اوباما بھی ’’نہ چھوڑو‘‘ نکلا
یہ چھوڑنا نہ چھوڑنا اور نچوڑنا خالص پاکستانی اصطلاح ہے اور پھر پکڑے بغیر نہ چھوڑنا تو کوئی صرف پاکستانی لیڈروں سےسیکھے
آج ہم بہت خوش ہیں اتنے خوش کہ پھولے نہیں سما رہے، یوں لگتا ہے کہ مانو جیسے کسی نے ہماری گردن میں اچانک ایک فولادی راڈ ڈال کر اسے اونچا اور لمبا کر دیا ہو، ہم ایک مرتبہ پھر اپنا پسندیدہ جملہ دہرانا چاہتے ہیں کہ کہاں ہم اور کہاں یہ مقام اللہ اللہ، اب تک تو یہ ہوتا آیا تھا کہ یک طرفہ ٹریفک امریکا سے ہماری طرف تھی یعنی ہم ہی امریکی چیزوں کو اپناتے رہے ہیں اور یہ سلسلہ اتنا بھرپور تھا کہ اگر امریکا میں کسی مزدور کی پتلون کسی کیل میں پھنس کر گھٹنے پر سے پھٹ جاتی تو دوسرے دن وہ ہمارے ہاں خلعت فاخرہ کی طرح مشہور و مقبول ہو جاتا، ہم نے کتنوں کو دیکھا کہ ''امریکی انگریزی'' بولنے کے لیے اپنے اچھے خاصے منہ کو کارٹون بنا کر کتنے خوش ہوتے ہیں۔
ایک دن ہم نے ایک نوجوان کو دیکھا جو اپنے بالوں میں ''سفید'' دھاری ڈالنے کے لیے بڑی محنت کر رہا تھا، پوچھا بھئی یہ کیا، لوگ تو سفید بال کالے کرتے ہیں اور تم کالے بالوں میں سفید دھاری ڈال رہے ہو، بولا... امریکا میں ایسا ہی ہوتا ہے، عرض کہ وہاں سے جو کچھ بھی آتا تھا یہاں دل و جان سے اپنایا جاتا، ایسے میں اچانک امریکا کا ہماری کسی چیز کو اپنانا، سوری ایک مرتبہ پھر کہنا ضروری ہے کہ کہاں ہم کہاں یہ مقام اللہ اللہ، اور وہ بھی کسی ایسے ویسے امریکی نے نہیں بلکہ امریکا کے صدر کا کسی پاکستانی لفظ کو دہرانا، جو بارک اوباما کے ساتھ ساتھ ''حسین'' بھی ایک زمانے میں استعمال کرتا تھا۔
اس اوباما نے بالکل ہی پاکستانی لیڈروں کی طرح کہا ہے کہ اسکول پر حملہ کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے حالانکہ یہ چھوڑنا نہ چھوڑنا اور نچوڑنا خالص پاکستانی اصطلاح ہے اور پھر پکڑے بغیر نہ چھوڑنا تو کوئی صرف پاکستانی لیڈروں سے سیکھے کیوں کہ گزشتہ اٹھاسٹھ سال میں انھوں نے صرف اور صرف یہی کام کیا ہے، چھوڑنا... نہ چھوڑنا یا پھر نچوڑنا، ایک طرح سے ہم اسے خالص پاکستانی صنعت قرار دے سکتے جس کے جملہ حقوق صرف ہمارے پاکستانی لیڈروں کے نام رجسٹرڈ ہیں وغیرہ وغیرہ اور پھر وغوڑنا یعنی
نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومار ناز ایسا
کہ پشت چشم سے جس کے نہ ہووے مہر عنواں پر
لیکن اب بارک اوباما کے چھوڑنے پر ''نہ چھوڑنے'' کا یہ سلسلہ امریکا تک دراز ہو گیا ہے گویا ہماری یہ صنعت یا اس کا ایک ''آئٹم'' امریکا میں بھی قبولیت کے جھنڈے گاڑ چکا ہے، معافی چاہتے ہوئے ایک مرتبہ کہاں ہم کہاں یہ مقام اللہ اللہ بلکہ یوں کہئے کہ اب ذرا باہر نکل میرا لالہ بھی آ گیا ہے، ایک بڑا ہی خوب صورت پشتو ٹپہ یاد آ رہا ہے کہ
