا جارہا ہے نعشیں مل رہی ہیں۔ نواب نوروز اور ان کے ساتھیوں کو بھی فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئی تھیں۔
سوال: نواب بگٹی کیس میں پرویز مشرف اور دوسرے لوگوں پر فرد جرم عاید کردی گئی ہے۔ کیا اس کیس کے حوالے سے بھی کوئی بہتر نتائج صوبے کے لیے نکل سکیں گے؟
اخترمینگل: مجھے یہ بتایا جائے کہ کیا جنرل پرویزمشرف کا کیس بھی فوجی عدالتوں میں چلے گا؟ یہاں کسی جنرل کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ یہاں تو جمہوریت کے دعوے داروں نے جمہوریت کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے اپاہج بناکر رکھ دیا ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے کیا تاثر ملتا ہے کہ دوسری عدالتیں اہل نہیں ہیں، کیا سسٹم صحیح نہیں ہے؟
سوال: اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے صوبوں کو کتنا فائدہ ہوا ہے؟
اخترمینگل: اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی خیرات میں چونی سے اضافہ کرکے اٹھنی کردی گئی ہے اور خیرات حقوق کی نعم البدل نہیں ہوسکتی۔
سوال: ملک میں دہشت گردی کے جو واقعات ہورہے ہیں ان سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟
اخترمینگل: دہشت گردی کے ذمے دار کون ہیں؟ اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ کل تک جن طالبان کو مجاہدین کا نام دیا جاتا تھا اور افغانستان کو پانچواں صوبہ ڈکلیئر کرانے کی باتیں کی جاتی تھیں، آج انہی کو دہشت گرد کہا جارہا ہے۔ کیا طالبان نے افغانستان میں لوگوں کو پھانسیاں نہیں دیں؟ ڈاکٹر نجیب کو جب پھانسی دی گئی تو یہاں پر جشن کا سماں تھا۔ ان طالبان کو اپنی سرزمین پر تربیت دینے والا کون ہے؟ دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے کیا۔ اس میں ہماری ایجنسیاں شامل نہیں ہیں۔ آرمی پبلک اسکول کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ معصوم بچوں کو بے دردی سے مارنے کی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔
سوال: افغان مہاجرین کو ملک کے مسائل کا ذمے دار ٹھہرایا اور انہیں نکالنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
اخترمینگل: میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔
یہ ایک بڑا طمانچہ ہے۔1970ء کے انقلاب کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین آنا شروع ہوگئے تھے۔ آپ کو بنڈل عزیز تھے۔ اب تو افغان مہاجرین یہاں گھل مل گئے ہیں۔ افغانستان میں تو ہمارے ملک سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ افغان مہاجرین یہاں کا بڑا مسئلہ ہے۔ کیا اس ملک اور اس خطے کی وہ پارٹیاں اس میں ملوث نہیں ہیں جنہوں نے ووٹرز لسٹوں میں ان کے ناموں کے اندراج کرائے اور انہی کے ووٹوں کے ذریعے اسمبلی تک پہنچے؟
سوال: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں آپ کی شرکت کیوں نہیں؟
اخترمینگل: 2013ء کے الیکشن میں حصہ لینا بڑا مشکل فیصلہ تھا۔ ہم نے حصہ لیا اور اسمبلی میں آئے۔ اب حالات کو دیکھتے ہیں اگر ایسی نوبت آئی کہ ہم اسمبلی جائیں تو ضرور جائیں گے۔ دوسری طرف ہمیں احتجاج کا حق حاصل ہے۔ احتجاجی جلسے جلوس کریں گے۔ بلوچستان کے حقوق کے لیے جس حد تک جانا پڑا جائیں گے۔ حکومت میں چھوٹے موٹے اختلافات ہوتے ہیں۔ اگر یہ جنازے کو کندھا دینے کے لیے کہتے ہیں تو جائیں گے اور فاتحہ پڑھیں گے۔
سوال: اس بات میں کہاں تک صداقت ہے کہ بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی میں اتحاد کے لیے بات چیت ہورہی ہے؟
