بات تو جب بنے گی
تو زمین پر اکڑ کر نہ چل یقیناً تو زمین کو پھاڑ تو نہ دے گا، اور نہ لمبا ہوکر پہاڑوں تک پہنچ جائے گا۔
شادیوں کا سیزن ہے، شادی کی تقریبات میں میزبان اپنے مہمانوں کے لیے تواضع کا اہتمام دریا دلی کے ساتھ کرتے ہیں۔ گھروں کی تقاریب میں تو پھر کچھ آداب کا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن شادی ہال میں پہنچتے ہی یہ دائرہ ٹوٹ جاتا ہے اور کھانے کی جو بربادی ہوتی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو رزق کو برباد ہونے نہیں دیتے بلکہ پلیٹوں میں اتنا ہی کھانا ڈالتے ہیں، جتنا وہ کھا سکیں۔ بریانی، تکے، کباب جیسے کھانوں سے اچھے خاصے مینار بن جاتے ہیں۔
اصولاً تو ہمیں ان برائیوں سے جنھیں ہم برائی نہیں سمجھتے ہیں اپنا دامن چھڑا لینا چاہیے، تکبر، غیبت، بدگمانی اور جھوٹ بولنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ جیسے یہ گناہ، گناہ نہیں ہیں، بلکہ کردار کا ایک حصہ ہیں، ان کے بغیر گفتگو یا شخصیت میں نکھار نہیں آسکتا ہے، بڑی ہی جلدی معمولی معمولی کامیابیوں پر لوگ تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں، گویا ستاروں پر کمند انھوں نے ہی ڈالی ہے۔
اگر وہ اپنے اطراف میں نگاہ ڈالیں تو بڑی اور اعلیٰ ظرف شخصیات نظر آئیں گی انھوں نے واقعی کسی نہ کسی شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور اپنی ذات سے معاشرے کو فائدہ پہنچایا ہے، ایسے باکمال لوگ غرور تو کیا کریں گے، غرور کے لفظ سے بھی واقف نہیں ہیں، وہی عجز و انکساری ان کے مزاج کا حصہ بنی رہتی ہے جس طرح کہ وہ جب عام انسان کی حیثیت سے زیست گزار رہے تھے، اور انھوں نے سماجی طور پر اصلاح معاشرہ یا وطن و قوم کی خدمات کے حوالے سے نام نہیں کمایا تھا، نہ علوم و فنون کے اعتبار سے وہ معتبر سمجھے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ''تو زمین پر اکڑ کر نہ چل یقیناً تو زمین کو پھاڑ تو نہ دے گا، اور نہ لمبا ہوکر پہاڑوں تک پہنچ جائے گا۔ '' (بنی اسرائیل:37)
غیبت اور منافقت کی اسلام میں سخت ممانعت ہے اور اس کا ذکر قرآن و حدیث میں جابجا ملتا ہے، اسی طرح بدگمانی بھی آپس میں رنجش کا باعث بنتی ہے، مختلف محفلوں اور خصوصاً دینی اجتماع میں یہ بات بھی بہت دیکھنے میں آئی ہے کہ آپس میں لوگ کانا پھوسی کرتے نظر آتے ہیں، جہاں کوئی قریب آیا انھوں نے موضوع بدل لیا یا ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ یہ اچانک نازل ہونے والی مصیبت ٹلے تو پھر دوبارہ شروع ہوجائیں، اب وہ خواہ کسی خاص واقعے کا تذکرہ یا کسی کی برائی نہ بھی کر رہے ہوں، لیکن اردگرد کے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت ہے۔
اسی لیے اسلام ان ناپسندیدہ عادتوں پر عمل کرنے کو منع فرماتا ہے اور معاشرہ بھی ان چیزوں کو اچھا نہیں سمجھتا ہے، لیکن یہ بھی کمال کی بات ہے ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ بری عادتیں ہمیں غیر مہذب بنا دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود برے کاموں اور حرکتوں سے باز نہیں آتے ہیں۔ ابتدائی سطور میں، میں نے یہ بھی تحریر کیا تھا کہ آج کل جگہ جگہ شادیاں ہو رہی ہیں، بے شک یہ خوشگوار عمل ہے لیکن یہ بات بے حد افسوس کی ہے کہ ادھر شادی ہوئی اور ادھر چند ماہ بعد ہی طلاق ہوگئی، اس کی ایک وجہ نہیں کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ جہیز کے لالچ نے ہنستے بستے گھروں کو برباد کردیا ہے، بڑے ہی شرم کا مقام ہے کہ لوگ ان گھرانوں میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔
