سیاسی مفادات اور ضمیر

ہماری آج کی سیاست ایسے باضمیر کہلانے والے کرداروں سے بھری پڑی ہے۔


Muhammad Saeed Arain January 24, 2015

PERTH: مشہور شاعر مرحوم اقبال عظیم کا ایک شعر ہمارے ملک کی سیاست کے عین مطابق ہے کہ:

جھوٹ بھی بولیں صداقت کے پیامبر بھی بنیں
ہم کو بخشو یہ سیاست نہیں ہوگی ہم سے

پیپلز پارٹی کے دوسینئر رہنماؤں اورجلد ہی ریٹائر ہونے والے سینیٹروں میاں رضاربانی اور چوہدری اعتزاز احسن نے موجودہ سیاست میں ضمیر اور مفادات کا یہ مظاہرہ سینیٹ میں 21 ویں ترمیم کے موقعے پر کر دکھایا۔ میاں رضا ربانی تو اس موقعے پر اپنے جذباتی خطاب میں چوہدری اعتزاز احسن پر بازی لے گئے اور انھوں نے گلوگیر آواز میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا سیاسی مفاد پورا کرنے کے لیے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دے کر پارٹی کو اس کی امانت لوٹا دی مگر دو ماہ بعد ختم ہونے والی سینیٹ سے مستعفی ہونا اس لیے گوارا نہیں کیا کیونکہ پارٹی قیادت ناراض ہوکر انھیں پھر سینیٹر نہ بنواتی۔ اس لیے انھوں نے اپنے ضمیر کے خلاف پارٹی ہدایت پر ووٹ دینے پر ہی اکتفا کیا۔

پی پی کے یہ دونوں سینیٹر ہی کیا ہماری آج کی سیاست ایسے باضمیر کہلانے والے کرداروں سے بھری پڑی ہے اور ہر پارٹی میں ایسے لوگ موجود ہیں جو ضمیر اور اصولوں کی باتیں کرتے نہیں تھکتے اور وقت آنے پر اپنی پارٹی کی ہدایت پر عمل کرنے میں بھی دیر نہیں لگاتے۔ ماضی کی سیاست میں ایسے بے شمارکردار بھی نمایاں رہے جنھوں نے اپنے ضمیر اور اصول کے لیے اپنی پارٹیوں سے ہی نہیں بلکہ اہم حکومتی عہدوں سے بھی علیحدہ ہونا گوارا کرلیا اور پارٹی کی دی گئی امانت صرف پارٹی ہدایت پر ووٹ دے کر نہیں بلکہ پارٹی بھی چھوڑنے میں دیر نہیں کی۔ ہمارے یہاں فوجی عدالتوں کی حمایت تو کیا ہمارے سیاسی رہنماؤں نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دیے جانے کے بعد آمریت کی حمایت میں بھی دیرنہیں لگائی اور جمہوریت چھوڑ کر آمروں کی گود میں جلد جانا اس لیے گوارا کرلیا کہ کہیں پیچھے ہی نہ رہ جائیں۔

ابھی چند سال قبل ہی سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کو کون بھول سکتا ہے جو اپنے سیاسی قائد جنرل پرویز مشرف کو ایک نہیں دس بار فوجی وردی میں صدر منتخب کرانے کے دعویدار تھے اور فوجی وردی کو اپنی کھال قرار دینے والے جنرل کے زبردست حامی رہے مگر فوجی صدر کے مستعفی ہونے کے بعد لاوارث ہوکر رہ گئے مگر آمریت کی حمایت پر کبھی شرمساری ظاہر نہیں کی۔

محترمہ کی شہادت کے بعد (ق)لیگ کو قاتل لیگ قرار دینے والوں کو بھی اقتدار میں آکر اقتدار بچانے کے لیے قاتل لیگ والوں کے سہارے کی ضرورت آپڑی تھی اور جمہوریت بچانے کے حالیہ دعویدار کو فوجی صدر کے زبردست حامی چوہدری پرویز الٰہی کو آئین میں موجود نہ ہونے والا ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ بھی دینا پڑ گیا تھا۔

جنرل پرویز کے ہاتھوں معزول کیے جانے والے موجودہ وزیر اعظم بھی سیاسی مفاد کے لیے جنرل پرویز کے حامیوں کو اپنی کابینہ میں لینے پر کیوں مجبور ہوجاتے ہیں یہ عوام تو نہیں جانتے مگر میاں نواز شریف ضرور جانتے ہوں گے۔ اب تو سابق فوجی صدر جنرل (ر) پرویز مشرف پر غداری کیس بھی ڈانواڈول نظر آرہا ہے۔ سیاسی مفادات ہوں یا سیاسی مصلحتیں سیاستدانوں کو اپنے ضمیر اور اصولوں سے ہٹنے پر مجبور ہونا ہی پڑتا ہے اور انھیں نہ صرف اپنے موقف کو تبدیل کرنا پڑتا ہے بلکہ جھوٹ پر جھوٹ بھی بولنا پڑ رہا ہے اور وہ پھر بھی صداقت کا پیمبر بننے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