اخترمینگل: جب بی این پی بنی تھی تو اس میں تین سیاسی جماعتیں تھیں۔ بی این ایم جس کی قیادت میں خود کررہا تھا، نیشنل پارٹی حاصل بزنجو، ثناء اﷲ ساتھ تھے، تیسری پی این پی تھی ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی کی۔ انضمام کے فوراً بعد الیکشن ہوا۔ اکثریت میں ہم نے سیٹیں جیتیں۔ گورنمنٹ بنی اور ٹوٹی۔ سب آپ کو معلوم ہے۔ پارٹی اس وقت دو حصوں میں بٹی تھی۔ ایک بی این پی والد صاحب کی قیادت میں تھی۔
ایک انہوں نے مہیم خان کی قیادت میں بنائی تھی۔ یہ بی این پی ابھی تک وہی بی این پی ہے اور اس بی این پی کے ، وہ جو کہتے ہیں، اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا، اس میں مہیم خان کہاں گئے، سردار اسرار کہاں گئے، نواب ثناء اﷲ زہری کس پارٹی میں گئے، میر حاصل خان بزنجو کس پارٹی میں گئے، تو جس عارضی گلو سے اسے چپکایا گیا تھا وہ ان کا ایک غیرفطری جوڑ تھا، جو ایک ہی جھٹکے میں پارہ پارہ ہوگیا۔ اب بی این پی عوامی کے ساتھ علاقائی سطح پر جو ایشوز ہیں، ان پر شاید ہماری پارٹی نے چاہے وہ لوکل باڈیز کے الیکشن ہوں یا علاقائی مسائل ہوں، ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کی ہے، لیکن باقاعدہ بی این پی عوامی کے ساتھ ہمارا کسی قسم کا رابطہ نہیں۔
سوال: انتخابات سے قبل نیشنل پارٹی اور بی این پی میں اتحاد کی باتیں ہورہی تھیں اور اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات بھی ہورہے تھے۔ اچانک الیکشن سے قبل دونوں ایک دوسرے سے دور ہوگئیں۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
اخترمینگل: اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد کی باتیں ہورہی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ میرے آنے کے بعد اسے فائنل کریں گے۔ ایک سیٹ کا مسئلہ ہوتا تو وہ حل بھی ہوسکتا تھا۔ اگر ایک سیٹ پر ہماری نہیں بنتی تو ہم اس کو رکھ بھی سکتے تھے اور مقابلہ بھی کرتے، لیکن میرے پہنچتے ہی انہوں نے اعلان کیا اور ہماری نالج میں بھی یہ بات آئی کہیں اور سے انہیں اشارہ ملا کہ اگر ان کی طرف گئے تو سات آٹھ سیٹیں بھی تمہیں نہیں ملیں گی۔ وہ عقل مند تھے، ہماری طرح بے وقوف نہیں تھے۔ ماشاء اﷲ انہوں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں۔ جب میں پہنچا تو انہوں نے اعلان کردیا کہ ہم نے یہاں پر ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے، جمعیت علمائے اسلام اور دوسروں کے ساتھ۔
سوال: کیا بی این پی سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے گی؟
اخترمینگل: ہم سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ ووٹ کاسٹ کریں گے۔ ہمارے دو ممبرز ہیں، اگر ملٹری کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا نہ کیا گیا تو۔
سوال: آپ نوازشریف سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا آل پارٹیز کانفرنس میں بلوچستان کے حوالے سے بات ہوئی تھی؟
اخترمینگل: مایوس تو ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو حالات مشرف اور زرداری کے دور میں تھے، اب بھی وہی حالات ہیں۔ ان کے دور میں تو اجتماعی قبریں دریافت ہورہی ہیں۔ ہم نے جو لسٹ انہیں دی تھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ہم اپنے آپ کو ساون کا اندھا نہیں بناسکتے کہ اگر نوازشریف کی پارٹی کا جھنڈا ہرا ہے تو ہمیں ہر چیز ہری نظر آئے۔ اے پی سی میں جو باتیں ہوئی ہیں شاید انہیں میری باتیں ناگوار گزری ہوں، تو ایسے میں وہ ہمیں کیا بلائیں گے۔
سوال: بلوچستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟
