لیاری کی ڈُور

’لیاری شروع ہی سے پاکستان اور سندھ کی فلم سازی میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے ،


قادر خان January 24, 2015
[email protected]

سندھ میں آمرضیا الحق کے دورمیں ڈاکو پروچانڈیوکا بڑا چرچا رہا ، جب پروچانڈیو کو مبینہ پولیس مقابلے میں مارا تو اس کی میت پر سندھیوں نے دو ہزار اجرکیں ڈالی تھیں۔ انھی دنوں پاکستان کے ایک مایہ ناز قانون داں کا بھی انتقال ہوا لیکن ان کا جنازہ جب قبرستان پہنچا تو جنازے کے ساتھ صرف ایک آدھ درجن ہی لوگ باقی رہ گئے تھے۔

ایسا ہی ایک ہیرو قادو مکرانی کو مانا جاتا ہے جس کے لیے دیو مالائی داستانیں اور قصے بڑے مشہور ہیں ، بلوچ تاریخ داں یوسف نسکندی کے مطابق قادر بخش بلوچ اصل میں گجرات کا بلوچ تھا جو انگریز افسر کو قتل کرنے کے بعد ہندو یاتریوں کے قافلے میں جب بنگلاج کی زیارت کے راستے لیاری ندی پر سے گذر رہا تھا تو ایسے گرفتار کرلیا گیا اور مقدمہ چلا کر اسے پھانسی دے دی گئی ، تب سے اب تک وہ بلوچ لوک گیتوں میں ایک ہیروکے طور پر جانا جاتا ہے ۔

ضیالحق کے دور میں ہی جب پولیس نے امان اللہ مبارکی جیسے ایرانی نوجوانوں کو تشدد کے بعد لیاری کے مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا تو وہ لیاری والوں اور کئی بلوچوں کی نظر میں ہیرو کا درجہ پا گئے۔ذوالفقار علی بھٹو کے دادا غلام مرتضی بھٹو نے ایک انگریز عورت کو عشق میں ساتھ لا کر لیاری کے علاقے کھڈہ میں غلام محمد کے پاس پناہ لی تھی ۔بے نظیر بھٹو مرحومہ کے پہلے بیٹے کی پیدائش بھی لیاری میں ہوئی بلکہ ان کے پیر بخاری سروری کا مزار بھی لیاری میں ہی ہے۔

سابق صدر آصف زرداری کو لیاری والوں نے ہی جیل میں ہونے کے باوجود منتخب کرکے اسمبلی بھیجا، لیکن جب لیاری والوں کا پانی کے حصول میں شکایات کا پیمانہ صبر لبریز ہوا تو ، لیاری کی عورتوں نے بڑا دلچسپ شکوہ کیا تھا ۔ بد قسمتی سے لیاری ہمیشہ کسی نہ کسی کا مشق ستم رہا ہے۔ یحیی خان کے دور میں حاجی یارو کے قصے زد عام تھے جب انسانی اسمگلنگ کے سلسلے میں لوگوں کو دبئی بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا جس میں کئی افراد بحیرہ عرب کی لہروں کا شکار بھی ہوئے،لیاری کے حاجی یارو سے لے کر تربت کے یعقوب گنگ تک انسانی اسمگلنگ ایک الگ کہانی ہے۔

ایوب خان کا دور آیا تو لیاری میں شیرو اور دادل کے قصے مشہور ہوئے ،جن کی سرپرستی کے لیے ایک سیاسی خاندان مشہور تھا ، کہا جاتا ہے کہ شیرو اور دادل سیاسی مخالفین کے جلسوں میں سانپ چھوڑ دیا کرتے تھے جس سے شرکا میں خوف وہراس پھیل جایا کرتا تھا۔ذوالفقار علی بھٹو نے لیاری میں جب قدم جمایا توعبدالرحمان بلوچ (عرف رحمن ڈکیت) کے پورے خاندان کا اثر توڑا ، بھٹو کا دعوی بڑا مشہور ہوا کہ ''میری پارٹی اگر اقتدار میں آئی تو میرے وزیر لیاری کی گلیوںمیں جھاڑو دیں گے۔'' ککری گراؤنڈ میں کیے گئے اس دعوے کو ابھی تک کوئی پورا نہیں کر سکا لیکن لیاری سے امن کے نام و نشان پر ضرور جھاڑو پھیر دی گئی۔