جہاں سے جہیز ملنے کی زیادہ امید ہو اور اگر خلاف توقع ان کی آس پوری نہ ہوئی تو غصہ لڑکی پر نکالتے ہیں اور اس سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے والدین سے مال و اسباب، پلاٹ، گھر، گاڑی اور بینک بیلنس کے لیے بات کرے، لڑکی اگر سمجھدار ہوئی تو وہ اپنے لالچی شوہر اور طمع پرست سسرال والوں کے مطالبات پورے کرنے کے لیے اپنے والدین پر کبھی دباؤ نہیں ڈالے گی، اسے یہ معلوم ہے کہ اگر ایک دفعہ خواہش پوری کردی تو پوری عمر شوہر کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے والدین اور اپنے لیے مصیبتوں اور اذیت کے پہاڑ کھڑے کرلے گی، لہٰذا بار بار مرنے سے بہتر یہ ہے کہ ایک دفعہ ہی مر جائے، یعنی علیحدگی ہی اختیار کرلے ، جو مرنے کے ہی برابر ہے۔
طلاق یافتہ عورت کو یہ معاشرہ جینے نہیں دیتا ہے لیکن وہ پھر بھی جیتی ہے، اللہ سے امید رکھتی ہے کہ وہی اس کی زندگی کی بہتری کے لیے بہترین اسباب پیدا کرے گا اور اکثر ایسا ہوتا بھی ہے کہ ٹھکرائی ہوئی لڑکی کی دوسری شادی بے حد کامیاب ہوتی ہے، اسے قدردان مل جاتے ہیں لیکن ایسا قسمت والوں اور اچھی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرنے سے کوئی کام نہیں بنتا ہے۔ اللہ نے کوشش کرنے کے لیے احکامات صادر کیے ہیں کہ ''انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی ہے۔''
شادی ناکام ہونے کی دوسری وجہ لڑکی کی کوتاہ عقلی اور اپنے آپ کو شوہر سے برتر سمجھنا ہے، شوہر کی عزت کرنا، اس کا جائز حکم ماننا اس کے لیے بے عزتی کا باعث ہوتا ہے، اسی لیے اس کی پہلی اور اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ خود نہ صرف شوہر پر بلکہ سسرال والوں پر بھی حاوی رہے اور مع خاوند سمیت تمام اہل خانہ کو پیر کی جوتی سمجھے، ایسے ماحول میں گھر کے حالات خوشگوار کس طرح رہ سکتے ہیں؟ کوئی کب تک بے عزتی برداشت کرے گا، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شادی کے پہلے دن ہی سے شوہر کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ بے حد برا ہوتا ہے۔
وہ برابری کے حقوق دینے کے حق میں ذرہ برابر نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے آپ کو سپر پاور اور بیوی کو زیرو بلب کے برابر سمجھتا ہے۔ بے جا پابندیاں لگا کر اس کے حقوق غصب کرنے کی کوشش میں پیش پیش رہتا ہے جب کہ دین اسلام جہاں مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیتا ہے وہاں برابری کے حقوق بھی اور بیوی کو جو بچوں کی ماں بھی ہوتی ہے ایک بلند و اعلیٰ مرتبہ دیتا ہے۔ یعنی دونوں کو اپنی اپنی جگہ اہمیت اور عزت حاصل ہے۔ شادیاں تو جلد یا تاخیر سے ہو ہی جاتی ہیں لیکن اصل مسئلہ ان کو نبھانا ہوتا ہے۔ جن لڑکیوں کی اچھی تعلیم و تربیت ہوتی ہے وہ صبر و تحمل کو اپناکر، اپنا گھر بچا لیتی ہیں لیکن گھر کی سالمیت کے لیے ہر شخص کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