اخترمینگل: سب سے پہلی بات اختیارات کی ہے۔ بلوچستان کے تمام مسائل جادو کی چھڑی سے حل نہیں ہوسکتے۔ اگر اسٹیٹ سمجھتی ہے کہ بلوچستان پس ماندہ صوبہ ہے تو انہیں ایک قدم آگے آنا چاہیے تھا۔ بلوچستان کے مسائل تو انہیں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، اقتدار میں آکر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اگر موجودہ حکم راں بااختیار ہیں تو یہ جو نعشیں کندھوں پر اُٹھائی جارہی ہیں، نوجوانوں کو لاپتا کیا جارہا ہے، صوبے میں آپریشن ہورہا ہے، تو اس کو کیوں نہیں روکتے اس کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
سوال: پونم جسے محکوم قوموں کی تحریک کہا جاتا ہے اور یہ قوم پرستوں کی تحریک تھی، کیا اس کو فعال کرکے ان مسائل سے نکلا جاسکتا ہے؟
اخترمینگل: پونم میں بلوچستان سے تین جماعتیں نیشنل پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی، بی این پی کے علاوہ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اور سرائیکی جماعتیں شامل ہیں۔ پونم میں نیشنل پارٹی کا کردار نہایت محدود تھا۔ پونم کے اجلاسوں اور دوسرے پروگراموں میں نیشنل پارٹی کے اس وقت کے قائد ڈاکٹر عبدالحئی تن تنہا ہی آتے تھے۔
میر حاصل بزنجو کو تو کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا۔ جب تک پونم کی قیادت بی این پی کے پاس تھی اجلاس منعقد ہوتے تھے اور ان اجلاسوں میں فیصلے ہوتے تھے، لیکن جب پونم پشتونخواملی عوامی پارٹی کے ہاتھ میں گئی تو یہ آہستہ آہستہ بیٹھ گئی۔ شاید ان کے روابط کہیں اور تھے اور یہ ان سے ملے بھی ہوں، لیکن صاف ظاہر ہے کہ پونم کی تدفین پر اچھی خاصی دیگیں چڑھائی گئیں۔ پونم کو فعال کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ دوسروں سے بھی روابط ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر پونم کو دوبارہ فعال کیا جائے گا۔
سوال: اب آپ بلوچستان میں ہیں۔ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے؟
اخترمینگل: بی این پی ایک بڑی قومی سیاسی جماعت ہے۔ بلوچستان میں اس وقت جو صورت حال ہے اس حوالے سے پارٹی کی کابینہ کے اجلاس منعقد کریں گے اور ساتھیوں سے صلاح مشورہ کریں گے۔ مئی میں پارٹی کا مرکزی کنونشن منعقد کریں گے۔ صوبے کی بڑی شخصیات بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گی۔ صوبے کے حوالے سے اہم فیصلے کریں گے، کیوںکہ بلوچستان کے حوالے سے کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی۔ حکم رانوں نے یہاں کے عوام کو اپنی بات کہنے کا بھی اختیار نہیں دیا۔ بلوچستان کے عوام کے حقوق کے نام پر جو حکومت بنی وہ لوٹ مار میں مصروف ہے۔ بلوچستان کے بارے میں مرکز اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا۔
سوال: اگر آپ کو اقتدار دے دیا جائے تو آپ ان مسائل کو کیسے حل کریں گے؟
اخترمینگل: بی این پی ایک قومی سیاسی جماعت ہے اور عوام کی ہمیشہ اس سے توقعات وابستہ رہی ہیں، لیکن اقتدار کبھی بھی ہماری منزل نہیں رہا۔ ہم نے ہمیشہ صوبے اور عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ ہم نے الیکشن میں حصہ لیا، لیکن ہماری کام یابی کو تبدیل کردیا گیا۔ یہاں جب بھی اقتدار دیا گیا ہاتھ پاؤں باندھ کر دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور مرکز کے رویے ہی یہاں کے مسائل کا بنیادی سبب ہیں۔
1988ء سے مسلسل صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوتے آرہے ہیں۔ وہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں۔ انہوں نے بلوچ عوام کے حقوق کے لیے اسمبلی سمیت ہر فورم پر آواز اُٹھائی ہے۔ بلوچستان میں مسخ شدہ نعشوں کے ملنے اور نوجوانوں کو لاپتا کرنے، ماورائے آئین گرفتاریوں کے خلاف بھرپور احتجاج کیا، جن میں لانگ مارچ بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے سپریم کورٹ میں چھے نکات بھی پیش کیے جنہیں خاصی اہمیت ملی صوبے کے مسائل اور وسائل کے دفاع کے لیے آواز اُٹھانے پر انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ ان کی جماعت بی این پی کا شمار ایک بڑی قوم پرست جماعت کے طور پر ہوتا ہے۔
