صدر اوباما کا دورہ بھارت
اب یہ بات کسی حد تک ثابت ہو گئی ہے کہ جنوبی ایشیا سے وسطی ایشیا تک بھارت اور امریکا اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔
امریکا کے صدر بارک اوباما 3 روزہ دورے پر بھارت پہنچ چکے ہیں۔ وہ دوسری بار بھارت کے دورے پر آئے ہیں۔ وہ اپنے پہلے دورے میں پاکستان نہیں آئے تھے اور اس دورے کے بعد بھی پاکستان نہیں آئیں گے۔ جنوبی ایشیا کی سیاست کے حوالے سے یہ بڑی اہم پیش رفت ہے۔ پاکستان کے پالیسی ساز بھی اس معاملے پر یقینا غور کر رہے ہوں گے۔ صدر بارک اوباما کے دورہ بھارت کی نوعیت کیا ہو گی، اس کی ایک جھلک سامنے آ گئی ہے۔
بھارت روانگی سے ایک روز پہلے انھوں نے بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو دیا۔ اس میں انھوں نے کہا کہ وہ واضح کر چکے ہیں کہ اگرچہ امریکا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاہم پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں قابل قبول نہیں اور ممبئی حملوں کے ملزمان کو سزا ملنی چاہیے۔ بھارتی اور امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے متحد ہیں۔9/11 کو امریکا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں بھارتی شہری بھی مارے گئے جیسے کہ26/11 کو ممبئی حملوں میں مرنے والوں میں امریکی شہری بھی شامل تھے۔
بارک اوباما نے کہا کہ اپنے سابقہ دورہ بھارت کے دوران انھوں نے ممبئی حملوں کے متاثرین کے ساتھ اظہار عقیدت کے لیے تاج ہوٹل میں پہلا قیام کیا اور بھارتی عوام کو یہ مضبوط پیغام دیا کہ اپنی سلامتی اور طرز زندگی کے تحفظ کے لیے ہم ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکا بھارت اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر دنیا کو ایک مستقبل دینے کے لیے کوشاں رہے گا جو خوشحالی، تحفظ اور وقار پر مبنی ہو۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں دیگر لوگوں کی طرح بھارتی اور امریکی عوام کو بھی پشاور کے اسکول میں بچوں اور ٹیچرز کے قتل عام کے ہولناک سانحے پر شدید دھچکا لگا۔ یہ تکلیف دہ واقعہ ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ دہشت گرد ہم سب کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر امریکا نے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ قیادت اور یمن اور صومالیہ میں ان کے معاونت کاروں کا خاتمہ کیا۔ اگرچہ افغانستان میں ہمارا مشن مکمل ہو گیا ہے تاہم ہم افغان فوج کی تربیت اور امداد کرتے رہیں گے تا کہ القاعدہ وہاں دوبارہ نہ پنپ سکے۔
صدر اوباما کے اس انٹرویو سے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا کاروباری اور تجارتی معاملات، ان میں بھارت کو اہم اتحادی سمجھتا ہے۔ اب یہ بات کسی حد تک ثابت ہو گئی ہے کہ جنوبی ایشیا سے وسطی ایشیا تک بھارت اور امریکا اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔ امریکا بھارت کو اس خطے میں لیڈنگ رول دینا چاہتا ہے۔ بھارت پہنچنے سے پہلے انھوں نے دہشت گردی کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ دراصل بھارت کو خوش کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ امریکا کے پالیسی ساز اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔
جہاں تک ممبئی حملوں کا تعلق ہے، تو اس معاملے میں بھی بھارت کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہیں لہٰذا محض الزامات کی بنیاد پر کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ پاکستان نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے بھارت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی جانب انگلی اٹھانا درست طرز عمل نہیں ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں شفٹ ہو چکی ہیں۔ امریکی پالیسی ساز بھی اس سے یقینی طور پر آگاہ ہوں گے۔ امریکا کے صدر بارک اوباما نے سانحہ پشاور پر غم و افسوس کا اظہار کیا ہے جو ایک اچھی بات ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سانحہ کے مجرم افغانستان میں مقیم ہیں۔ افغانستان میں اب بھی اتحادی فوجیں موجود ہیں، افغانستان کی حکومت بھی بظاہر کہہ رہی ہے کہ وہ ان مجرموں کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن اس حوالے سے تاحال عملی کارروائی سامنے نہیں آئی۔
افغانستان میں سانحہ پشاور میں ملوث ہونے کے شبہ میں جو پانچ افراد گرفتار ہیں، افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو ان تک رسائی دے یا انھیں پاکستان کے حوالے کرے تا کہ سانحہ پشاور کے مجرموں تک پہنچا جا سکے۔ افغان حکومت کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ امریکی صدر کو اس حوالے سے بھی کوئی بات کرنی چاہیے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی ایک وجہ بھارت بھی ہے، بھارت اور افغانستان کی حکومت کے درمیان تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ باتیں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ بلوچستان میں بھارت شرپسندوں کی مدد کر رہا ہے۔