لیاری اپنی ایک سیاسی ثقافت و تاریخ لیے ایک ایسا باب ہے جیسے آج کے نوجوان لیاری کو جرائم کا گڑھ اور گینگ وار کی وجہ سے پہچانتے ہیں ، عبدالرحمن بلوچ ، ارشد پپو، بابا لاڈلا ، شیراز کامریڈ ، عزیر بلوچ جیسے کئی'' بد '' ناموں نے لیاری کو ایک الگ ہی پہچان دے دی ہے۔لیاری رقبے کے لحاظ سے کراچی کے اٹھارہ ٹاؤن میں سب سے چھوٹا ٹاؤن ہے ۔ اگست2000 میںبلدیاتی نظام متعارف کیے جانے کے ساتھ ہی کراچی ڈویژن اور اس کے اضلاع کا خاتمہ کر کے شہری حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ، جس میں لیاری کو بھی ٹاؤن کا درجہ دیا گیا۔ لیاری میں بلوچ ، مکرانی، سندھی،کچھی،گجراتی، اردو، پنجابی ، پشتو ، سرائیکی ، ہندی بولنے والوں کی بڑی تعداد عرصے سے آباد ہے۔

ستمبر2014 میں دنیا نے لیاری کا ایک نیا چہرہ دیکھا ، جب لیاری فسٹیول(ایل ایف ایف ) کا انعقاد کیا تھا ۔ جس میں نوساچ اکیڈمی ، ویمن ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن پاکستان ( ڈبلیو ڈی ایف پی) اور کراچی یوتھ انیشی ایٹو ( کے وائی آئی)کے اشتراک سے مجموعی طور پر مختصر اور طویل دورانیے کی 37فلمیں دکھائی گئیں اور چار ججوں پر مشتمل پینل نے فیچر اور شارٹ فلموں کے سات سات اور دستاویزی فلموں کے لیے چار شعبوں میں ایوارڈ دیے۔ نوساچ فلم اکیڈمی کے پروجیکٹ لیڈرعادل حسین بزنجو کا کہنا تھا ''کہ ایل ایف ایف لیاری کو نوجوانوں کی طرف سے صرف لیاری کے لوگوں ہی کے لیے نہیں بلکہ کراچی کے سب لوگوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔''

جب کہ نوساچ کے صدر عمران ثاقب کا کہنا تھا کہ ''لیاری شروع ہی سے پاکستان اور سندھ کی فلم سازی میں نمایاں کردار ادا کرتا رہا ہے ، لیاری نے فلمی صنعت کو اداکار بھی دیے ہیں اور تکنیک کار بھی ، ہم نے صرف اُس تسلسل کو جوڑا ہے جو ٹوٹ گیا تھا۔'' لیاری کو جس زاویے سے جتنا پڑھا جائے اتنا ہی کم لگتا ہے۔لیاری میں واحد بخش بلوچ جیسے باہمت نوجوان بھی پیدا ہوئے جنھوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے منشیات فروشوں کے خلاف تحریک شروع کی جسے ضیاء الحق کے مارشل لا دور میں قتل کردیا گیا۔ واحد بخش بلوچ کا ساتھی ناصر داد بلوچ بھی اس وقت کی سب سے زیادہ بدنام زمانہ افشانی گلی میں رہتا تھا ، جیسے مقامی لوگوں کی حمایت حاصل تھی اور بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے منشیات فروشوں کو بھگا کر نائٹ اسکول قائم کیے تھے ۔ پہلا نائٹ اسکول بمبا سا گلی میں قائم کیا گیا ۔