مبارکی راکڑئی عالمہ
د تہمتونو سرہ یار قبولہ کڑمہ
یعنی اے دنیا والوں مجھے مبارک بادیں دو کہ اپنے یار نے مجھے تہمتوں اور رسوائیوں سمیت قبول کر لیا ہے، دراصل یہ چھوڑنا اور نہ چھوڑنا ایک بالکل ہی ایک خاص قسم کا ہنر ہے، پکڑ کر چھوڑنا تو ہر کوئی جانتا ہے وہ تو پولیس کا ایک سپاہی بھی کسی کو پکڑ کر بلکہ رنگے ہاتھوں پکڑ کر چھوڑ دیتا ہے، لوگ ایک دوسرے کا ہاتھ بھی پکڑ کر چھوڑ دیتے ہیں کوئی کسی کا پیچھا بھی چھوڑ دیتا ہے، لیکن پکڑے بغیر چھوڑنا ہر کسی کو نہیں آتا، اس کے لیے ''چھوڑنے'' کا فن آنا چاہے بلکہ ہمارا تو خیال ہے کہ پکڑے بغیر نہ چھوڑنا صرف تجربہ کار لیڈر ہی کر سکتے ہیں جو ''چھوڑنے'' میں یدطولیٰ رکھتے ہوں،
نشہ پلا کے ''چھڑانا'' تو سب کو آتا ہے
مزہ تو جب ہے کہ بے پکڑے چھوڑ دے ساقی
چھوڑنے چھڑانے اور نہ چھوڑنے کے معاملے میں شاعر لوگ بھی خاصی شہرت رکھتے ہیں خاص کر ''چھوڑنے'' کے معاملے میں تو ہر شاعر اپنی مثال آپ ہوتا ہے ایسی ایسی چھوڑتا ہے کہ جو چھوڑتا ہے وہ خود تو حیراں ہوتا ہے کہ کیسا چھوڑا یا چھوڑی، لیکن ''نہ چھوڑنے'' میں اور پھر خاص طور پر بغیر پکڑے نہ چھوڑنے میں ہمارے پیر و مرشد مرزا اسد اللہ خان غالب خاصے سنجیدہ تھے
چھوڑوں گا میں نہ اس بت کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
چھوڑنے کے ایک ماہر کا کہنا ہے کہ چھوڑنا اور نہ چھوڑنا ایک جیسی مہارت چاہتے ہیں جو لوگ چھوڑنے میں ماہر ہوتے ہیں صرف وہی لوگ ہی نہیں چھوڑتے، خاص طور پر بغیر پکڑے نہ چھوڑنا تو صرف بڑے بڑے چھوڑو ہی کر سکتے ہیں، جہاں تک نچوڑنے کا تعلق ہے تو یہ اس فن کا تیسرا مرحلہ ہوتا ہے جو پہلے چھوڑنا سیکھ جاتے ہیں وہ پھر نہ چھوڑنا سیکھتے ہیں اور پھر جب وہ ان دونوں کاموں میں ماہر ہو جاتے ہیں تو پر نچوڑنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہو جاتا ہے ایسے ماہرین پھر اتنے طاق ہو جاتے ہیں بلکہ اتنے ڈوب جاتے ہیں کہ کچھ بھی نہیں چھوڑتے جیسا کہ مرشد نے کہا ہے کہ
چھوڑی اسد نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشق اہل کرم ہوئے
اب ذرا یہ تصور کیجیے کہ امریکا جیسا ملک جو اس ''گلوبل بستی'' کا ایس ایچ او ہے اور اوباما جیسی ہستی جو عالم میں انتخاب ہے وہ بھی کہنے لگے اور وہ کرنے لگے بلکہ ''نہ کرنے'' لگے جو ہم کرتے ہیں بلکہ ''نہیں کرتے'' یعنی ''نہ چھوڑنا'' تو یہ کتنے فخر کا مقام ہے ہمارا تو خیال ہے کہ آپ سب بھی مل کر ہمارے ساتھ کہئے کہ کہاں ہم کہاں یہ مقام اللہ اللہ، اس سے جو ایک اور بڑی حقیقت ہمارے سامنے آئی ہے کہ ہم خواہ مخواہ اپنے لیڈروں سے بدگمان ہو رہے تھے کہ یہ پکڑے بغیر نہ چھوڑنے کا کام کر رہے ہیں یعنی کچھ بھی نہیں کرتے، لیکن اب ثابت ہوا کہ جو کچھ بھی نہیں کرتے وہی تو سب سے بڑا کمال کرتے ہیں اور پاجامے کو رومال کرتے ہیں اور بغیر ڈھول کے دھمال کرتے ہیں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