امریکا کے صدر کو اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارتی قیادت سے اس حوالے سے بھی بات کرنی چاہیے۔ امریکی پالیسی سازوں کو اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ امریکا کے صدر کا دورہ بھارت اسی صورت کامیاب کہلا سکتا ہے جب امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تنازعات کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے۔ امید کی جانی چاہیے کہ امریکی پالیسی ساز حقائق کو سامنے رکھیں گے۔
بھارت روانگی سے ایک روز پہلے انھوں نے بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو دیا۔ اس میں انھوں نے کہا کہ وہ واضح کر چکے ہیں کہ اگرچہ امریکا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے تاہم پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں قابل قبول نہیں اور ممبئی حملوں کے ملزمان کو سزا ملنی چاہیے۔ بھارتی اور امریکی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے متحد ہیں۔9/11 کو امریکا میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں بھارتی شہری بھی مارے گئے جیسے کہ26/11 کو ممبئی حملوں میں مرنے والوں میں امریکی شہری بھی شامل تھے۔
بارک اوباما نے کہا کہ اپنے سابقہ دورہ بھارت کے دوران انھوں نے ممبئی حملوں کے متاثرین کے ساتھ اظہار عقیدت کے لیے تاج ہوٹل میں پہلا قیام کیا اور بھارتی عوام کو یہ مضبوط پیغام دیا کہ اپنی سلامتی اور طرز زندگی کے تحفظ کے لیے ہم ایک ساتھ کھڑے ہیں۔ امریکا بھارت اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر دنیا کو ایک مستقبل دینے کے لیے کوشاں رہے گا جو خوشحالی، تحفظ اور وقار پر مبنی ہو۔ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں دیگر لوگوں کی طرح بھارتی اور امریکی عوام کو بھی پشاور کے اسکول میں بچوں اور ٹیچرز کے قتل عام کے ہولناک سانحے پر شدید دھچکا لگا۔ یہ تکلیف دہ واقعہ ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ دہشت گرد ہم سب کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر امریکا نے افغانستان اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ قیادت اور یمن اور صومالیہ میں ان کے معاونت کاروں کا خاتمہ کیا۔ اگرچہ افغانستان میں ہمارا مشن مکمل ہو گیا ہے تاہم ہم افغان فوج کی تربیت اور امداد کرتے رہیں گے تا کہ القاعدہ وہاں دوبارہ نہ پنپ سکے۔
صدر اوباما کے اس انٹرویو سے حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا کاروباری اور تجارتی معاملات، ان میں بھارت کو اہم اتحادی سمجھتا ہے۔ اب یہ بات کسی حد تک ثابت ہو گئی ہے کہ جنوبی ایشیا سے وسطی ایشیا تک بھارت اور امریکا اسٹرٹیجک پارٹنر ہیں۔ امریکا بھارت کو اس خطے میں لیڈنگ رول دینا چاہتا ہے۔ بھارت پہنچنے سے پہلے انھوں نے دہشت گردی کے حوالے سے جو کچھ کہا وہ دراصل بھارت کو خوش کرنے کی دانستہ کوشش ہے۔ امریکا کے پالیسی ساز اس حقیقت سے بھی بخوبی آگاہ ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں نہیں ہیں۔
جہاں تک ممبئی حملوں کا تعلق ہے، تو اس معاملے میں بھی بھارت کے پاس ٹھوس شواہد موجود نہیں لہٰذا محض الزامات کی بنیاد پر کسی کو مجرم نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ پاکستان نے متعدد بار کہا ہے کہ وہ اس حوالے سے بھارت کے ساتھ تعاون کے لیے تیار ہے۔ اس کے بعد پاکستان کی جانب انگلی اٹھانا درست طرز عمل نہیں ہے۔ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے بعد دہشت گردوں کی پناہ گاہیں افغانستان میں شفٹ ہو چکی ہیں۔ امریکی پالیسی ساز بھی اس سے یقینی طور پر آگاہ ہوں گے۔ امریکا کے صدر بارک اوباما نے سانحہ پشاور پر غم و افسوس کا اظہار کیا ہے جو ایک اچھی بات ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سانحہ کے مجرم افغانستان میں مقیم ہیں۔ افغانستان میں اب بھی اتحادی فوجیں موجود ہیں، افغانستان کی حکومت بھی بظاہر کہہ رہی ہے کہ وہ ان مجرموں کے خلاف کارروائی کرے گی لیکن اس حوالے سے تاحال عملی کارروائی سامنے نہیں آئی۔
افغانستان میں سانحہ پشاور میں ملوث ہونے کے شبہ میں جو پانچ افراد گرفتار ہیں، افغانستان کی حکومت کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو ان تک رسائی دے یا انھیں پاکستان کے حوالے کرے تا کہ سانحہ پشاور کے مجرموں تک پہنچا جا سکے۔ افغان حکومت کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ امریکی صدر کو اس حوالے سے بھی کوئی بات کرنی چاہیے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی ایک وجہ بھارت بھی ہے، بھارت اور افغانستان کی حکومت کے درمیان تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ یہ باتیں بھی منظر عام پر آتی رہی ہیں کہ بلوچستان میں بھارت شرپسندوں کی مدد کر رہا ہے۔
امریکا کے صدر کو اپنے دورہ بھارت کے دوران بھارتی قیادت سے اس حوالے سے بھی بات کرنی چاہیے۔ امریکی پالیسی سازوں کو اس حقیقت کو سامنے رکھنا چاہیے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پاکستان کی مدد کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ امریکا کے صدر کا دورہ بھارت اسی صورت کامیاب کہلا سکتا ہے جب امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود تنازعات کے خاتمے میں اہم کردار ادا کرے۔ امید کی جانی چاہیے کہ امریکی پالیسی ساز حقائق کو سامنے رکھیں گے۔