شادی کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لیکن ہمیں اس کے ساتھ ہی دوسری سنتوں پر بھی عمل کرنا چاہیے اور متبرک و مقدس مجالس میں شرکت محض ثواب کے لیے نہیں بلکہ عمل کی تبدیلی کے لیے بھی ضروری ہے، بات تو جب ہی بنے گی جب ہم یہ عہد کرلیں کہ ہم ناپسندیدہ عادات کو ترک کرکے اوصاف حمیدہ کو اپنے کردار کا حصہ بنائیں گے۔
اصولاً تو ہمیں ان برائیوں سے جنھیں ہم برائی نہیں سمجھتے ہیں اپنا دامن چھڑا لینا چاہیے، تکبر، غیبت، بدگمانی اور جھوٹ بولنا ایک عام سی بات ہوگئی ہے۔ جیسے یہ گناہ، گناہ نہیں ہیں، بلکہ کردار کا ایک حصہ ہیں، ان کے بغیر گفتگو یا شخصیت میں نکھار نہیں آسکتا ہے، بڑی ہی جلدی معمولی معمولی کامیابیوں پر لوگ تکبر میں مبتلا ہوجاتے ہیں، گویا ستاروں پر کمند انھوں نے ہی ڈالی ہے۔
اگر وہ اپنے اطراف میں نگاہ ڈالیں تو بڑی اور اعلیٰ ظرف شخصیات نظر آئیں گی انھوں نے واقعی کسی نہ کسی شعبے میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں اور اپنی ذات سے معاشرے کو فائدہ پہنچایا ہے، ایسے باکمال لوگ غرور تو کیا کریں گے، غرور کے لفظ سے بھی واقف نہیں ہیں، وہی عجز و انکساری ان کے مزاج کا حصہ بنی رہتی ہے جس طرح کہ وہ جب عام انسان کی حیثیت سے زیست گزار رہے تھے، اور انھوں نے سماجی طور پر اصلاح معاشرہ یا وطن و قوم کی خدمات کے حوالے سے نام نہیں کمایا تھا، نہ علوم و فنون کے اعتبار سے وہ معتبر سمجھے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ''تو زمین پر اکڑ کر نہ چل یقیناً تو زمین کو پھاڑ تو نہ دے گا، اور نہ لمبا ہوکر پہاڑوں تک پہنچ جائے گا۔ '' (بنی اسرائیل:37)
غیبت اور منافقت کی اسلام میں سخت ممانعت ہے اور اس کا ذکر قرآن و حدیث میں جابجا ملتا ہے، اسی طرح بدگمانی بھی آپس میں رنجش کا باعث بنتی ہے، مختلف محفلوں اور خصوصاً دینی اجتماع میں یہ بات بھی بہت دیکھنے میں آئی ہے کہ آپس میں لوگ کانا پھوسی کرتے نظر آتے ہیں، جہاں کوئی قریب آیا انھوں نے موضوع بدل لیا یا ادھر ادھر دیکھنے لگے کہ یہ اچانک نازل ہونے والی مصیبت ٹلے تو پھر دوبارہ شروع ہوجائیں، اب وہ خواہ کسی خاص واقعے کا تذکرہ یا کسی کی برائی نہ بھی کر رہے ہوں، لیکن اردگرد کے لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی فطرت ہے۔
اسی لیے اسلام ان ناپسندیدہ عادتوں پر عمل کرنے کو منع فرماتا ہے اور معاشرہ بھی ان چیزوں کو اچھا نہیں سمجھتا ہے، لیکن یہ بھی کمال کی بات ہے ہم اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ بری عادتیں ہمیں غیر مہذب بنا دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود برے کاموں اور حرکتوں سے باز نہیں آتے ہیں۔ ابتدائی سطور میں، میں نے یہ بھی تحریر کیا تھا کہ آج کل جگہ جگہ شادیاں ہو رہی ہیں، بے شک یہ خوشگوار عمل ہے لیکن یہ بات بے حد افسوس کی ہے کہ ادھر شادی ہوئی اور ادھر چند ماہ بعد ہی طلاق ہوگئی، اس کی ایک وجہ نہیں کئی وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ تو یہی ہے کہ جہیز کے لالچ نے ہنستے بستے گھروں کو برباد کردیا ہے، بڑے ہی شرم کا مقام ہے کہ لوگ ان گھرانوں میں شادی کو ترجیح دیتے ہیں۔