سردار اختر مینگل نے نوجوانی ہی میں سیاست میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ اس وجہ سے نوجوان طبقے میں انہیں خاصی پذیرائی حاصل ہے۔ گذشتہ دور حکومت میں جب صوبے میں امن و امان کی صورت حال بہت زیادہ خراب تھی، تو سردار اختر مینگل بیرون ملک چلے گئے، لیکن عوام کے دباؤ پر واپس آکر 2013ء کے الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہیں۔ دھیمی آواز میں گفتگو کرنے والے سردار اختر مینگل سیاسی داؤ پیچ کا خوب احاطہ کرتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپریس نے بلوچستان اور ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال ، امن وامان کی ابتری سمیت مختلف اُمور پر ان سے بات چیت کی جو قارئین کے لیے پیش ہے۔
سوال: سردار صاحب! بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت کی کیا کارکردگی ہے اور اس سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں؟
اخترمینگل: یہاں تو ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ پتا نہیں کہ میری روشنی یہاں کارآمد ثابت ہوتی ہے یا نہیں حکومت میں شامل جماعتیں اپنے آپ کو قوم پرست کہتی ہیں۔ اب یہ بھی پتا نہیں کہ یہ قوم پرستی کے زمرے میں آتے بھی ہیں یا نہیں۔ مجھے تو ان کے جمہوری ہونے پر بھی شک ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک سے وزیراعلیٰ بننے سے قبل میں نے کہا تھا کہ آپ کو اس مشکل مرحلے میں یہ ذمہ داری دی جارہی ہے، آپ سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو سمجھ بھی نہیں سکیں گے اور انہیں مطمئن بھی نہیں کرسکیں گے۔
اب امن و امان کی صورت حال نہایت ابتر ہے۔ گوادر سمیت کوئی ایک ضلع یا تحصیل بتادی جائے، جہاں امن وامان کی صورت حال بہتر ہو۔ کوئٹہ میں ڈاکٹروں، سیاسی راہ نماؤں کو اغواء کیا جارہا ہے۔ صحافی قتل کیے جارہے ہیں۔ منسٹرز اور بیورو کریسی پر حملے ہورہے ہیں۔ سول اسپتال کوئٹہ میں پولیو ویکسین کے سرٹیفکیٹس فروخت کیے جارہے ہیں۔ کوئٹہ شہر میں ہیلتھ ورکرز، جن میں خواتین بھی شامل ہیں، کو قتل کیا جارہا ہے۔ لسانی فسادات بھی ہورہے ہیں۔ مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی جائے کہ یہ کون سی تبدیلی لائے۔ حالات تو دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ان کی کارکردگی تو دیکھیں۔ آواران میں زلزلہ آیا کئی لوگ جاں بحق ہوئے، لاکھوں بے گھر ہوگئے، ان کے لیے کچھ نہیں کیا گیا۔ جب معاملہ گرم تھا تو وزیراعظم بھی گئے، وزیراعلیٰ بھی گئے تھے۔ صوبائی حکومت نے ان متاثرین کے لیے تین ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔
مرکز نے بھی اعلانات کیے۔ متاثرین کو مکانات بنانے کے لیے پہلی قسط بنیاد رکھنے کے لیے دی گئی۔ دوسری قسط دیواریں کھڑی کرنے کے لیے دی گئی، لیکن اس کے بعد کچھ نہیں ہوا۔ بارش ہوئی کچی دیواریں پانی میں بہہ گئیں۔ متاثرین وہیں کے وہیں رہ گئے۔ وزیراعلیٰ اپنے حلقۂ انتخاب کے لیے سات ارب روپے کا اعلان کرتے ہیں لیکن دوسرے حلقوں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ کرپشن کی انتہا ہے کہ انہوں نے میرٹ کو بالکل نظرانداز کردیا ہے۔ نوکریاں بِک رہی ہیں۔ حکومت کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی پر ہم جلد ہی وائٹ پیپر جاری کررہے ہیں۔
سوال: ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ نام زد ہوئے تھے تو عام تاثر تھا کہ انہیں اس منصب کے لیے آپ کی بھی حمایت حاصل ہے۔ یہ تاثر کس حد تک درست ہے؟