الیکٹرانک میڈیا سے قبل بھی سیاستدان جھوٹے بولتے تھے اور اپنے بیانات، تقریروں اور پریس کانفرنسوں سے منحرف ہوجاتے تھے اور پرنٹ میڈیا کے پاس ثبوت کی صرف ٹیپ کی گئیں کیسٹیں ہی ہوتی تھیں مگر اب الیکٹرانک میڈیا کے پاس سیاستدانوں کی ہر چیز کی آڈیو اور ویڈیو موجود ہے مگر سیاستدانوں کے جھوٹوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے اور وہ ڈھیٹ بن کر اب بھی حقائق سے پھر جاتے ہیں اور کہتے ہیں میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں تھا یا میرا بیان غلط سمجھا گیا ہے۔

اقتدار سے فارغ اور اقتدار میں موجود سیاسی رہنما لگتا ہے کہ اصولوں اور ضمیر سے فارغ ہیں۔ اپوزیشن میں رہ کر رینٹل پاور کی مخالفت میں پیش پیش خواجہ آصف اب وزیر پانی و بجلی بن کر رینٹل پاور منصوبوں کی حمایت کر رہے ہیں جس پر مخدوم فیصل صالح حیات جو پہلے ان کے موقف کے ساتھ تھے اب خواجہ آصف کے موقف تبدیل کرنے پر پھر عدالت عظمیٰ جانے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ سابق مضبوط ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ان سے اختلاف رکھنے والے متعدد بااصول سیاستدانوں اور وزرا نے رضاربانی کی طرح ٹسوے نہیں بہائے تھے بلکہ ببانگ دہل اپنے قائد سے اصولی اختلاف ظاہر کرکے وزارتیں اور اپنی پارٹی تک چھوڑ دی تھی مگر ضمیر کے خلاف ووٹ دیا تھا نہ اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ کرنا گوارا کیا تھا۔

باضمیر اور اصول پرست سیاستدان ہر دور میں رہے ہیں مگر بدلتی سیاست کے ساتھ ان کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور سیاسی مفاد پرستی اور سیاسی مصلحتیں سیاسی رہنماؤں کی مجبوری بن گئی ہیں۔ پہلے باضمیر اور بااصول سیاسی رہنماؤں کو لالچ دے کر ان کی سیاسی وفاداری تبدیل کرائی جاتی تھیں اور ایسا نہ کرنے پر انتقامی کارروائیوں کے ذریعے انھیں ایسا کرنے پر مجبور کردیا جاتا تھا۔ بھٹو حکومت میں آزاد سیاستدان جب غیرمتوقع طور پر پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے تھے اور راقم نے مرحوم رحیم بخش سومرو سے وجہ پوچھی تھی تو انھوں نے صاف کہا تھا کہ وہ کسی اصول پر نہیں بلکہ جوتے کھا کر پیپلز پارٹی میں شمولیت پر مجبور ہوئے ہیں۔

موجودہ سیاست میں ایک ہی گھر کے سیاستدان مختلف سیاسی پارٹیوں میں شامل ہیں اور ہر کوئی اسے اپنے ضمیر کی آواز اور اصول قرار دیتا ہے۔ ایک بھائی حکومت اور دوسرا اپوزیشن میں ہے اور اب تو اسمبلی نشست کے لیے میاں بیوی بھی آپس میں لڑنے لگ گئے ہیں اور انھیں اپنی ازدواجی زندگی اور بچوں سے زیادہ سیاسی مفاد زیادہ عزیز ہونے لگا ہے۔ سیاسی قائدین نے اپنی جماعتوں میں باضمیر اور بااصول رہنماؤں کو کنٹرول کرنے کے لیے اٹھارویں ترمیم میں ایسے قانون شامل کرادیے ہیں۔

جس کی وجہ سے کوئی رکن اسمبلی اپنی پارٹی اور قائد کے فیصلے سے اختلاف نہیں کرسکتا اور اپنے ضمیر اور اصول کو بالائے طاق رکھ کر رضا ربانی اور اعتزاز احسن کی طرح مخالفت میں ووٹ نہیں دے سکتا۔ اب سیاسی قائدین نے کنٹرولڈ ڈیموکریسی قائم کرلی ہے تاکہ ان کا اقتدار اور پارٹی محفوظ اور مضبوط رہے۔ سیاسی مفاد اور مصلحت کا شکار سیاسی رہنماؤں نے بھی ضمیر اور اصول تبدیل کرنا شروع کردیے ہیں۔ انھیں اپنی حکومت میں سب اچھا اور اپوزیشن میں آکر سب خرابیاں نظر آتی ہیں اور اقتدار میں خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں