ہالۂ نور پر سائنسی تحقیقات

ڈاکٹر کلنر کی تحقیقات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کے ایتھری جسم (ایتھرک ڈبل) کا رنگ بھورا خاکستری ہوتا ہے.

گزشتہ دنوں نوجوانوں کی ایک محفل میں موجود تھا، بحث چھڑ پڑی تھی ماورائی علوم، جنات و ارواح اور انسان کی سپر نیچرل طاقتوں کے بارے میں۔ آج کل کے نوجوانوں میں صبر و برداشت اور مطالعے کی کمی افسوسناک حد تک کم ہے لیکن اس سے بھی غلط رویہ صحیح بات کو تسلیم نہ کرنا اور سنی سنائی باتوں پر لاحاصل بحث کرنا ہے اور اس پر یہ اصرار کہ ان کی غلط باتوں کو صحیح تسلیم کیا جائے۔

تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ معاشرے میں پھیلی ان افسانوی باتوں اور خیالات کا تذکرہ کیا جائے جو روایتاً آگے منتقل ہوتے ہوتے سچ سمجھ لی گئی ہیں۔ لیکن اس ایک محفل میں کئی ایسے موضوعات چھیڑے گئے جن پر روشنی ڈالنا ضروری ہے تاکہ نوجوان نسل کے وہ نمایندے جو ان موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں حقیقت سے باخبر ہوسکیں۔ یہاں یہ باور کروانا ازحد ضروری ہے کہ ہم خود طفل مکتب ہیں لیکن محض سنی سنائی باتوں سے ہٹ کر مستند کتابوں کا سہارا لیتے ہیں، ہمارے کالموں میں زیادہ تر آپ کو مرحوم رئیس امروہوی کی کتابوں کے اقتباسات ملیں گے۔ کچھ عرصہ قبل میں ہالۂ نور اور اس سے متعلق لکھ چکا ہوں، آج اس موضوع کی سائنسی تحقیق پر مزید روشنی ڈالنا مقصود ہے۔

1967 میں ماسکو اور لینن گراڈ کے درمیان ''ٹیلی پیتھی'' کا کامیاب تجربہ کیا گیا۔ اس تجربے میں فن خلانوردی کے جدید ترین آلات استعمال کیے گئے اور کمپیوٹروں کی مدد سے پیغام بھیجنے اور وصول کرنے والے کی دماغی لہروں کو ریکارڈ کیا گیا۔ روسی سائنسدانوں کا بیان ہے کہ مشین کی مدد سے ٹیلی پیتھی کے ذریعے بھیجنے والے اشارات کو 'ڈی کوڈ' کیا گیا اور چار سو میل کے فاصلے پر ذہن کا ذہن سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس کے ساتھ ہی روس کے فنی رسالوں اور روسی یونیورسٹیوں نے کمپیوٹرائزڈ ٹیلی پیتھی سے کہیں زیادہ حیرت انگیز حقیقت کا انکشاف کیا، یہ کہ انسانی جسم کے گرد ایک ''ہالۂ نور'' پایا جاتا ہے۔ انھوں نے انسان کے ہالۂ نور کی رنگین و روشن تصاویر شایع کیں۔ کیا یہی وہ دائرہ روشن (AURA) ہے جس کا تذکرہ بار بار پراسرار علوم کی کتابوں میں کیا گیا ہے۔ انسانی جسم سے برقی لہریں سی نکلتی ہیں، نہایت تیز، کبھی کبھی ان کا رنگ نارنجی اور نیلا ہوتا ہے۔ روسی سائنسدانوں کے اس انکشاف نے سائنسی دنیا کو غرقِ حیرت کردیا۔

بزرگان دین کی بہت سی فرضی اور خیالی تصویریں بازار میں بکتی ہیں اور نجانے کتنے عقیدتمند حضرات نہایت ذوق و شوق اور اخلاص واردات کے ساتھ ان فرضی یا حقیقی تصاویر سے اپنے گھروں کو سجاتے ہیں۔ عجیب بات ہے کہ اسلام میں تصاویر اور مجسموں کی ممانعت ہے، پھر بھی ہزاروں مسلم گھروں اور دیندار گھرانوں میں آپ کو دینی بزرگوں اور روحانی پیشواؤں کی تصاویر ملیں گی جن کو ایک ہالۂ نور حلقہ کیے ہوئے نظر آئے گا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حساس آنکھوں اور روحی مزاج رکھنے والے لوگوں نے بغیر کسی مادی آلے کے انسان کے ہالۂ نور کو دیکھ لیا تھا۔

میں اور آپ مادے کے بنے ہوئے ہیں، مادہ جب لہروں کی طرح عمل کرتا ہے تو انرجی (توانائی) کہلاتا ہے اور توانائی جب ذروں کی طرح عمل کرتی ہے تو مادہ کہلاتی ہے۔ میں نے مادے اور توانائی کا ذکر اس لیے چھیڑا کہ مجھے انسانی وجود کے دو پہلوؤں کی طرف اشارہ کرنا ہے، میں اور آپ ٹھوس مادے کے بنے ہوئے ہیں، یعنی ہمارا جسمانی ڈھانچہ، گوشت پوست، استخوان، خون اور اعصاب و عضلات سے مرکب ہے۔ گوشت پوست کا جسم ذرات (خلیوں) سے بنا ہوا ہے اور اس خلیات کے مجموعے (انسانی جسم) کے ساتھ ایک اور جسم بھی نتھی ہے جسے آپ لہروں کا پیکر کہہ سکتے ہیں۔


یہی لہریں ہمارے جسم کے گرد ایک دھندلے یا نورانی ہالے کی طرح نظر آتی ہیں۔ آپ نے رات میں جگنوؤں کی چمک دمک دیکھی ہوگی۔ نہ صرف جگنوؤں کے ننھے منے وجود سے روشنی خارج ہوتی ہے بلکہ اندھیرے میں چمکنے اور دمکنے کی یہ خاصیت بہت سے کیڑوں اور مچھلیوں میں بھی پائی جاتی ہے، شیر اور بلی کی آنکھیں بھی اندھیرے میں بجلی کے قمقموں کی طرح چمکتی ہیں۔ بات ہورہی تھی ہالۂ نور کی، آئیے اس ہالۂ نور پر علمی نقطہ نظر سے غور کریں اور یہ دیکھیں کہ تصاویر میں بزرگوں کے چہرے کے گرد نورانی شعاعوں کے جو دائرے نظر آتے ہیں کیا وہ صرف عقیدتمندوں کی ایجاد بندہ ہیں یا ان میں کوئی اصلیت بھی ہے۔

تھامپسن ہاسپٹل (لندن) کے ماہر برقیات ڈاکٹر والٹر جے کلنر کیلیشم کے فاسفورنٹ سلفائیڈ پر N شعاعوں کے بارے میں تجربات کررہے تھے کہ انھیں یہ خیال آیا کہ جسم انسانی سے توانائی کی جو لہریں خارج ہوتی ہیں اس کی چھان بین کی جائے۔ ڈاکٹر والٹر جے کلنر کو صرف یہ علم تھا کہ حرارت کے علاوہ جسم انسانی سے جو انرجی خارج ہوتی ہے، اس کا تعلق پائیں سرخ (انفرا ریڈ) سے ہے۔ ڈاکٹر کلنر نے ایک ایسا فوٹو گرافی پردہ (فلم) تیار کرنے کی کوشش کی جس کے ذریعے جسم انسانی سے نکلنے والے ہالۂ نور کا مطالعہ کیا جاسکے۔ چنانچہ انھوں نے مختلف کیمیاوی محلولوں سے فلموں کو رنگا، لیکن ناکامی ہوئی اور انسانی جسم سے نکلنے والی پائیں سرخ شعاعیں (انفراریڈ) کسی پردے پر نظر نہ آسکیں۔

آخر انھوں نے کولتار کے کیمیاوی مواد سے فلم کو رنگنے کا ایک کیمیاوی مسالہ تیار کیا اور شیشے کی ایک اسکرین کو ایجاد کیا جس یہ ہالۂ نور دیکھا جاسکتا تھا، جسے مابعد النفسیات میں ''آسٹرل باڈی''، یوگ میں شکما شریر اور تصوف میں جسم مثالی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر والٹر جے کلنر نے اپنی کتاب ''ہیومن ایٹ ماسفیر'' میں نہایت تفصیل کے ساتھ انسان کے ہالۂ نور پر روشنی ڈالی ہے۔ ڈاکٹر کلنر کی تحقیقات کا خلاصہ یہ ہے کہ انسانی جسم سے توانائی کا جو اخراج (تابکاری، ریڈی ایشن) ہوتا ہے وہ ایک دائرے کی طرح انسانی جسم کے گرد نظر آتا ہے۔ ڈاکٹر کلنر نے اپنی اسکرین پر انسانی ہمزاد کو بھی دیکھا، اسے وہ ایتھرک ڈبل کہتے ہیں۔ ہمزاد ایک شفاف سایہ ہے جو انسان کے ٹھوس جسم سے ایک انچ باہر کی طرح ہوتا ہے۔ اس ہمزادی جسم یا ہالے کے اندر ایک اور جسم ہوتا ہے جو پہلے جسم کے مقابلے میں لطیف تر ہے، اسے ''جسم مثالی'' کہتے ہیں، پھر اس جسم مثالی کے اندر اور ''روحانی وجود'' ہوتا ہے۔

ڈاکٹر کلنر کی تحقیقات کا نچوڑ یہ ہے کہ انسان کے ایتھری جسم (ایتھرک ڈبل) کا رنگ بھورا خاکستری ہوتا ہے اور کبھی کبھی اس کا پھیلاؤ آٹھ انچ تک ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر کلنر کا بیان ہے کہ ماورائے بنفشی شعاعوں کے ذریعے بھی اس جسم کی تحقیقات ممکن ہے۔ یہ بھی علم ہے کہ انسانی جسم سے بجلی اور مقناطیسیت کی لہریں بھی خارج ہوتی ہیں، یعنی جسم بھی تابکاری کی اس طرح صلاحیت رکھتا ہے۔

جس طرح دوسرے مادی اجسام۔ ہمیں نہ انسانی جسم سے نکلنے والی لہریں نظر آتی ہیں نہ مقناطیسی لہریں، اسی طرح ننگی آنکھ یا عام کیمروں سے انسان کا ہالۂ نور بھی نظر نہیں آسکتا لیکن ایسے ترقی یافتہ کیمرے ایجاد ہوگئے ہیں جو انسان کے ٹھوس مادی جسم سے خارج ہونے والی مختلف روشنیوں کی تصویر کشی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسی ہی ایک ویڈیو ڈاکومنٹری ڈسکوری چینل پر بھی پیش کی جاچکی ہے جس کا تذکرہ ہم نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ ہالۂ نور کی مزید سائنسی تحقیقات پر مزید گفتگو اگلے کالم میں ہوگی۔

(نوٹ:گزشتہ کالم پڑھنے کے لیے وزٹ کریں

www.facebook.com/shayan.tamseel)
Load Next Story