اخترمینگل: ان کی وزیراعلیٰ کی حیثیت سے نام زدگی کے بعد جب میں اسلام آباد گیا تو مجھے وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کا فون آیا تھا کہ ہم نے ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیراعلیٰ بلوچستان نام زد کردیا ہے۔ نام زدگی سے قبل مجھ سے کوئی رائے نہیں لی گئی تھی۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم نے انہیں سپورٹ کیا ایسی بات نہیں۔ البتہ ہم نے یہ کہا تھا کہ ہم آپ کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنیں گے، تاکہ کل ہم پر کوئی الزام نہ آئے۔ انہوں نے جو دعوے کیے تھے وہ درست ثابت نہیں ہوئے۔
سوال: بی این پی مینگل اسمبلی میں موجود ہے، لیکن اس کا اپوزیشن کا کردار نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ اس کی کیا وجہ ہے اور مسلم لیگ (ن) اگر وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو بی این پی اس کا ساتھ دے گی؟
اخترمینگل: بی این پی کسی کی بیساکھی بنی ہے نہ بنے گی اور نہ ہی ہم کسی کو بیساکھی بنائیں گے۔ ہمارے لیے صوبے میں بڑے بڑے ایشوز ہیں۔ اپوزیشن کو اگر ضرورت پڑی تو دیکھیں گے۔ ہم نے اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا نہیں کیا، بل کہ سڑکوں پر عوام کے پاس گئے ہیں۔
عوام نے ہمیں حقیقی اپوزیشن کہا ہے اور میرا خیال نہیں کہ اپوزیشن وزیراعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے گی۔ ایسی باتوں میں کوئی دم نہیں ہے۔ یہ معاملہ خود ہی حل کرلیں گے۔ اتحادی جماعت مسلم لیگ (ن) کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کررہی۔ اگر وہ وزیراعلیٰ کے خلاف سنجیدگی سے تحریک اعتماد لائی تو ہم بھی اس میں کچھ حصہ ڈال دیں گے۔
سوال: سردار صاحب ریکوڈک کے حوالے سے بہت سی باتیں سامنے آئی ہیں اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
اخترمینگل: حکومت یہ کہتی ہے کہ ریکوڈک کا کیس عالمی عدالت میں ہے، لیکن جہاں تک میری معلومات ہیں عالمی عدالت کی لندن اور فرانس میں کوئی برانچ نہیں ہے۔ یہ 25 ،25 رکنی وفود لے کر وہاں گئے۔ اس میں ضرور کچھ ہے جس کو یہ چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر انہوں نے کچھ کرنا تھا تو یہیں کرلیتے وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی۔ ہم جلد ہی موجودہ صوبائی حکومت کی کارکردگی اور ڈیڑھ سال میں جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس پر وائٹ پیپر جاری کررہے ہیں۔
سوال: وائٹ پیپر میں کن کن لوگوں کے نام شامل ہیں؟
اخترمینگل: مال غنیمت کو لوٹنے میں بڑے بڑے لوگ شامل ہیں۔ وائٹ پیپر جاری ہونے سے قبل کچھ نہیں بتایا جاسکتا۔
سوال: خان آف قلات کے واپس آنے کی خبریں آرہی ہیں۔ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے حوالے سے موجودہ وزیراعلیٰ جو دعوے کررہے ہیں اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
اخترمینگل: خان آف قلات اور محمود خان اچکزئی میں ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کیا طے کیا؟ اس کا پتا نہیں۔ جہاں تک ناراض لوگوں سے مذاکرات یا رابطوں کی بات ہے تو یہ بیان حکومت کی اپنی طرف سے آیا تھا کہ ہم رابطے میں ہیں۔ ان کے پاس تو اختیارات تک نہیں ہیں اگر واقعی یہ اختیارات کے مالک ہیں تو لاپتا افراد کی بازیابی، مسخ شدہ نعشوں کے حوالے سے کام کیوں نہیں کرتے۔ ان کے پاس تو اختیارات وزیراعلیٰ ہاؤس سے زرغون روڈ تک ہیں۔
سوال: آپ کے خیال میں وزیراعظم نوازشریف نے بلوچستان کے مسئلے کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کیے ہیں؟