محود عالم اور امین بلوچ کئی برس تک اسے چلاتے رہے۔آج جب لیاری کمزور دلوں کے لیے خوف کا نمونہ ایک سازش کے تحت بنا دیا گیا ہے ۔اس کے باوجود لیاری میں ایک تعلیمی ادارہ ''کرن اسکول'' قائم ہے جو چودہ سال سے ' سبینہ' نامی خاتون کی جرات مندی اور تعلیم سے محبت کی بنا ء پر قائم دائم ہے'سبینہ ' کا ماننا ہے کہ'' کرن اسکول میں ہم لیاری کے لائق اور ذہین بچوں کو داخل کرتے ہیں اس کے بعد انھیں تیار کرتے ہیں تاکہ وہ نجی اسکولوں میں داخلہ لے سکیں ، یہ ایک ایسا موقع ہے جو وہ کسی صورت کبھی حاصل نہیں کر سکتے۔'' ' سبینہ ' جہاں اس پر تشدد ماحول میں بچوں کو باہرکا جہاںاور شہر کی تفریح گاہوں میں لے جا کر نئی دنیا متعارف کراتی ہیں تو بچوں کے والدین سے بھی ملاقات کر کے انھیں تعلیمی شعور سے آگاہ کرتی ہیںاور والدین کے ساتھ مشترکہ نشستوں کا انعقاد بھی کرتی ہیں۔

لیاری میں ثقافت کے تمام رنگ موجود ہیں ۔ سیاست سے لے کر فنون تک اور کھیلوں میں فٹ بال اور باکسنگ کی ایک منفرد پہچان لیے لیاری کی تاریخ کو ایک کوزے میں بند نہیں کیا جاسکتا ۔ غور طلب بات صرف اتنی ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ لیاری کو جہاں کالعدم تنظیموں ، گینگ وار جماعتوں یا مخصوص سیاسی جماعتوں کے درمیان شکار کے لیے چھوڑدیا گیا ہے۔ مستقل مزاج اور مضبوط قامت کے حامل تاریخی حیثیت رکھنے والی بلوچ قوم کے تشخص کو اس قدر مسخ کیوں کیا جا رہا ہے ۔کیوں لیاری کا نام سامنے آتے ہی ، ماسوائے قتل وغارت ، منشیات ،بھتہ خوری اور گینگ وار کے کوئی دوسرا خیال نہیں آتا۔کیا لیاری کے اس تشخص کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے تاکہ محنت کش قوم کو ایک جرائم پیشہ قوم بنا کر مخصوص مقاصد حاصل کیے جاسکیں۔ سابق صوبائی وزیر داخلہ ذوالفقار مرزا کے دور میں جس طرح لسانی طور لیاری کو تقسیم کیا گیا اس کے اثرات آج تک کراچی پر حاوی ہیں۔ایم کیو ایم اور امن کمیٹی کے درمیان تنازعے نے شہر میں ایک ایسا سراسیمگی کا ماحول پیدا کردیا تھا کہ اس کے اثرات نہ جانے کب تحلیل ہونگے۔

جس طرح ایم کیو ایم کے خلاف 992, 1994,1 996, 1998,1میں ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیااس کے باوجود ایم کیو ایم سندھ میں مارشل لاء لگانے کے لیے مطالبے کرتی نظر آتی ہے تو اسی طرح لیاری میں متواتر گینگ وار نے امن پسند عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور ارباب اختیار نے امن کے بجائے تشدد کی فضا بنانے کے لیے شعلہ بیانی کے نت نئے ریکارڈ قائم کرکے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔کراچی میں لسانی سیاست ، اردو ، پشتو ، بلوچ ، سندھی، کچھی تک محدود نہیں رہی بلکہ کراچی میں رہنے والی تمام قومیتوں کو لسانی عفریت نے گھیرے میں لیا ہوا ہے اس پر فرقہ وارانہ ماحول نے کراچی کو ہی لیاری بنا دیا ہے۔

ایک طرف کراچی امن کے لیے ترس رہا ہے تو ارباب اختیار کے پس پردہ منصوبہ سازوں نے لیاری کے تشخص کو بگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔کراچی میں مسلسل دہشت گردوں کی حکمرانی اور حکومت کی رٹ نہ ہونے پر عوام ایک ایسے خوف کے ماحول میںرہ رہے ہیں ، جس میں انھیں باعافیت اپنے گھر واپس آنے کی کوئی ضمانت حاصل نہیں ہے۔پولیس و رینجرز اہلکاروں سے لے کر سیاسی وغیر سیاسی افراد کی ٹارگٹ کلنگ کے نہ رکنے والے سلسلے نے ثابت کردیا ہے کہ کراچی میں بد امنی کی ڈور لیاری میں نہیں بلکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والوں کے پاس ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