بغیر پکڑے بیٹھے بٹھائے نہ چھوڑنا ہی تو اصل ''چھوڑنا'' ہے اور چھوڑتے ہی وہی ہیں جو نہیں چھوڑتے کیوں کہ وہی اصل چھوڑو بھی ہوتے ہیں نہ چھوڑو بھی اور نچوڑو بھی، چلیے اگر اب بھی بات آپ کی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے اور آپ ہمارے چھوڑو، نہ چھوڑو اور نچوڑو کے کمال فن کا اعتراف نہیں کر رہے ہیں ہمارے اسلحہ خانے میں اور بھی بہت سارے ہتھیار ہیں چنانچہ ایک کہانی کی چوٹ آپ کی کھوپڑی پر لگاتے ہیں تب آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے یہ اس بیوی کی کہانی ہے جو ''چھوڑو'' تھی اور پھر نہ چھوڑو ہو گئی تھی، جب وہ نئی نئی بیاہ کر آئی تو اپنے شوہر کو ہر وقت دھمکاتی رہتی تھی اور بات بات پر کہتی کہ مجھے تیری ذرہ بھر بھی پروا نہیں خدا میرے باپ کا گھر سلامت رکھے جہاں کی میں شہزادی تھی اور اب تمہارے گھر کی فقیرنی بن کر رہ گئی ہوں، صرف ایسا ''چھوڑتی'' تھی بلکہ بات بات پر برقعہ اٹھا کر میکے جانے کی دھمکی بھی دیتی تھی بے چارہ شوہر اس کی روز روز کی دھمکیوں سے تنگ آ کر آخر کار ناک تک آ گیا اور ایک دن جب اس نے دھمکی کو ''عملی برقعہ'' پہنایا تو اس نے بھی کہہ دیا کہ ٹھیک ہے جاؤ لیکن یاد رکھو میں لینے ہر گز نہیں آؤں گا... وہ چلی گئی لیکن میکہ تو اب اس کے ماں باپ کا نہیں تھا بلکہ بہوؤں کا ہو چکا تھا، چنانچہ ایک دو دن تو اس کی آؤ بھگت ہوئی۔
اس کے بعد اس کے خلاف بہوؤں نے پہلے کانا پھوسی شروع کی پھر بات علانیہ ہو گئی اور اسے طعنے تشنیعے دیے جانے لگے آخر کار جب بے قدری کی انتہا ہو گئی تو بے چاری نے شوہر کو سندیسے دینا شروع کیے کہ میں بالکل راضی ہوں آ کر مجھے لے جاؤ لیکن شوہر نے اپنے کان بہرے کر لیے، آخر بے چاری اپنی بھاوجوں سے تنگ آ کر خود ہی شوہر کے گھر جا پہنچی لیکن سیدھے جانے میں چونکہ سبکی تھی اور شوہر کی کامیابی تھی اس لیے دروازے میں کھڑی ہو گئی جب شام کو جانور گھر واپس آنے لگے تو اس نے ایک گائے کی دم پکڑی اور اس کے پیچھے پیچھے گھر میں انٹری دی، شوہر نے دیکھا تو طنزیہ انداز میں مسکرا کر بولا... دیکھا خود ہی آ گئی نا... لیکن اس نے اپنا بھرم رکھتے ہوئے کہا میں کہاں آنے والی تھی... وہ تو یہ گائے مجھے نہیں چھوڑ رہی تھی اس لیے آ گئی... اب بے چاری گائے بے زبان تھی ورنہ پوچھ لیتی کہ کون چھوڑو ہے اور کون نہ چھوڑو۔