اخترمینگل: جب بلوچستان کے حوالے سے میں نے سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا اور چھے نکات پیش کیے تھے۔ اس وقت میاں نواز شریف نے میرے والد سردار عطاء اﷲ مینگل سے کراچی میں ملاقات کی تھی اور وعدے کیے تھے کہ بلوچستان میں آپریشن، مسخ شدہ نعشوں کا ملنا اور لاپتا افراد کی بازیابی ہمارے کیسز ہیں۔
نوازشریف نے سپریم کورٹ کیس کے حوالے سے میرے6 نکات کی بھی حمایت کی تھی، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ میاں نوازشریف نے بلوچستان کے معاملات میں خود کو بے بس رکھا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ بلوچستان کے معاملات پر ہاتھ ڈالنے سے ان کی حکومت چلی جائے۔
سوال: فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے۔ اس سے ملک کے جو حالات میں اُن میں کیا بہتری آئے گی اور اس کے بلوچستان کے حالات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اخترمینگل: فوجی عدالتیں لوگوں کو گرفتار کریں گی۔ تحقیقات ہوں گی۔ چارج شیٹ بنے گی۔ پھر سزائے موت دی جائے گی۔ یہاں پر تو پہلے ہی لوگوں کو اُٹھایا جارہا ہے نعشیں مل رہی ہیں۔ نواب نوروز اور ان کے ساتھیوں کو بھی فوجی عدالتوں سے سزائیں ہوئی تھیں۔
سوال: نواب بگٹی کیس میں پرویز مشرف اور دوسرے لوگوں پر فرد جرم عاید کردی گئی ہے۔ کیا اس کیس کے حوالے سے بھی کوئی بہتر نتائج صوبے کے لیے نکل سکیں گے؟
اخترمینگل: مجھے یہ بتایا جائے کہ کیا جنرل پرویزمشرف کا کیس بھی فوجی عدالتوں میں چلے گا؟ یہاں کسی جنرل کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ یہاں تو جمہوریت کے دعوے داروں نے جمہوریت کی ناک میں نکیل ڈال کر اسے اپاہج بناکر رکھ دیا ہے۔ فوجی عدالتوں کے قیام سے کیا تاثر ملتا ہے کہ دوسری عدالتیں اہل نہیں ہیں، کیا سسٹم صحیح نہیں ہے؟
سوال: اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے صوبوں کو کتنا فائدہ ہوا ہے؟
اخترمینگل: اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کی خیرات میں چونی سے اضافہ کرکے اٹھنی کردی گئی ہے اور خیرات حقوق کی نعم البدل نہیں ہوسکتی۔
سوال: ملک میں دہشت گردی کے جو واقعات ہورہے ہیں ان سے کس طرح نمٹا جاسکتا ہے؟
اخترمینگل: دہشت گردی کے ذمے دار کون ہیں؟ اس پر کوئی بات نہیں کرتا۔ کل تک جن طالبان کو مجاہدین کا نام دیا جاتا تھا اور افغانستان کو پانچواں صوبہ ڈکلیئر کرانے کی باتیں کی جاتی تھیں، آج انہی کو دہشت گرد کہا جارہا ہے۔ کیا طالبان نے افغانستان میں لوگوں کو پھانسیاں نہیں دیں؟ ڈاکٹر نجیب کو جب پھانسی دی گئی تو یہاں پر جشن کا سماں تھا۔ ان طالبان کو اپنی سرزمین پر تربیت دینے والا کون ہے؟ دہشت گردوں کی مدد کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیے کیا۔ اس میں ہماری ایجنسیاں شامل نہیں ہیں۔ آرمی پبلک اسکول کا واقعہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ معصوم بچوں کو بے دردی سے مارنے کی کوئی بھی مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔
سوال: افغان مہاجرین کو ملک کے مسائل کا ذمے دار ٹھہرایا اور انہیں نکالنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟
اخترمینگل: میں سمجھتا ہوں کہ یہ حکومت کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔
یہ ایک بڑا طمانچہ ہے۔1970ء کے انقلاب کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین آنا شروع ہوگئے تھے۔ آپ کو بنڈل عزیز تھے۔ اب تو افغان مہاجرین یہاں گھل مل گئے ہیں۔ افغانستان میں تو ہمارے ملک سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات ہوئے ہیں۔ افغان مہاجرین یہاں کا بڑا مسئلہ ہے۔ کیا اس ملک اور اس خطے کی وہ پارٹیاں اس میں ملوث نہیں ہیں جنہوں نے ووٹرز لسٹوں میں ان کے ناموں کے اندراج کرائے اور انہی کے ووٹوں کے ذریعے اسمبلی تک پہنچے؟