جہاں سے جہیز ملنے کی زیادہ امید ہو اور اگر خلاف توقع ان کی آس پوری نہ ہوئی تو غصہ لڑکی پر نکالتے ہیں اور اس سے تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنے والدین سے مال و اسباب، پلاٹ، گھر، گاڑی اور بینک بیلنس کے لیے بات کرے، لڑکی اگر سمجھدار ہوئی تو وہ اپنے لالچی شوہر اور طمع پرست سسرال والوں کے مطالبات پورے کرنے کے لیے اپنے والدین پر کبھی دباؤ نہیں ڈالے گی، اسے یہ معلوم ہے کہ اگر ایک دفعہ خواہش پوری کردی تو پوری عمر شوہر کی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنے والدین اور اپنے لیے مصیبتوں اور اذیت کے پہاڑ کھڑے کرلے گی، لہٰذا بار بار مرنے سے بہتر یہ ہے کہ ایک دفعہ ہی مر جائے، یعنی علیحدگی ہی اختیار کرلے ، جو مرنے کے ہی برابر ہے۔
طلاق یافتہ عورت کو یہ معاشرہ جینے نہیں دیتا ہے لیکن وہ پھر بھی جیتی ہے، اللہ سے امید رکھتی ہے کہ وہی اس کی زندگی کی بہتری کے لیے بہترین اسباب پیدا کرے گا اور اکثر ایسا ہوتا بھی ہے کہ ٹھکرائی ہوئی لڑکی کی دوسری شادی بے حد کامیاب ہوتی ہے، اسے قدردان مل جاتے ہیں لیکن ایسا قسمت والوں اور اچھی کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے، ہاتھ پر ہاتھ دھرنے سے کوئی کام نہیں بنتا ہے۔ اللہ نے کوشش کرنے کے لیے احکامات صادر کیے ہیں کہ ''انسان کو اتنا ہی ملے گا جتنی اس نے کوشش کی ہے۔''
شادی ناکام ہونے کی دوسری وجہ لڑکی کی کوتاہ عقلی اور اپنے آپ کو شوہر سے برتر سمجھنا ہے، شوہر کی عزت کرنا، اس کا جائز حکم ماننا اس کے لیے بے عزتی کا باعث ہوتا ہے، اسی لیے اس کی پہلی اور اولین کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ خود نہ صرف شوہر پر بلکہ سسرال والوں پر بھی حاوی رہے اور مع خاوند سمیت تمام اہل خانہ کو پیر کی جوتی سمجھے، ایسے ماحول میں گھر کے حالات خوشگوار کس طرح رہ سکتے ہیں؟ کوئی کب تک بے عزتی برداشت کرے گا، لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ شادی کے پہلے دن ہی سے شوہر کا سلوک اپنی بیوی کے ساتھ بے حد برا ہوتا ہے۔
وہ برابری کے حقوق دینے کے حق میں ذرہ برابر نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے آپ کو سپر پاور اور بیوی کو زیرو بلب کے برابر سمجھتا ہے۔ بے جا پابندیاں لگا کر اس کے حقوق غصب کرنے کی کوشش میں پیش پیش رہتا ہے جب کہ دین اسلام جہاں مرد کو گھر کا سربراہ قرار دیتا ہے وہاں برابری کے حقوق بھی اور بیوی کو جو بچوں کی ماں بھی ہوتی ہے ایک بلند و اعلیٰ مرتبہ دیتا ہے۔ یعنی دونوں کو اپنی اپنی جگہ اہمیت اور عزت حاصل ہے۔ شادیاں تو جلد یا تاخیر سے ہو ہی جاتی ہیں لیکن اصل مسئلہ ان کو نبھانا ہوتا ہے۔ جن لڑکیوں کی اچھی تعلیم و تربیت ہوتی ہے وہ صبر و تحمل کو اپناکر، اپنا گھر بچا لیتی ہیں لیکن گھر کی سالمیت کے لیے ہر شخص کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔
شادی کرنا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ لیکن ہمیں اس کے ساتھ ہی دوسری سنتوں پر بھی عمل کرنا چاہیے اور متبرک و مقدس مجالس میں شرکت محض ثواب کے لیے نہیں بلکہ عمل کی تبدیلی کے لیے بھی ضروری ہے، بات تو جب ہی بنے گی جب ہم یہ عہد کرلیں کہ ہم ناپسندیدہ عادات کو ترک کرکے اوصاف حمیدہ کو اپنے کردار کا حصہ بنائیں گے۔