سوال: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں آپ کی شرکت کیوں نہیں؟
اخترمینگل: 2013ء کے الیکشن میں حصہ لینا بڑا مشکل فیصلہ تھا۔ ہم نے حصہ لیا اور اسمبلی میں آئے۔ اب حالات کو دیکھتے ہیں اگر ایسی نوبت آئی کہ ہم اسمبلی جائیں تو ضرور جائیں گے۔ دوسری طرف ہمیں احتجاج کا حق حاصل ہے۔ احتجاجی جلسے جلوس کریں گے۔ بلوچستان کے حقوق کے لیے جس حد تک جانا پڑا جائیں گے۔ حکومت میں چھوٹے موٹے اختلافات ہوتے ہیں۔ اگر یہ جنازے کو کندھا دینے کے لیے کہتے ہیں تو جائیں گے اور فاتحہ پڑھیں گے۔
سوال: اس بات میں کہاں تک صداقت ہے کہ بی این پی مینگل اور بی این پی عوامی میں اتحاد کے لیے بات چیت ہورہی ہے؟
اخترمینگل: جب بی این پی بنی تھی تو اس میں تین سیاسی جماعتیں تھیں۔ بی این ایم جس کی قیادت میں خود کررہا تھا، نیشنل پارٹی حاصل بزنجو، ثناء اﷲ ساتھ تھے، تیسری پی این پی تھی ڈاکٹر عبدالحکیم لہڑی کی۔ انضمام کے فوراً بعد الیکشن ہوا۔ اکثریت میں ہم نے سیٹیں جیتیں۔ گورنمنٹ بنی اور ٹوٹی۔ سب آپ کو معلوم ہے۔ پارٹی اس وقت دو حصوں میں بٹی تھی۔ ایک بی این پی والد صاحب کی قیادت میں تھی۔
ایک انہوں نے مہیم خان کی قیادت میں بنائی تھی۔ یہ بی این پی ابھی تک وہی بی این پی ہے اور اس بی این پی کے ، وہ جو کہتے ہیں، اس دل کے ٹکڑے ہزار ہوئے کوئی یہاں گرا کوئی وہاں گرا، اس میں مہیم خان کہاں گئے، سردار اسرار کہاں گئے، نواب ثناء اﷲ زہری کس پارٹی میں گئے، میر حاصل خان بزنجو کس پارٹی میں گئے، تو جس عارضی گلو سے اسے چپکایا گیا تھا وہ ان کا ایک غیرفطری جوڑ تھا، جو ایک ہی جھٹکے میں پارہ پارہ ہوگیا۔ اب بی این پی عوامی کے ساتھ علاقائی سطح پر جو ایشوز ہیں، ان پر شاید ہماری پارٹی نے چاہے وہ لوکل باڈیز کے الیکشن ہوں یا علاقائی مسائل ہوں، ان کے ساتھ بیٹھ کر بات کی ہے، لیکن باقاعدہ بی این پی عوامی کے ساتھ ہمارا کسی قسم کا رابطہ نہیں۔
سوال: انتخابات سے قبل نیشنل پارٹی اور بی این پی میں اتحاد کی باتیں ہورہی تھیں اور اس حوالے سے دونوں جماعتوں کے درمیان مذاکرات بھی ہورہے تھے۔ اچانک الیکشن سے قبل دونوں ایک دوسرے سے دور ہوگئیں۔ اس کی کیا وجہ تھی؟
اخترمینگل: اس میں کوئی شک نہیں کہ اتحاد کی باتیں ہورہی تھیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ میرے آنے کے بعد اسے فائنل کریں گے۔ ایک سیٹ کا مسئلہ ہوتا تو وہ حل بھی ہوسکتا تھا۔ اگر ایک سیٹ پر ہماری نہیں بنتی تو ہم اس کو رکھ بھی سکتے تھے اور مقابلہ بھی کرتے، لیکن میرے پہنچتے ہی انہوں نے اعلان کیا اور ہماری نالج میں بھی یہ بات آئی کہیں اور سے انہیں اشارہ ملا کہ اگر ان کی طرف گئے تو سات آٹھ سیٹیں بھی تمہیں نہیں ملیں گی۔ وہ عقل مند تھے، ہماری طرح بے وقوف نہیں تھے۔ ماشاء اﷲ انہوں نے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے ہیں۔ جب میں پہنچا تو انہوں نے اعلان کردیا کہ ہم نے یہاں پر ایڈجسٹمنٹ کرلی ہے، جمعیت علمائے اسلام اور دوسروں کے ساتھ۔
سوال: کیا بی این پی سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لے گی؟
اخترمینگل: ہم سینیٹ کے الیکشن میں حصہ لیں گے۔ ووٹ کاسٹ کریں گے۔ ہمارے دو ممبرز ہیں، اگر ملٹری کورٹ کے کٹہرے میں کھڑا نہ کیا گیا تو۔
سوال: آپ نوازشریف سے مایوس دکھائی دے رہے ہیں۔ کیا آل پارٹیز کانفرنس میں بلوچستان کے حوالے سے بات ہوئی تھی؟
اخترمینگل: مایوس تو ہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں جو حالات مشرف اور زرداری کے دور میں تھے، اب بھی وہی حالات ہیں۔ ان کے دور میں تو اجتماعی قبریں دریافت ہورہی ہیں۔ ہم نے جو لسٹ انہیں دی تھی اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ ہم اپنے آپ کو ساون کا اندھا نہیں بناسکتے کہ اگر نوازشریف کی پارٹی کا جھنڈا ہرا ہے تو ہمیں ہر چیز ہری نظر آئے۔ اے پی سی میں جو باتیں ہوئی ہیں شاید انہیں میری باتیں ناگوار گزری ہوں، تو ایسے میں وہ ہمیں کیا بلائیں گے۔
سوال: بلوچستان کے مسائل کا حل کیا ہے؟
اخترمینگل: سب سے پہلی بات اختیارات کی ہے۔ بلوچستان کے تمام مسائل جادو کی چھڑی سے حل نہیں ہوسکتے۔ اگر اسٹیٹ سمجھتی ہے کہ بلوچستان پس ماندہ صوبہ ہے تو انہیں ایک قدم آگے آنا چاہیے تھا۔ بلوچستان کے مسائل تو انہیں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، اقتدار میں آکر وہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ اگر موجودہ حکم راں بااختیار ہیں تو یہ جو نعشیں کندھوں پر اُٹھائی جارہی ہیں، نوجوانوں کو لاپتا کیا جارہا ہے، صوبے میں آپریشن ہورہا ہے، تو اس کو کیوں نہیں روکتے اس کا مقصد صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔
سوال: پونم جسے محکوم قوموں کی تحریک کہا جاتا ہے اور یہ قوم پرستوں کی تحریک تھی، کیا اس کو فعال کرکے ان مسائل سے نکلا جاسکتا ہے؟
اخترمینگل: پونم میں بلوچستان سے تین جماعتیں نیشنل پارٹی، پشتونخواملی عوامی پارٹی، بی این پی کے علاوہ سندھ کی قوم پرست جماعتیں اور سرائیکی جماعتیں شامل ہیں۔ پونم میں نیشنل پارٹی کا کردار نہایت محدود تھا۔ پونم کے اجلاسوں اور دوسرے پروگراموں میں نیشنل پارٹی کے اس وقت کے قائد ڈاکٹر عبدالحئی تن تنہا ہی آتے تھے۔
میر حاصل بزنجو کو تو کسی نے دیکھا بھی نہیں تھا۔ جب تک پونم کی قیادت بی این پی کے پاس تھی اجلاس منعقد ہوتے تھے اور ان اجلاسوں میں فیصلے ہوتے تھے، لیکن جب پونم پشتونخواملی عوامی پارٹی کے ہاتھ میں گئی تو یہ آہستہ آہستہ بیٹھ گئی۔ شاید ان کے روابط کہیں اور تھے اور یہ ان سے ملے بھی ہوں، لیکن صاف ظاہر ہے کہ پونم کی تدفین پر اچھی خاصی دیگیں چڑھائی گئیں۔ پونم کو فعال کرنے کے امکانات موجود ہیں۔ دوسروں سے بھی روابط ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کے قوم پرستوں کے ساتھ مل کر پونم کو دوبارہ فعال کیا جائے گا۔
سوال: اب آپ بلوچستان میں ہیں۔ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے؟
اخترمینگل: بی این پی ایک بڑی قومی سیاسی جماعت ہے۔ بلوچستان میں اس وقت جو صورت حال ہے اس حوالے سے پارٹی کی کابینہ کے اجلاس منعقد کریں گے اور ساتھیوں سے صلاح مشورہ کریں گے۔ مئی میں پارٹی کا مرکزی کنونشن منعقد کریں گے۔ صوبے کی بڑی شخصیات بھی پارٹی میں شمولیت اختیار کریں گی۔ صوبے کے حوالے سے اہم فیصلے کریں گے، کیوںکہ بلوچستان کے حوالے سے کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی۔ حکم رانوں نے یہاں کے عوام کو اپنی بات کہنے کا بھی اختیار نہیں دیا۔ بلوچستان کے عوام کے حقوق کے نام پر جو حکومت بنی وہ لوٹ مار میں مصروف ہے۔ بلوچستان کے بارے میں مرکز اور اسٹیبلشمنٹ کا رویہ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا۔
سوال: اگر آپ کو اقتدار دے دیا جائے تو آپ ان مسائل کو کیسے حل کریں گے؟
اخترمینگل: بی این پی ایک قومی سیاسی جماعت ہے اور عوام کی ہمیشہ اس سے توقعات وابستہ رہی ہیں، لیکن اقتدار کبھی بھی ہماری منزل نہیں رہا۔ ہم نے ہمیشہ صوبے اور عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کی ہے۔ ہم نے الیکشن میں حصہ لیا، لیکن ہماری کام یابی کو تبدیل کردیا گیا۔ یہاں جب بھی اقتدار دیا گیا ہاتھ پاؤں باندھ کر دیا گیا۔ اسٹیبلشمنٹ اور مرکز کے رویے ہی یہاں کے مسائل کا بنیادی سبب ہیں۔